پروفیسر جاوید اختر کی زیر نظر کتاب’’لینن اور جمالیات‘‘ پڑھنے کے بعد سب سے پہلے مصنف کو اس بات کی مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے انتہائی اہم ،اورحساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور آخر تک اسے نہایت احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ نبھایا بھی ہے۔
اس موضوع پر کچھ لکھتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا احساس بری طرح ستا تا ہے لیکن پھر بھی میں جرات کر رہا ہوں جو گستاخی کے زمرے میں بھی شمار کیا جاسکتا ہے ۔
جاوید اختر کی کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے ۔ جس میں لینن کا نظریہ جمالیات ۔ لینن اور مارکسی جمالیات ‘ لین اور رومانویت پسندی‘ لینن اور ثقافتی انقلاب جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
ڈائلیکٹکس حقیقی جمالیاتی تصور کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ جمالیات دراصل حسن و قبح کی تعریف ،تشکیل اور افادیت کے علم کا نام ہے ۔ ایک عرصہ تک مناظر اور مظاہر قدرت میں جمال تلاش کرنے والوں کے برعکس مارکسی علم کا ادر اک رکھنے والوں کی نگاہ میں خود انسان تاریخ جمالیات کا بنیادی کردار بن گیا۔ انسانی ارتقا کی تاریخ آمیزش آویزش اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں میں جمالیات کے اصول فروغ پاتے ہیں۔ حسن کا تعین ساخت کے مطابق نہیں بلکہ افادیت کے حوالے سے ہوتا ہے ۔ یہی لینن کے اعلیٰ سماجی شعورکا مظہر ہے ۔
بالشویک انقلاب کے بعد پرانے معاشی ڈھانچے کے مطابق ڈھلنے والا ثقافتی نظام اور انقلاب کے رجحانات کیلئے مفید تھا۔ اور نئے انقلاب نے اپنی ضرورت کے مطابق نئے بالائی ڈھانچے کی تشکیل کرنی تھی۔
گرامچی اور دیگر نیومارکسسٹ عناصر ثقافتی بالادستی کے مظہر کو تو تسلیم کرتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت سے بھی اتفاق کرتے ہیں لیکن وہ ثقافتی عناصر کو غیر ضروری اہمیت دینے کے باعث اس کے فروغ کو معاشی بنیاد سے نسبتاً آزاد تصور کرلیتے ہیں جو کسی نہ کسی طور نحراف کی صورت گری کرتا ہے۔
لینن نے انقلاب اکتوبرکے بعد سوویت یونین میں ان رجحانات اور افکار کی نشاندہی کی جو دراصل پرانے نظام کے مظاہر تھے اور نئے نظام کو قبول کرنے سے قاصر تھے۔ لینن کے سامنے انقلاب کو برقرار رکھنے اور اس کے ثمرات کو عوام تک پہنچانے کیلئے انقلاب دشمن بالائی ڈھانچے کو توڑنا اور اس کی جگہ پر نئے نظام کے مطابق ایک مکمل ثقافتی ڈھانچے کو معرضِ وجود میں لانا ضروری تھا۔
مارکس کی معاشی بنیاد اور بالائی ڈھانچے کی تھیوری پوری طرح کارگرتھی اور اس کی مطابقت میں ہی لینن نے فکر، ثقافتی اور ادبی تشکیل نو کے تصور کو آگے بڑھایا۔
20ویں صدی میں انقلاب کا دوسرا بڑا تجربہ چین کا تھا۔یہاں صورتحال زیادہ پیچیدہ تھی کیونکہ یہاں ایک مکمل زرعی معاشرے سے انقلاب برآمد ہوا تھا۔ انقلاب کے بعد بھی فرسودہ ثقافتی ڈھانچے کا سامنا تھا۔ اس لیے ماؤ نے انقلاب کو جاری رکھنے کیلئے طبقاتی جدوجہد کے ساتھ وابستگی کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ وقتاً فوقتاً اس پر اصرار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔
یہ دراصل مارکس کی معاشی اساس اور بالائی ڈھانچہ کی تھیوری کے میکانکی اطلاق کے بجائے تخلیقی اطلاق کا طریقہ تھا جس کی بنیاد پر طبقاتی کشمکش کی مسلسل موجود، طبقاتی جدوجہد کوجاری رکھنے کی ضرورت اور تبدیلی کے عمل میں تسلسل کو یقینی بنانے کا اہتمام کیا گیا۔
جاوید اختر کی مذکورہ کتاب حسن وقبح کی مادی تعبیر کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے ۔ اور خاص طور سے مارکسزم کو میکانکی طور پر اختیار کرنے والوں کیلئے تربیت کا درست اہتمام ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے