اپریل2018 ء
ام بوت دنوں سے اپنا سنگتوں سے ملاقات نئیں کیا ۔ او یارا ام توڑا پریشان مریشان تھا ۔ توڑا پشاور مشاور بھی گیا۔ سچی بات بتاوے تم کو ام کو اپنا سنگت منگت سب بوت یاد آ رہا تھا۔ ام کو بوت زور دیا اس جدائی نے ۔ ابھی ام نے سوچا کیوں نئیں توڑا ملاقات او جاوے اپنا یار لوگوں کا ساتھ۔ او یارا تم لوگوں نے اس دپعہ کا سنگت ضرور پڑھا ہوئے گا۔ پیلے تو سچا بات بتاوے کیا اچا پوٹو امارا سنگت تمثیل نے بنایا تھا۔شاباش او جاوے اس کو خدا کا قسم۔
اس کا بعد ام نے جو شونگال پڑھا جو امارا کلچرل پالیسی کا بارا میں تھا ۔اس میں بتایا یار لوگ کلچرل پالیسی ہر قوم کا تشکیل کا بنیادی جزو اوئے گا۔او بولے گا اس کو زندگی سے الگ چیز نئیں سمجھو بے مراد ۔ یہ تو امارا معاشرے کا بود و باش کا ’کُل‘ کا نام اے۔واللہ ام کو ایسا شرم آگیا جب ام کو پتہ چلا جو بلوچستان کا حکومت کا پاس کوئی کلچرل پالیسی نئیں اے۔اور بھی اچھا اچھا باتیں لکھا تھا ۔ تم خود بھی تو کچھ پڑھو نا خانہ بادابھی ام سارا کیسا بتاوے تم بھی نازوانی کرتا اے۔
اسلم خواجہ صاب نے ’ بلوچستان اور سندھ پر بالشویک انقلاب کا ابتدائی اثرات‘ کا بارا میں بوت اچھا مضمون لکھا تھا۔ لیکن امارا لئے کاپی چیز پرانا تھا ۔ ام نے بابا کا کتابوں میں پڑھا تھا ۔ تم ہنسے گا کیوں ؟ ام سچ بولے گا۔ آل انڈیا بلو چ کانفرنس، فریادِ بلوچستان ، انجمنِ اتحا دِ بلوچاں سب ام نے پڑھا اے ۔ تم نے بھی پڑھا اوئے گا کیوں آل انڈیا کانفرنس ار مہینے سنگت میں چھپے گا ۔ تم کیسا بولے گا ام نے نئیں پڑھا۔
اچھا تم ایک بات امارا سنو۔ او یارا اتنا شور کرتا اے تم امارا مغَز چکرا دیا۔ام بول را تھا اس دپعہ کا سنگت میں بابا کا ایک مضمون پڑھوواللہ غریب نواز اوٹل کا دودھ پتی کا مزا نئیں دیا ام جرمانہ۔اس کا نام اے ’ دشتِ بے دولت کا ارب پتی‘۔او امارا بین نوشین قمبرانی کا بارا میں او تم پڑھا لکھا لوگ کیا بولتا اے اس کا صلاحیتوں کا بارا میں لکھا تھا۔ پیلے ام تم کو اس کا نظم کا ٹکڑا سناتے۔ نوشین بولتے؛
میں کوئی اور دنیا ہوں ، جہاں نہ درد ہیں نہ زاویے، نہ خواب نہ لذت،جہاں صد گنج واہموں کا نگر، آباد ہونے کے تسلسل میں ، مسلسل جاگتا ہے، روانی ہی فقط پیہم رواں ہیں!
