فلاسفرکارل مارکس ایک کمیونسٹ کے بطور مشہور ہے ۔ مگر اُس کی اصل سپیشلٹی کمیونزم نہیں،کپٹلزم تھا۔ اس نے سرمایہ داری نظام کا بہت باریکی سے تجزیہ کیا اوراُس کے خلاف ’’ادبی شاہکار‘‘ لکھی: کپٹل ۔ پڑھنے کے لائق ہے ۔
مارکس کو پونے دوسو سال گزرگئے ۔اور اُس وقت کپٹلزم ابھی اپنی طفلی حالت میں تھا۔ وہ نظام جوان ہوتا گیا، اورآج وہ اپنی بھر پوریت اور عالمگیر یت کے ساتھ کرہِ ارض کے تخت پہ جلوہ افروز ہے ۔ اُس کی بد صورتی اور دہشت کارل مارکس کے زمانے سے کئی گناخوفناک ہوچکی ہے۔
آج کپٹلزم کی پیدا کردہ لولاکی بے گھری ، دربہ دری اور بھوک وننگ تاریخ میں بلند ترین سطح پہ ہیں ۔قوتِ خرید کم ہورہی ہے ۔ روز گار کی سہولتیں بوڑھے کے دانتوں کی طرح گھٹتی جارہی ہیں ۔ تنخواہیں اجرتیں تیزی سے ڈھلوان کی طرف لپک رہی ہیں۔ پنشنوں کی قدروتوانائی گھٹتی جارہی ہے۔ صنعتوں ، بالخصوص ادویات سازی کی صنعتوں کے منافع نے ہر خدا، ہر پیر اور ہر فقیر سے بغاوت کر رکھی ہے ۔ ٹیکس کے گھوڑے کی لگام ٹوٹ چکی ہے۔ ٹریڈ یونینیں تارپیڈو ہوگئی ہیں۔ دنیا کی معیشتیں بیٹھتی جارہی ہیں۔
ہم فلسطین ہیں یا یمن، شام ہیں یا افغانستان ، ہم سرمایہ داری نظام کی سڑاند کی انتہا ہیں۔ ہم نجی ملکیت کی بدبو کی تلچھٹ ہیں۔ ہم منافع نامی ڈائن کی کارستانی کی عبرت ہیں۔
ہم سرمایہ داری نظام کے بگولے میں رہتے ہیں جہاں تلاش ، جستجو ، جنون ، وارفتگی ،تشنگی ، رقص ، سرود سب کا انجام نوخیزی میں مرگ ہے ۔ ماتھوں پہ موت ، خون اوراندھیرلکھا ہے ۔ ہمارے مویشی کے شانے کی ہڈی (تقدیر)پہ گھٹن ، جہالت ، نحوست اور غلاظت لکھا ہے ۔گہانچ نامی پرندے کے بائیں جانب چہچہاتے رہنے سے ہماری ہر ہینڈ لنگ، مس ہینڈلنگ بن چکی ہے ۔ پتہ نہیں ہماری کونسی پشت کے کارواں کے سامنے سے کالی بلی گزری تھی کہ برسوں سے ہماری ہر امید موہوم اور ہر روشنی تاریکی بن چکی ہے ۔ترقی پذیر دنیا گویا سمیح القاسم کا دیس ہے جہاں زندہ نوجوانوں کو تصویر کے فریم کے ملبے میں دفن کردیا جاتاہے ۔
ترقی یافتہ ترین کپٹلزم کے باوجود یہاں فیکٹریوں کی چمنی نہیں،گنبدوں خانقاہوں سے بم دھماکے کادھواں اٹھتاہے ، روحیں بدروحوں کی عقیدت کی ا یندھن بن گئی ہیں، ہماری سجدہ گاہوں کی دیواروں پر انسانی لہو کے چھینٹے ہیں جومدہم ہی نہیں پڑ رہے ۔ بہارو برسات میں خراسان ودامان کے بیچ صدیوں سے رقص کر کے گزرتی کونجوں نے اپنی گزرگاہ کو ’’ڈیتھ رُوٹ‘‘ کا نام دے دیا ہے ۔بدن سے سرکٹنا تو سنتے آرہے ہیں مگر لاشوں کی شناخت ناممکن پاکر ،ٹکڑے ٹکڑے چُن کر،تابوتوں میں ڈالنا یتیموں کا روز مرہ بنتا جارہا ہے ۔ خیر وشر کی تمیز سکرات میں پڑی ہوئی ہے ، آگ پانی مل کر ملک الموت کے سہولت کار بن چکے ہیں۔
