دادخواہانِ شہر کے صف میں
وہ بھی ہیں جن کی تسبیحات لہو۔۔
جن کا منبر ہے مقتلِ انساں
بو بارود جن سے آتی ہو
جن کے نعروں میں دادِ قاتل ہو
کشت و خوں زندگی کا حاصل ہو
رخ پہ آثارِ بود باطل ہو
ہاتھ خنجر تو لب پہ بسمل ہو
وہ قصیدہ حق سنائیں کیا
شہ کا کردار وہ نبھائیں کیا
دادخواہان شہر کے نالے
تا حد سرخی اخبار سہی
ان کے کاندھوں پہ گراں قدر یہ انبار سہی
منصفی کے سبھی آثار مٹ جاتے ہیں
سرخ تاریخ کے ادوار لکھے جاتے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے