نسب اور خاندانی احوال
محمد امین خان کھوسہ مشہور ومعروف بلوچ قوم کے کھوسہ قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ بلوچ قوم کی بابت دوجُدا روایتیں ہیں ۔ ایک روایت میں انہیں مشہور آریہ نسل کا شاخ قرار دیا گیا ہے ۔ دوسری میں انہیں سامائیٹ نسل کی شاخ ظاہر کرتے ہوئے ان کا نسب امیر حمزہ سے جوڑ دیاجاتا ہے ۔ اس سوال پر بحث کر کے کسی نتیجے پر پہنچنا اس کتاب کے دائرے سے باہر ہے ۔ یہاں صرف کھوسہ قبیلے کے نسبت تاریخی روایتی حوالے دے کر ان کے موجودہ جائے رہائش اور مختلف شاخوں کا مختصر ذکر کروں گا۔
اس قبیلے کا احوال مجھے مختصر طور درج ذیل انگریزی کتابوں سے ملاہے ۔
۔1۔پنجاب کی قومیں۔ مصنف سر ڈیزل البٹین کے سی ایس آئی 1883ء کا شائع شدہ
۔2۔ ایکراس دی بارڈ۔ پٹھان اور بلوچ ۔مصنف ایڈورڈ اولیور ۔1890کا شائع شدہ
۔3۔ بلوچی فوکلورا ور پوئٹری ۔ مصنف لانگ ورتھ ڈیمز۔ 1970شائع شدہ
۔4۔ سندھ گزیٹیئر
۔5۔ہسٹری آف بلوچ ریس اور بلوچستان ۔ مصنف محمد سردار خان1958کا شائع شدہ
دوسری کتابیں مجھے مل نہ سکیں اور نہ ہی مجھے اس مسئلے پر تحقیق کر کے مستندا حوال لکھنے کا خیال تھا۔ اس لیے مذکورہ کتابوں اور مقامی ہاتھ لگے احوال سے درج ذیل ذکر مختصر بیان کرتا ہوں
کھوسہ ،بلوچوں کے رند قبیلے کی شاخ ہیں۔ اصل کیچ کے تھے ۔ اس وقت ان کی زیادہ تعداد پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور کچھ بہاولپور میں آباد ہیں۔ پنجاب میں ان کی اہم شاخیں 1۔ بھیلانی 2۔عیسانی3۔ جاگیل4۔ جندوانی5۔جروار اور مہروانڑیں ہیں ۔ ڈیرہ غازیخان کے کھوسوں کا سردار جاگیل شاخ سے ہے ۔1848میں جب سکھوں اور انگریزوں کے درمیان لڑائی ہوئی تو کھوسہ سردار کوڑا خان نے ڈیرہ غازی خان شہر پر قبضہ کر کے انگریزوں کے حوالے کردیا۔
میجر پولک نے اپنے ریمارکس میں کھوسوں کے لیے لکھاہے ۔’’وہ جرائم پیشہ لوگ تھے‘‘ ۔لیکن تحقیق کے بعد معلوم ہوا اس کی یہ بات دُرست نہ تھی ۔ وہ بہادر ، جنگجو اور غیرت مند قبیلے کے افراد تھے ۔ کھوسہ کے متعلق سندھ گزیٹیئر کا بھی کہنا ہے ۔’’ یہ رند کی شاخ تھے جن کو ہمایوں بادشاہ کی مدد کرنے کی وجہ سے جاگیریں ملی ہوئی تھیں‘‘۔
سندھ میں جیکب آباد ، دادو، حیدرآباد اور تھر پارکر اضلاع میں مختلف شاخوں (پاڑوں ) کے کھوسہ رہتے ہیں۔ جیکب آباد ضلع میں ۔ جامانی ، بکھرانی،اور بلیلانی پاڑوں کے کھوسہ رہتے ہیں۔ ان کے مشہور سردار عبدالرحیم خان ہوگزرے ہیں۔ وہ لاولد تھے۔ اس وقت اس کی جگہ پر سردار عبدالرزاق خان مسند نشین ہیں۔ دادو ضلع میں میٹھر اور خیر پور نا تھن شاہ تحصیلوں میں بڑھانی، دوستانی،ہدوانی، روحلانی،بلیلانی، اونرانی اور، باشوانی پاڑوں کے کھوسہ رہتے ہیں ۔ جن کا اس وقت سردار غلام حیدر خان ہے ۔ دادو ضلع کے کوٹڑی تحصیل کے کھوسہ 4بڑے پاڑوں میں منقسم ہیں ۔ مٹیوال ، سلمن، کھلولانی، لالانی جن میں ہرپاڑے سے چھوٹی شاخیں نکلتی ہیں۔ مٹیوال پاڑہ کی بڑی شاخیں یہ ہیں:بندوانی،مکٹرانی، رحنانی، سنجرانی، فریانی،موندرانی، جھنڈانی،ڈتانی، عیسانی، جوگیانی، تگیانی، گھنوارانی اور مُلا۔ان میں ہر ایک کی پھر چھوٹی شاخیں ہیں۔ جن کا ذکر طوالت کی وجہ سے نہیں دے رہا۔ اس وقت ان کا مقدم لعل بخش سنجرانی ہے ۔ اسی طرح سلمن پاڑے کی یہ شاخیں ہیں۔ فانانی، ملھوانی، عیسانی، میروانی، لالانی، چاکرانی، الودانی، فتحلانی، نہالوانی، جوگیانی، بلیلانی۔ اس سارے قبیلے کا وڈیرہ غلام حسین خان فانانی تھا۔ جس کے بعد اس کی پگ بڑے فرزند دُرل خان کو باندھا گیا۔ پھر پاڑے میں باہمی اختلاف پیدا ہوئے اور وڈیرے اثر کھوبیٹھے۔ پھر کسی کو بھی پگ نہیں باندھا گیا۔ تیسرا بڑا پاڑا لالانی یا اسحاقانی کاہے ۔ جن کی بڑی شاخیں اسحاقانی ، پنجانڑیں، دُریانی، گوۂرامانڑیں، ریمکانڑیں، بٹالانڑیں، دھیرنانڑیں اور مٹھا نڑیں ہیں۔ ان کی بھی مزید چھوٹی شاخیں ہیں۔ اس وقت ان کا مقدم الیاس خان ہے ۔
چوتھا بڑا پاڑا کھلولانی ہے ۔ جس کی بڑی شاخیں یہ ہیں۔ لاسی ، بھورانی، ہیبتانی، کملانی، کوکانی، جندوانی، گاہیانی۔ ان کی بھی مزید چھوٹی شاخیں ہیں۔ ان میں محمد خان وریل خان، عمر خان ، وغیرہ بڑے آدمی ہو کر گز رہے ہیں۔ ا س کے علاوہ سندھ کے حیدرآباد اور تھر پارکر ضلعوں میں ان پاڑوں کے کھوسہ رہتے ہیں۔ گُھرامانی، احمدانی، صاحبانی، اور مہکانی وغیرہ ۔کافی کھوسہ سبی خاران اور کاٹھیا واڑ کی طرف بھی آباد ہیں جن کا احوال معلوم نہیں ہوسکا۔
محمد امین خان کی شخصی زندگی کا احوال
میاں محمد امین خان جامانی پاڑا سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ 11دسمبر 1913کو اپنے نانا کے گوٹھ میر حیات خان تحصیل ٹھل ضلع جیکب آباد میں پیدا ہوا۔ اس کے پڑدادا کا نام میاں ولی محمد خان عرف ولیو خان تھا۔ جو اپنے علاقے کا سخی مرد تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے ۔ میر حیات خان، محمد امین خان ۔ محمد امین خان پولیس میں بھرتی ہو کر سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچا۔ خلافِ معمول سارا وقت ایمانداری سے رہا ۔ اسے ایک بیٹا میاں عبدالعزیز خان پیدا ہوا۔
اس نے زمین سنبھالنے کا کام کیا ۔ کفایت شعاری اور محنت سے آسودہ حال ہوا ۔ اس نے اپنے چچا میر حیات خان کی بیٹی سے شادی کی۔ جس سے اسے دوبیٹے محمد امین خان اور میاں نظام الدین خان پیدا ہوئے ۔
میاں محمد امین خان نے ابتدائی تعلیم گوٹھ کریم بخش خان کھوسہ تحصیل ٹھل میں لی ۔وہاں سے آدم پور تحصیل نصیر آباد میں ماسٹر عبدالرسول کھوسہ کے پاس پڑھنے بیٹھا۔ وہاں سے پانچ جماعتیں پاس کر کے واپس آکر جیکب آباد ہائی سکول میں انگریزی پڑھنے لگا۔وہاں اُسے مسٹر غلام قادر خان وکیل اور مسٹر شیوار ام بھاگچند جیسے لائق استادوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔ اس نے 1928میں جیکب آباد ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اسی سال کے آخر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا۔1933میں وہاں سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد وکالت پڑھنے کے لیے وہیں لاء کالج میں پڑھنے لگا۔ 1936میں فرسٹ ایل ۔ ایل بی کا امتحان دیا۔ دوسرے سال پرووائس چانسلر پرو فیسر حلیم نے کسی وجہ سے اسے کالج سے فارغ کردیا۔ اس پر طلباء نے بڑی ہل چل چلائی مگر اسے دوبارہ داخلہ نہیں مل سکا۔ اس لیے اسے واپس گا ؤں آنا پڑا ۔
علی گڑھ میں قیام کے دوران اس نے سرراس مسعود ، ڈاکٹر محمد اقبال اور نواب محمد اسماعیل میر ٹھی سے واقفیت پیدا کر کے ان کی صحبت سے مستفید ہونے کی کوشش کی ۔ اس دوران کئی نوجوانوں سے اس کی واقفیت اور دوستی ہوگئی ۔ جن میں میاں غلام احمد خان بن نواب محمد اسماعیل خان خاص ذکر کے قابل ہیں۔
1935میں اصلاحات ایکٹ پاس ہونے اور سندھ جُدا ہونے کے بعد 1937کے اسمبلی انتخابات میں جیکب آباد ضلعے سے سردار جعفر خان بلیدی ، میر سہراب خان سرکی اور میر زین الدین خان سندرانی ممبر منتخب ہو کر آئے۔ سال کے آخر میں میر زین الدین خان سندرانی وفات کر گئے ۔ اس کی خالی نشست پہ دو امیدوار مدِ مقابل ہوئے۔ سردار شیر محمد خان بجارانی اور میاں محمد امین خان کھوسہ۔ ایک طرف بمبئی کونسل کا سابق ممبر، لاکھوں روپے کا مالک، سرکار میں خصوصی اثر رکھنے والا لقب بردار، قوم کا سردار عمر رسیدہ شخص امیدوار تھا۔ دوسری طرف علی گڑھ سے واپس آیا ہوا غیر تجربہ کار نوجوان طالب علم ،بڑے قبیلے کا فرد ہونے کے باوجود مقابلتاً کم دولت مند، سرکار مخالف جماعت کانگریس کا اُمیدوار ، وہ بھی ایسے ضلع سے جہاں فرنٹیئر ایکٹ کی موجودگی کیوجہ سے عملدار سیاہ وسفید کے مالک تھے ۔ ملکی اور قومی بیداری کانام ہی نہیں تھا۔ مگر حال ہی میں ایسے ہی پسماندہ ضلع لاڑکانہ جوزمینداروں اور بڑے لوگوں کی جاگیر رہا ہے ۔ شیخ عبدالمجید سندھی نے ضلع کے پہلے نمبر خاندان ، زمیندار اور گورنر سندھ کے صلاحکار سرشاہنواز بھٹو کو الیکشن میں شکست دی تھی۔ یہ دوسری آزمائش تھی۔ اُس الیکشن میں ڈاکٹر چوئیتھرام گدوانی ، پیر علی محمد راشدی اور کئی قوم پرست مولویوں نے میاں محمد امین خان کی مدد کی ۔ قسمت اچھی تھی ۔ والد بزرگوار اور پیر صاحب بھر چونڈی کی دعائیں شامل حال تھیں ۔ اس نے مارچ 1938کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ۔ یہ کامیابی سندھ میں قومی خادموں اور جماعتی نمائندوں کی دوسری کامیابی تھی۔