اڑے ے ے واہ او جاوے ۔۔۔ واہ!۔
نوشین کا معنی اے خوبصورت ، پیاری، شیرین ۔۔۔ یارا خدا لگتا بولو امارا لئے نئیں بولو نوشین پیارا اے کہ نیءں ؟ اس کا شاعری شیریں اے کہ نئیں؟
او ایک اور بات سنو بابا نے 1990 کا شونگال دیا تھا۔ بابا کو پھر دیکو شونگال بھی قصہ کا زبان میں لکھا تھا ۔ام کو ایسا مزہ دیا تم کو کیا بتاوے۔بابا کو سارا سنگتوں کو کان سے پکڑ کر اپنا سامنا بٹھانا آتا اے۔ امارا مطلب اے ابھی بادشاہی قصہ میں اس نے ایسا نامی بات کیا کہ امارا مشکلات امارا تکلیپیں تو بوت اے مگر ام کو اِدر اُدر نئیں دیکھنا بس اپنا مقصد حاصل کرنے کا واسطہ بوت آگے جانا اے۔ادھر ادھر پھیلایا ہوا رکاوٹ کودیکھے گا تو ام رہ جائے گا۔ کدھری کا بھی نئیں رہے گا۔سیدا بولا انسان بنو بس اے۔
جاوید صاب بھی سنگت میں او اپنا لینن بھائی کا بارا میں بوت اچھا لکھے گا لیکن اس دپعہ وحید زہیر صاب نے عبدالقادر حارث پر اچھا مضمون لکھا تھا۔عبدالقادر تو امارا کوئٹہ کا ایسا نامی فنکار تھا ۔ اس نے بوت ڈراموں میں اچھا اداکاری کیا لیکن امارا اور اداکاروں کا طرح اس کا ساتھ بھی اچھا نئیں ہو ا۔ امارا مغَز گوم گیا کہ اس کا فوتگی پر بھی اس کا یاد میں نہ کوئی پراگرام اُوا نہ کچھ۔ بھائی لوگ ام لوگ کا ساتھ برابر برا او را ہے ۔
حسن عسکری صاب نے محمد علی بہارااو غلام مرتضے نے محمد امین خان کھوسہ کا بوت اچھا مضمون کھا۔
ام کو ایسا لگے گا امارا یار لوگ بور او گیا ۔ او چُرت نئیں ماروام تم کو ابھی وحید نور صاب کا مزیدار غزل کا ایسا شعر سنائے گا تمارا دل باغ باغ او جائے گا۔ اس نے بولا؛ آؤ کہ اب شروع کریں جنگ آخری/ہتھیار تم اٹھاؤ، قلم سے ہم! ۔
سچ بولو سخت گرمی میں ایندوانے کا مزہ دیا نئیں دیا؟ ام کو اس واری کا سنگت میں سب سے اچھا شاعری وحید نور صاب کا لگا۔
چلو ابھی ایک اور مضمون کا قصہ کرتا اے تم کو۔ او لکھا اے رزاق شاہد نے اور مضمون کا اس بھائی لوگ نے نام رکھا اے ’ نقش گر‘۔ امارا دل کو بوت اچھا لگا یہ مضمون۔ قصہ تھا سنگ تراش بولو یا بت تراش بولو ۔ جو تمارا مرضی میں آئے گا بولو لیکن اس بت تراش نے ایسا باتیں کیا کہ کیا بولے وے ۔ بھائی لوگ کو بھی تھوڑا ٹکڑا مُکڑا سنائے گا تاکہ او بھی مزہ لے لیوے؛
’ ایک برطانوی شہری نے کہا میں آپ کے پاس آکر سیکھنا چاہتا ہوں ۔
میں نے کہا میرے دیس میں سکھ کے دن آجائیں پھر آنا،
آخر میں ہم نے کہا؛ اے نقش گر دھن کے پکے لگتے ہو!۔
سائیں ! پتھروں کو پڑھانا ؛
مٹی کو زبان دینا کوئی آسان تو نہیں
انھیں ڈھالنا کوئی عام تو نہیں!!۔
