نظمیں کہتا ہوں
یار میں اب بھی
بوسیدہ قبروں پہ تازہ
کتبے لکھتا ہوں!۔
تنہائی کے جنگل میں
وقت گزاری کو
کیا کیا کرنا پڑتا ہے
گھر میں کچھ آسیب بُلالیتا ہوں میں
کمرے میں چاروں جانب
آئینے رکھتا ہوں
گلدانوں میں سانپ سجا لیتا ہوں میں!۔
زرد رُتوں میں سبزہ بھرنا ہوتا ہے
ذکر تمہارا
چاند سے کرنا ہوتا ہے
اکثر ایسا ہوجاتا ہے
چاند سے جَھگڑا ہوجاتا ہے !۔
شبنم پھول سے گرتی ہے
اور مٹی میں جب ملتی ہے
تورفتہ رفتہ
درد کی ساری فصلیں باہر آجاتی ہیں
درد تمہارے
یادوں کے ساحل پہ اکثر
ملاحوں کے رُوپ میں آجاتے ہیں
غم کے نوحے پڑھتے ہیں
لہریں ماتم کرتی ہیں
اور میں سُنتا رہتا ہوں
وقت گزاری ہوجاتی ہے !۔
جیون کتنے رُوپ بدل کر
کتنی گرہیں کھولے گا
جانے کتنے رنگ بدل کر
کتنے لہجے بولے گا؟
مشکل سے اس جیون کو بنیاد کیا ہے
غیر آباد جزیرے کو آباد کیا ہے ۔۔۔!۔