اس وقت توحالات پچاس برس پیچھے جاچکے ہیں۔ لیکن اس وقت کے بعد پھر کبھی سندھ کے عوام نے ایسی بیداری اور بلند ہمتی کا ثبوت نہیں دیا اللہ بخش وزارت نے شروع میں اچھے قدم اٹھائے ۔ اس نے لوکل باڈیز سے نامینیشن کا دستور ختم کیا۔ ریونیووزیر پیر الٰہی بخش کا گشت خاص اہمیت والا تھا۔ جس نے افسر شاہی کا رعب و دبدبہ کم کر کے عوامی امیدوں کو جگایا۔ لیکن آگے چل کر مضمون میں ذکر کیے گئے اسباب کی وجہ سے وزارت اور اتحاد جماعت میں اختلافات پیدا ہوگئے ۔ ہم جاکر مخالفت میں بیٹھ گئے۔ شیخ عبدالمجید کی طرف سے (مشورہ سے) برطرف وزرا کے حامیوں کی مسلم لیگ پارٹی بنی وہ بھی مخالفت میں بیٹھی ۔ بعد کے احوال زیادہ اور طویل ہیں۔ جس کا میں نے ’’نیئن سندھ لائے جدوجہد ‘‘ ’’پھنجی کہانی پھنجی زبانی‘‘ اور اس کتاب ’’جنب گزاریم جن سین‘‘ میں مختلف سیاستدانوں کی زندگی کے احوال میں ذکر کیا ہے ۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکرکرنا طوالت کا باعث سمجھتا ہوں۔
البتہ یہاں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ وہ سارا وقت میاں محمد امین ،خان بہادر اللہ بخش مرحوم کا حمایتی رہا ۔ ایک دفعہ بیماری کی حالت میں خود کو اٹھوا کر کانگریس پارٹی کی مخالفت کے باوجود اللہ بخش وزارت کو بچانے کے لیے آکر ووٹ ڈالا۔
یہ پہلے ہی قوم پرست مسلمانوں کا مصاحب اور حامی تھا ۔ مزید خان بہادر اللہ بخش مرحوم کی کوشش سے مولانا عبیداللہ سندھی ، سندھ واپس آیا تو اس کی صحبت سے مذہبی وسیاسی معلومات حاصل کیں۔ مولانا مرحوم اس کے پیر طریقت ، پیر صاحب بھر چونڈی کا فیض یافتہ بزرگ تھا۔ دوسرا اس نے سیاست ہند پہ ، اپنی جلاوطنی کے زمانے میں حاصل کیے گئے تجربے اور فکر کی بنا پر نئے نکتہ نگاہ سے روشنی ڈالی تھی۔ جو مُسلم لیگ اور کانگریس کے طریقہ کار سے کچھ علیحدہ تھی۔
منزل گاہ فسادات کے بعد جب ہندوؤں اور مسلم لیگ نے مل کر اللہ بخش وزارت کو شکست دے کر نئی وزارت قائم کرائی تو اس موقع پر 1940میں دہلی میں قوم پرست مسلم جماعتوں نے مل کر آزاد کانفرنس اللہ بخش کی صدارت میں کروائی۔ میاں محمد امین خان اس وقت بھی اس کا شریک کار تھا۔ لیکن 14مئی 1943کو اللہ بخش مرحوم کی شہادت کے بعد سندھی قوم پرست سیاست میں جو خلا پیدا ہوا۔ اس نے اس کو دل شکستہ کردیا۔ جلدی ہی ہمارا بھی مسلم لیگ سے ٹکر ہوگیا ۔ لیکن ہم ابھی تک اس کے مقصد کی حمایت کرتے آئے تھے اس لیے یہ نہ ہم سے مل سکتے تھے ، نہ مسلم لیگ میں جاسکتے تھے۔
وہ 1945تک سندھ اسمبلی کا ممبر رہا۔ اس کے بعد جیسے فرقہ پستی کا دور شروع ہوا تو یہ بھی ہم سب کی طرح اسمبلی سے باہر رہ گیا۔
سیاست میں محمد امین خان کو مجھ سے کافی باتوں پر اختلاف ہوتا تھا۔ لیکن اِس شخص نے محبت اور عزت کو کبھی بھی کمزور ہونے نہیں دیا۔ عین اسی وقت جب ہم اللہ بخش وزارت کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہوتے تھے اور دونوں گروہوں کے درمیان ایسے اختلافات ہوتے تھے جو باہمی ملاقاتیں بھی بند ہوگئی تھیں۔ یہ شخص مروت کر کے میرے پاس آتے تھے ۔میرے کچھ ساتھی ایسے بھی کہتے تھے کہ یہ شخص اللہ بخش کا جاسوس بن کر میرے پاس حال معلوم کرنے آتا ہے ۔ لیکن اس بات نے نہ اس کے مروت میں رکاوٹ ڈالی اور نہ ہی اس کی صداقت میں کوئی شک پیدا ہوا۔ مرحوم میراں محمد شاہ کے بعد یہ دوسرا دوست تھا جس نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے دوستانہ تعلقات میں کبھی بھی فاصلہ نہیں ڈالا۔
قیامِ پاکستان کے بعد حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے یہ تقریباً گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگا۔ لیکن ملکی سیاست پر اس کا مستقل خیال تھا۔ مجھ سے تعلقات برقرار رکھتے ہوئے آیا ۔ جب کراچی کو سندھ سے جُدا کیا گیا۔ اور مجھے اس کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر گاؤں میں نظر بند کیا گیاتب اس نے جیل میں کئی خطوط لکھ کر ہمدردی اور صداقت کا اظہار کیا ۔ اس کے بعد مارشل لا لگا۔ تو پھر قید اور نظر بندی کا فال میرے نام نکلا۔ میں نے نہ سمگلنگ کی تھی ، نہ عہدوں کی طلب کی تھی۔ نہ پرمٹ لے کر ملکیت بڑھائی ، نہ وطن سے غداری کی تھی اور نہ ہی پاکستان کا مخالف تھا۔ بلکہ ایک خاص حد تک اس کے قیام میں میرا خصوصی ہاتھ تھا۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرار داد میں نے پیش کر کے پاس کرائی ۔سندھ میں مسلم لیگ کی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے میں نے ہر ممکن کوشش کی ۔ اس کے باوجود مجھے ساڑھے سات سال نظر بند کیا گیا۔ اس لیے میرا دوسرا قصور تو نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں ون یونٹ کا مخالف تھا ،سندھ کے حقوق کی حفاظت کا حامی تھا۔ اس کا غیروں کو تو نہ بھی پتہ تھا لیکن اپنے تو واقف تھے ۔ اس پر اہلِ وطن نے جو برتاؤ کیا اس کا مختصر ذکر اوپر کر کے آیا ہوں اور اس صاحب نے جس انتہائی خلوص اور محبت کا اظہار کیا وہ بھی بتا کر آیاہوں۔