ہمارے خطے میں عوامی تنظیمیں کھڑی کرنے کی بظاہر بے ثمر راہوں میں کھپ جانے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ اُن کی راہوں میں کیا کیامشکلات ہیں۔ اُن میں سے پیدائشی مشکلات کیا ہیں ،اور کھڑی کی جانے والی مشکلات کیا کیا ہوسکتی ہیں۔
سب سے بڑی بات یہ دیکھنی ہوتی ہے کہ جس سماج میں آپ یہ کام کررہے ہیں اُس سماج کے ممانعات ومسلّمات کیا کیا ہیں۔ چونکہ تنظیم کاری ہوامیں نہیں ہوتی ،اور نہ ہی بے جان یا بے دماغ اشیا کی ہوتی ہے۔اس لیے محض سیٹی بجانے سے تنظیم نہیں بنتی ۔ آپ کو اُس سماج کی حساسیتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔
ہماری نتیجہ نہ لانے والی سماج تاریخ بتاتی ہے کہ آئیڈیل تنظیم کھڑی کرنے تو کبھی نہیں دی گئی مگر بار بار اِس کوشش میں اِن سماجی حسیاسیات کو ایک طرح سے زندگی عطا ہوتی رہی۔ لگتا ہے سماجی ترقی کے لیے کام کرنے والوں کے اپنے ہاتھوں بھی سماجی ترقی کی رکاوٹی باتوں کو دوام ملتا رہا ہے ۔
یہی حال بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے ہمارے بزرگوں کا بھی تھا۔یوسف اور اس کے ساتھی جو نئی پارٹی بنانا چاہ رہے تھے اُس سلسلے میں بھی اِن چیزوں کا بخوبی تجزیہ کیا جاتا رہا۔ اپنے تئیں لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اُن کے محسوسات کو اچھی طرح جگہ دی گئی تھی ۔ اس حد تک کہ کبھی کبھی پیغام ترقی پسند ی اور رجعت پسندی کی ملی ہوئی سرحد پہ جاکھڑا ہوتا ہے۔’’البلوچ ‘‘کے18دسمبر 1932کے شمارے میں عبدالخالق کے مضمون ’’جیکب آباد چلو‘‘ کے لیے لوگوں کو دعوت دینے کا انداز تو دیکھیے:
’’ ہم سب ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوجائیں ۔ اور وہ جھنڈا نوائے ملت نواب زادہ میر محمد یوسف علی خان صاحب عزیز مگسی بلوچ کا اسلا می عَلم ہونا چاہیے ۔
’’آج مسلمانوں نے اسلامی عَلم کا شان برباد کر دیا ہے اور ہرمسلمان فرداًفرداً اپنی شہرت کے پیچھے ہے ۔لیکن یاد رکھوکہ جب تک مسلمان اپنے مذہب کی بہتری کے لیے کوئی رستہ سوچ نہ نکالے اس وقت تک ان کا ترقی کرنا خواب وخیال ہے ۔اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم اپنے اسلاف کی طرح جنہو ں نے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ دامنِ اسلام کو مضبوط پکڑ کر ترقی کی راہ تلاش کریں ۔ پہلی صدی کے عَلم پر خدائے قدوس کا اسم پاک لکھا رہتا تھا۔ لیکن بخلاف اس کے آج اگر دیکھا جائے تو ہر قوم نے اپنا جھنڈانیا بنا یا ہے ۔گو یا کہ اُن کو اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔کسی نے اسلامی جھنڈے سے یہ مراد لیا ہے کہ اس پر چاند تارا بنا ہو ،کسی نے جھنڈے پر بھیڑ یے کا عکس لگانا ہی اسلامی شان سمجھا ۔ تیسرے نے جنگل کے بادشاہ ، شیر ، کو ہی جھنڈے پر موزوں قرار دیا اور چوتھے نے مقبرے کے فوٹوہی جھنڈے پر لگانا اپنی عزت خیال کی ۔۔۔۔۔ ایسی حالت میں جبکہ اسلامی جھنڈا مفقود ہو ۔ بلوچوں کو چاہیے کہ اسلامی جھنڈے کے نیچے جس پر کہ اللہ اکبر لکھا ہو پہلی صدی کی اسلامیت کو زندہ کریں۔ اور یہ شہرہ اپنے ہی سر پر لگائیں۔