بوت اچھا مضمون لکھا رزاق بھائی نے۔
سارا سنگتوں کو معلوم اے جدھر ڈاکٹر بزنجو اوئے گا ادھر ساحر اوئے گا اور جدھر ساحر او رفیع اوئے ادھر بولو کیسا ڈاکٹر صاب نہیں اوئے گا۔بس اسی طرح سنگت میں دونو ں کو ایک ساتھ آنا تھا ۔ اب تم بولو کیسا آدمی اس دونوں کو جدا کرے گا خانہ باد؟ڈاکٹر صاب نے ساحر کا شاعری میں عورت کا حقوق، بیٹی کا بارہ میں ، امن او محبت کا پیغام کا بارہ میں ، ظلم کا بارہ میں سب کا بتایا کہ کیسا کیسا نامی شعر دیا اس ام لوگوں کوساحر نے۔
ویسے اس سنگت میں نظم کا بات کرے وے تو ام بولے گا اسامہ امیر کا نظم’ گواہ کی کوئی وقعت نہیں ‘ نے بھی بوت مزہ دیا لیکن دانیال طریر کا غزل نے ام کو بوت دکھ دیا ۔ واللہ ام بوت غمگین او گیا ۔ امارہ آنسو نکل پڑا ۔ ام کو ایسا لگا کہ تبدیلی جس وخت آئے گا ام سب مر چکا اوئے گا ۔ خوشی خوشحالی آئیگا لیکن ام اس کو منانے کا لئے اوئے گا ای نئیں۔ ام توڑا توڑا مایوس سا اوگیا ۔ام کو ڈر لگ گیا۔
کتاب پچار میں تین مضمون دیا تھاامارا بابا نے۔ ایک اس نے عابدہ رحمان کا لکھا ہوا ہوگا ’ قافلے سے خواب کا سفر‘ جو عشاق کا قافلہ نمبر 30 کا تبصرہ تھا۔ کتاب بابا نے لکھا تھا۔ دوسرا عبداللہ شوہاز نے ترا گشاں کا نام سے لکھاتھا جو ام جتنا سمجھ آیاقاسم فراز کا شاعری پر تھا ۔ بس جتنا امارا مغز نے کام کیا اچھا لکھا تھا اس کا بارہ میں۔
ایک سچا بات بتائے گا تم کویہ بھائی ۔ او یہ کہ ’ محبت، بغاوت اور نظمیں پرانی نہیں ہوتیں ‘ نے ام کو سیدا سیدا پاگل کر دیا ۔ اتنا خوبصور ت مضمون پوچھو مت۔ ڈاکٹر شہناز شورونے ایسا مضمون لکھا کہ ام بولے گا کہ اپریل کا پورا سنگت میں ڈھونڈلیو تم کو ایسا مضمون ملا ام کو بولو۔ تم خود سوچ لگاؤ نسیم سید کا کتاب ’ یورپین نوآبادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات‘ کتنا اچھا اوئے گا جس کا تبصرہ اتنااچھا ہے۔ سچ بولے گا سنگت کا سب سے نامی مضمون ۔ایسا مزیدار ، کیا لہڑی سجی مزیدار اوئے گا۔
قصہ میں اس دفعہ چار قصہ تھا دو بلوچی تھا جو ام کو زیادہ سمجھ نئیں آیا باقی دو اردو میں تھا ۔ عظمت کا ثبوت امر جلیل نے لکھا تھا جو سادہ سااچھا قصہ تھا۔ دوسرا جیرے کالے کا دکھ محمد جمیل بھائی نے لکھا تھا جو بس ٹیک تھا ۔ام کوزیادہ اچھا نئیں لگا۔۔
بلوچی شاعری بھی تھاتوڑا پر اس بھائی کو زیادہ سمجھ نئیں لگا۔
ابھی ام جاوے توڑا روٹی موٹی کھاوے۔صبح سے واللہ کہ روٹی شیکل دیکھا او ۔اسی واسطہ تو ام کو سجی و ایندوانہ یاد آئے گا۔
خدا حافظ او جاوے۔