مارکس نے جس کپٹلزم کی بات کی تھی، وہ تو بہت ابتدائی تھا۔ اُس دیدہِ بینانے اُس ابھی تک نابالغ کپٹلزم کی وحشت بھانپ لی تھی ۔ وہی جوان شدہ کپٹلزم آج مارکس کے زمانے سے لاکھ گنا باولا اورقوی ہو چکا ہے۔ناتوانوں پہ جھپٹنے والے عقاب کا نام آج ڈرون ہے ۔ جو نہ بازو تولتا ہے ، نہ منڈلاتے ہوئے آتاہے ۔ یہ تو بس قہربن کر بربادی نازل کرچکتا ہے تو شکار (لاش)کو پتہ’’ چلتا‘‘ ہے ۔ اب کوئی اعلانِ جنگ نہیں ہوتا ۔اب تو حتیٰ کہ دشمن گوشت وپوست کا بھی نہیں ہوتا ، وہ اب ناطق بھی نہیں رہا۔ اب تو اچانک، چلتے چلتے زمین آپ سے گتھم گتھا ہوجاتی ہے ۔ بارودی سرنگ پر خچے اڑا ڈالتی ہے ۔۔کون کس سے لڑ رہا ہے طرفین کو پتہ ہی نہیں۔ کون کس سے کیوں لڑرہا ہے طرفین کو پتہ نہیں ۔ اطراف کی باہم ذاتی دشمنی کیا ہے پتہ ہی نہیں۔۔۔ بلاشبہ کپٹلزم انار کی ہے ۔ اور آج کی انار کی ناقابلِ تصور ،ناقابلِ بیان ہے۔
جنگ، بھوک، چائلڈ لیبر، چکلے، چائلڈ سیکس، منشیات ،پورن انڈسٹری ، اَن پڑھی ، بیماریاں ، ٹیررازم ، نسل پرستی، فرقہ واریت ،جنونیت ، ماحولیاتی بربادی، کرپشن ، اخلاقی گراوٹ، کالونیلائزیشن۔۔۔۔ انسانی سماج ڈی ہیومنائزیشن کی یونیورسٹی بن چکا ہے ۔ کپٹلزم اَن سولائزڈ ترین نظام ہے۔
مناظر کی دلخراشی ہے کہ کثیف تر ہوتی جاتی ہے ،فکرو خرد اور حسن وسچ کے بجھتے چراغوں کے دھوئیں نے آکسیجن نگل ڈالا ہے ،لاغرونتواں حوصلے ہیں کہ ٹوٹتے سمے آواز تک نہیں آتی ہیں ۔ زندگی زاغوں داغوں کے حوالے ہے۔ نوجوانوں کے لیے تہواروں ، میلوں،، خوشیوں ، مسرتوں ، رونقوں ، قہقہوں کی کال پڑ گئی ہے، کھیل ، کھیل کے میدان ،کھیل کے اوقات سب کچھ تہس نہس ہوگیا۔ ہم سے تفکر، رائے اور اظہارِ رائے چھین لی گئی۔ ہمارے سپیکر ، لاؤڈ سپیکرگُنگ کردیے گئے ہیں۔
ہم سے ہمارے لباس کا کھلا پن چھن گیا ، پگڑی سیاہ ،برقع سیاہ ۔ ہماری زودرنجی نے ہماری گفتگو کو سفاک بناڈالا، ہماری عارضی زندگیاں مزید عارضی بنادی گئیں۔ آج کا انسان ورثے میں بچوں کے لیے اپنے ہی قتل کے انتقام کی ذمہ داریاں چھوڑنے پہ مجبور ہے۔ آج کی قہر ناکیاں دیکھو تو لگتا ہے مارکس کے زمانے میں کپٹل ازم کا عشرِ عشیر بھی موجود نہیں تھا۔
ہم اصل کا ،حقیقت کاسامنا کرنے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ہم زندگی کے اسباب و اوزارتلاشنے اور بنانے کے بجائے انہیں ملیامیٹ کرتے جاتے ہیں۔ ہم بت شکن اور مِتھ شکن کے بجائے بت پرست و متھ پرست بنا دیے گئے ہیں۔ ہم پیر پرست ، سایہ پرست ، نجومی پرست، فالی طوطا پرست ہوچکے ہیں ، ہم خواب دیکھنے والوں پر انحصار کرنے لگے ہیں۔انسانیت کو فرضی مجسموں ،فوق البشر آدمیوں،اوردیوتاؤں کو بنیاد بنانے پہ لگایا جارہا ہے ۔بستیاں ڈپریشن کی نفسیاتی ادویات پہ زندہ ہیں۔
’’ ہم کم کھا پی رہے ہیں ، کم کتابیں خرید رہے ہیں، کم تھیٹردیکھ رہے ہیں، کم سوچ رہے ہیں، کم محبت کر رہے ہیں ، کم نظریات وضع کر رہے ہیں ، کم گارہے ہیں،کم تصویریں بنا رہے ہیں ‘‘۔ مگر یہ سب کچھ کر کے ہم ’’اتنا ہی زیادہ روپیہ نہیں بچا پا رہے ہیں‘‘۔اس لیے کہ ڈالر کی قدر بڑھنے کے ایک ہی ریلے سے ہمارا بچایا ہوا سارا روپیہ ہمارے ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے ۔ ’’ ہماری شخصیت گھٹ رہی ہے ، ہم کم اظہارِ ذات کر رہے ہیں ‘‘ مگر پھر بھی ہماری ملکیت اتنی زیادہ نہیں ہو رہی ہے۔اس لیے کہ ہماری زیادہ کی ہوئی ملکیت اُس وقت ڈھیر ہوجاتی ہے جب ہماری حکومت پٹرول کی قیمت چڑھا دیتی ہے ۔بلاشبہ ’’ہماری بیگانگیِ ذات میں اضافہ ہی ہورہا ہے‘‘ ۔اس بیگانگی ذات سے حاصل کی ہوئی پونجی کو بھی بڑھنا چاہیے تھا۔ مگر یہ ساری پونجی تو ٹیکسوں میں ، مہنگا ئیوں میں چلی جاتی ہے۔ پیسہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے ۔ اور اگر موجود ہے بھی تو محض جیب جتناہے جبکہ اگلوں کے پاس بوریاں ہیں۔ بوریوں کا مال جیبوں کے پیسے کومقناطیسی کشش سے اپنے ساتھ ملا لیتا ہے ۔
امیر اور طاقتور ترین مٹھی بھر قوموں کی طرف سے چھوٹی اور کمزور قوموں کا استحصال ہورہاہے۔ سرمایہ داری نظام کی دیوار کی ہر سوراخ اورہر شگاف سے ’’غیر انسانیت‘‘ رِس رہی ہے ۔ سرمایہ داری عروج کے اس مقام پہ سامراج کا نام دھار چکی ہے ۔ یہ زوال کی سرحد تک پہنچ چکی ہے۔
کپٹلزم کی سب سے بلند سطح یعنی سامراج ،کب جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ مگر ماضی کے جھوٹ چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے، محدود پیمانے کے ہوتے تھے۔ مگر اب تووہ اتنا بڑا جھوٹ بولتا ہے کہ پورا عراق برباد کیا جاتا ہے ،لیبیاکے بارے میں جھوٹ بول کر اُس تیل سے مالا مال پرامن خطے کو تاراج کردیاجاتاہے ۔اور پھر شام ؟۔ اُسے کیمیکل ہتھیار رکھنے کا جھوٹا الزام دے کر آگ وآہن کے بہتے والکینو کی نذرکر دیا جاتاہے ۔ آج کاوحشتنامہ دیکھو تو!۔افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ، یمن پر سعودی چڑھائی کروادی گئی ، فلسطین کواسرائیل کی چراگاہ بنادیا گیا ، وینزویلا کا گلا پکڑا گیا ہے ، کیوبا کے گرد رسی کو مزید ٹائیٹ کیا گیا۔ کوریا کی گردن دبوچ کر اُسے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں ڈال دیا گیا۔