’’۔۔۔پیش ازیں کہ میں اس دفتر کو ختم کروں یہ ضروری سمجھتاہوں کہ ہر ایک طرف سے بلوچ ننگے سر اور ننگے پیر جھومتے جھامتے جیکب آباد کی طرف اس رغبت سے چلیں جس طرح کہ شہد کی مکھیاں اپنے چھتے کی طرف جاتی ہیں اور عاشقانِ صادق اپنی محبت کے تقاضا پر بلا کسی خوف وخطر کے جاتے ہیں۔۔۔‘‘
***
لیکن ابھی کافی پاپڑ رہ گئے تھے جنہیں بیلنا باقی تھا۔ سرداروں کو اُس کانفرنس میں کھینچ لانا بہت ضروری تھا۔وجہ ؟۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اُس زمانے میں سماج میں نیم پڑھے لکھے لوگ وہی تھے ، جہاندیدگی بھی پوری یا ادھوری اُنہی کے پاس تھی ۔ پھر اُن کے پیرو کار قبائل انہی کے ابرو کے اشارے پرچلتے تھے۔ مگر تیسری داؤ پیچی اہم بات یہ تھیکہ یہ لوگ انگریز سرکار کے سینے کے بال (محبوب ) ہوا کرتے تھے ۔ اُن کی شمولیت ہوتی تو انگریز اور عوام دونوں ،کانفرنس کی طرف معاندانہ نہ ہوتے ۔
مگر سرداروں کا کانفرنس کے بارے میں رویہ ہنوز شش اور پنج کاتھا۔ وہ بہت شک سے اس کانفرنس کو دیکھ رہے تھے ۔ اس لیے کہ اُس حساس طبقہ کو معلوم تھا کہ قبائلی سٹرکچر سے باہر کسی قسم کا عوامی اجتماع سردار کے ادارے کی نفی تھا ۔ کانفرنس والے بے چارے لاکھ آیتیں پڑھ رہے تھے ، لاکھ بلوچ قومیت کے نعرے جپ رہے تھے ، لاکھ حب الوطنی کے پیرائے میں بول اور لکھ رہے تھے مگر سردار کا سر تھا کہ اثبات میں جنبش ہی نہ کھاتا تھا۔نیک بخت ’’ہاں‘‘ کرکے دیتے ہی نہ تھے۔ بات’’غور کروں گا ‘‘ اور’’ کوشش کروں گا‘‘۔’’ انشاء اللہ ‘‘سے آگے بڑھتی ہی نہ تھی۔
اُس پروپیگنڈہ کا تو جواب پہلے ہی دیا جاچکا تھا جس میں کانفرنس دشمنوں نے سرداروں کے کان بھرے تھے کہ یہ کانفرنس سرداروں اور سرداری نظام کے خلاف ہے۔ اب اُن کی سازش کی اگلی قسط تیار تھی ۔ یہ کہ : ’’سردار تو اس کانفرنس میں حصہ ہی نہیں لے رہے، لہٰذا یہ کانفرنس ناکام ہوگی‘‘۔
کیا کیا جاتا؟ ۔ منتظمین نے اپنی سی ہر کوشش کرکے دیکھی تھی ۔ مگر طبقاتی مفاد بہر حال کسی چیز کا نام ہوتا ہے ۔ جس کے اصول اور قوانین بہر حال لاگو ہوتے ہیں ۔ لہذاسرکار اور سردار کسی طرح کارِسک نہیں لے سکتے تھے ۔ حالات کو جوں کاتوں رکھنا اُن کے طبقے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ خواہ گزرا ہوا کل ہویا آنے والا کل۔
چنانچہ اب اگر سردار واضح بات نہیں کر رہے تھے تو بلوچ کانفرنس کو بالآخردوٹوک بات کرنی تھی۔ لہذایوسف عزیز مگسی نے ایک مضمون لکھا تھا’’ایک عام غلط فہمی ‘‘ کے نام سے (سالنامہ’’بلوچستان ‘‘ کراچی 1939):
’’ نہ صرف بلوچوں اور بلوچستانیوں میں بلکہ سندھ پنجاب میں بھی یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور میں کہوں گاکہ اس پروپیگنڈے کی اشاعت کی ذمہ داری زیادہ تر حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ بدنصیب بلوچوں پر مسلط شدہ سردارانِ قوم آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں شرکت نہیں کرتے۔ اور اس لیے کانفرنس کو قومی حمایت حاصل نہیں ۔میں اس کی صفائی میں کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔ مجھے صرف اس قدر عرض کرنا مقصود ہے کہ یقیناًاس پروپیگنڈے کی اہمیت بڑھ جاتی اگر ہم’’ آل انڈیا بلوچ سردار کانفرنس ‘‘کے انعقاد کا اعلان کرتے ۔ جب کہ یہ عام بلوچوں اور بلوچستانیوں کی کانفرنس تھی اور اس میں سردار وغریب کی شیطانی تقسیم کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی ۔ اور جس میں ہمارے غریب ومتوسط طبقہ کے غیور اور بیدار بلوچ نہایت والہانہ شوق وذوق سے شرکت فرما رہے ہیں تو سردار صاحبان کی عدم شرکت کو(جوو اللہ اعلم کن پیچ درپیچ مصالح پر مبنی ہے )کیوں کانفرنس کی ناکامیابی کہا جارہا ہے ۔ جب کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ یہ اور اس قسم کا نامزد طبقہ اصلاحی ، وطنی تحریکوں سے ہمیشہ کنارہ کش اور روپوش رہتا ہے۔ اور صداقت کے پلیٹ فارم کو ہمیشہ غریبوں نے ہی سجائے رکھا ہے ،امرا کے لیے تو حق ،لاحول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پس ان کی شرکت اور عدم شرکت کو دلیل، کامیابی اور ناکامیابی سمجھنا انتہا کی بدبختی وجہالت نہیں تو کیا ہے؟۔
’’غریب اور سفید پوش بلوچ اور بلوچستانیوں کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اس قومی اجتماع کو حقیقی معنوں میں کامیاب کرنے کا عزم کر کے اُٹھیں جس طرح وہ اس وقت تک اٹھ چکے ہیں، اور معاندینِ حق کے اس غلط پروپیگنڈے سے قطعاً اثر پذیر نہ ہوں کہ اس کے نتائج گورنمنٹ کے ساتھ تصادم کی صورت میں نمودار ہوں گے۔ ہمارے مقاصد بالکل صاف اور واضح ہیں اور گورنمنٹ کے ذمہ دار افسران کو متعدد بار اپنے مقاصد سے آگاہ کیا جاچکا ہے اور اس وقت تک انہیں ہمارے مقاصد سے عملاً کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہونا چاہیے جب کہ گورنمنٹ کی مخالفت کا کوئی سوال ابھی تک یہاں زیر بحث اور پیش نظر نہیں ۔
یاایھاالذین امنو اصبروا و صابرواور ابطوا والقوا اللہ لعلکم تفلحون
چو موج خیز بہ یم جادوانہ مے آویز
کرانہ مے طلبی بے خبر کرانہ کجا است!
***
میری اب تک کی تحریر سے اگر یہ تاثر قائم ہورہا ہے کہ سب کچھ جیکب آباد اور آس پاس ہورہا تھا،تو یہ ٹھیک با ت نہیں ہے۔نہیں، قطعاً ایسا نہیں ہے ۔
جیکب آباد سے ساڑھے تین سو میل دور لورالائی آئیے۔ وہاں ابھی ابھی ایک انگلش ٹیچر تعینات ہوا ہے ۔ اور اُسے وہیں آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے انعقاد کے پوسٹر موصول ہوتے ہیں۔ وہ انگلش ٹیچر ، جی ہاں انگریز کے دور کا سرکاری ملازم، اُن پوسٹروں کو بہ نفسِ نفیس دیواروں پر چسپاں کرتا جاتا ہے ۔ پاداش میں ٹرانسفر ، سبی سکول ۔
ٹیچرکون ہے ؟ وہ کوئی اورنہیں میرا آپ کا بزرگ ،ہاشم غلزئی ہے ۔
اُدھرخان عبدالصمد کی شبانہ روز محنتوں کی برکت سے گلستان اور آس پاس سے کافی لوگ کانفرنس میں شمولیت کے لیے تیار ہو گئے۔ اُن لوگوں نے اچھے خاصے پیسے بھی جمع کئے تھے ۔بقول خان اچکزئی کے ’’اس جلسے کے لیے ہم نے کچھ رضا کار بھی مقرر کئے جن کی وردی بلوچوں کے قومی جھنڈے کی طرز پر سرخ قمیص اور سبز شلوار تھی ‘‘(7)۔ رضا کاروں کا سربراہ خان صاحب کا ماموں زاد جناب محمد اسلم خان تھا ۔(صمد خان کے قربان!، اسلم خان کے قربان!)۔
ایسے تھے ہم ، اور ایسی تھی ہماری اولین اڑان کی کہانی۔ ہماری سرزمین میں بہت کچھ ہے دنیا کو دکھانے کو ۔ ایسی شاندار تاریخ جسے کھو جاہی نہ گیا، جسے تلاشاہی نہ گیا۔ یہ اِس پورے منطقے میں ا پنی نوعیت کی انوکھی اور اولین تحریک تھی۔ کاش ریسرچ کے وسائل ہماری پچھلی نسل کودوچار دہائیاں پہلے میسر ہوتیں!۔
یہیں کہیں ٹوٹل کمٹ منٹ کا مالک یوسف عزیز، وارفتگی کی حد تک بلوچ کا ز سے وابستہ یوسف ،اوردیوانگی کی حد تک عوام دوستی میں ڈوبے ہوئے یوسف نے یہ شاعری کی تھی:
خزاں رسیدہ ہے مدت سے گلستانِ بلوچ
نوائے بلبلِ نالاں ہے، نوحہ خوانِ بلوچ
نگاہِ اوج میں پستی کا مٹ چکا احساس
زمین بھی نظر آتی ہے آسمانِ بلوچ
جمود ایسا کہ آثار زندگی مقصود
جہاں سے ہے نرالا مگر جہانِ بلوچ
تمہاری چاہ میں یوسف نے سختیاں جھیلیں
تجھے خبر بھی ہے گم کردہ رہ جوانِ بلوچ
قریب تر نظر آتی ہے منزل مقصود
علی نواز ہے جب میرِ کاروان بلوچ
خدا کے واسطے اے قوم ہوش میں آجا
دکھا دے دنیا کو کیسی ہے آن بان بلوچ
ایسی بڑی کانفرنس کے لیے استقبالیہ کمیٹی قائم کرنا تو ضروری ہوتا ہے ۔کانفرنس کے لیے غلام قادر بلوچ ایڈووکیٹ کی سربراہی میں استقبالیہ کمیٹی قائم ہو ئی ۔
بلوچ کانفرنس کے عزائم واضح تھے۔ عوامی کاز کایہ جلسہ تھا۔ اس کے لیے درکار پیسہ کہاں سے آتا؟۔ اپنا مال واسباب تولٹا دیا تھا، سرداروں اور متمولوں سے اپیل کی گئی تھی ۔ عوام میں بھی چندہ کیا جاچکا تھا۔علی گڑھ سے میر جمعہ خان کی لکھی ایک اور چندہ اپیل بھی دیکھیے۔ (البلوچ 4دسمبر 1932)۔عنوان ہے:نواب زادہ یوسف علی خان کا دورہ
’’بلوچ بھائیوں سے گزارش
’’حالانکہ لبوں پر مہر سکوت۔۔۔ اور الفاظ کے ذریعہ جذبات دردانگیز سے بزم اغیار میں تہلکہ مچانے سے یک گونہ انجام شکنی کے گناہ کا مرتکب ہوتا ہوں۔
لیکن ہے
نازیست فرض ضبط کی تعمیل ہے مگر
مجبوریاں بھی دیکھ دل نا صبور کی
’’مرغ گرفتار کی طرح درد مندانہ نغمہ سرائی کو بند کرنے سے مجبورہوں۔ اس لیے کہ آسمان ظلم وستم کو چیرنے والا میرا نالہِ بے باک میرے لبوں پر مصلحتِ وقت کی مہرِ خاموشی کو بھی پارہ پارہ کردیتا ہے
حافظ بخودنہ پوشیدایں خرقہ مے آلود
اے شیخ پاکدامن معذوردار مارا
’’کہنا یہ تھا کہ ایک نوعمر سردار (جس کی پرورش بلوچی ماحول میں ہوتی ہے جہاں اللہ پاک کی جباریت وقہاریت سے ڈر کر شرعی احکام کی پابندی کرنا خلافِ شان سمجھی جاتی ہے) عیش وعشرت کی زندگی محل ‘چنگ وسرود‘بزم ساقی وصحبتِ یار کی دیرینہ ر وایات ترک کرتا ہے اور مستانِ محبتِ قوم کے زمرہ میں داخل ہوتا ہے ۔وہ سردار جاگیر دار‘ قوم محض قوم کی خاطر فقیرانہ لباس میں جلوہ افروز ہوتا ہے ۔ کا سہِ گدائی ہاتھ میں ہے ۔ کیونکہ اُس کی قوم نادار ہے مفلس ہے اور بے مدد گار ہے ۔ اس کی ہمراہی کا شرف سردار غلام رسول جیسے ’’پیر عمر نوجواں ‘‘ کو حاصل ہے ۔
’’ان انوکھے حاجتمند وں کی حاجت و نیاز مندی کے آگے خود بے نیازی سراپا نیاز ہوجاتی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ ہندوستان کے ہر حصہ کے زندہ دل بلوچ اُن کی حقیقتاًاپنی مالی، جانی ، زبانی امداد میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کریں گے ۔ امداد چاہے بڑی ہو یا چھوٹی : ۔
ہمیں بس گرچہ من کا سدکماشم
کہ درمسلک خریداران ہاشم ‘‘۔