سپر پاور بظاہر جمہوری ، مگر اصل میں فاشزم کے سب سے بڑے بر آمد کنندگان ہیں۔وہاں فاشزم کی طرف اٹھایا ہوا ایک قدم دنیا بھر کے فاشسٹوں کو دس میل کی تقویت دیتا ہے ۔سپر پاورز کے سربراہ محض فرد نہیں ہوتے بلکہ وہ تو سرمایہ داری نظام کے فوری اور زیادہ منافع لینے کے باولے حصوں میں سے ایک کے نمائندے ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ اور فقروں کو اُسی پس منظر میں وزن حاصل ہے ۔ ساری انرجی اور وسائل کااجارہ دار طبقہ ،ان کی پشت پناہ ہے ۔ بینک ، انشورنس کمپنیاں ، ملٹری اور فاشسٹ ونسل پرست تحریکیں ان کی ساتھی ہیں۔ اور وہ فنانس کپٹل کے سب سے رجعتی ، سب سے شاونسٹ اور سب سے سامراجی عناصر کی گرفت میں ہوتاہے ۔ وہ دنیا بھر میں موجود بھیڑیوں کے غول مجتمع ومنظم کرتا جاتا ہے ۔چنانچہ پوری دنیا میں یہ قوتیں جاگ پڑی ہیں۔ اور ہر جگہ فاشزم بے لگام وبے باک ہوتی جارہی ہے ۔ تیسری دنیا میں توخود ریاستیںیہ کام کرتی ہیں۔ اس سارے سرکاری اور غیر سرکاری فاشزم سے مزدور، عورتیں اور دوسرے محکوم عناصر برباد ہورہے ہیں۔
نیٹو کے بجٹ میں اضافے کا ہر ڈالر ہمیں خبر کیے بغیر ہماری جیبوں سے اداہورہا ہے۔ مغربی دنیا کی جنگی قوت کی مضبوطی کی ایک ایک اینٹ کے لیے کمر،انسانیت ہی کااستعمال ہوپڑ رہا ہے۔
مارکس کے وقت کا خیر اور شر ہردو، انگلینڈ کا صنعتی شہر مانچسٹر ہوا کرتے تھے ۔ آج کا ’’غضب ‘‘یا’’نجات ‘‘چین سے وابستہ نظر آتا ہے ۔چین کپٹل ازم کے جو بن کا نام ہے ۔ چین کپٹلزم کا گلوکوز ڈِرپ ہے۔ ’’ سلک روڈ اکنامک بیلٹ ‘‘ انسانیت کی جڑت اور خوشحالی کی طرف لے جائے یا نہیں ،مگر یہ سرمایہ داری نظام کے سستا نے کے لیے ایک گھنا اور سبز درخت ضرور ثابت ہوا ہے۔
اور یہ سارا تباہی نامہ ایسے زمانے میں ہورہا ہے جب دنیا میں لائیف سیونگ سیاسی پارٹیاں نایاب ہوچکی ہیں۔جہاں جہاں نظر دوڑائیے،بنی نوعِ اِنسان کی محافظسیاسی پارٹیاں بہت کمزور و غیر منظم کردی گئی ہیں۔
اِس ناقابلِ بیاں گھپ اندھیر میں مگر،سماجی سائنس ضد کرتی ہے کہ اپنی عروج پہ پہنچا ہوا یہ نظام اپنے اندر موجود تضادات سے ہی پھٹ مرے گا، اور اس سے خوشگوار قوتوں کی ولادت ہوگی۔ موجود اور مروج یکسر بدل جائے گا، آدمیت کا احیائے نو ہوگا،قانون ہے یہ ۔سائنس کے کلیے یہ فرمان بھی جاری کیے جارہے ہیں کہ تبدیلی ، ترقی اور ارتقا کے خواہاں طبقات اور اُن کی سیاسی پارٹیاں مستقل طور پر کپٹلزم کے پھٹنے کے اِس عمل کے راستے کی رکاوٹیں دور کرتی رہیں گی۔
تو پھر تاریخ کی درست سمت میں ہی رہیے۔ نجاتِ بشر کا کام جاری ر کھیے!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے