اس کتاب کی قرات کرتے ہوئے جو پہلا سوال میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ نسیم نے یہ کتاب لکھ کیسے لی؟ میں اپنے حوصلوں کی فصیل کے پار نظر دوڑاتی ہوں، اتنے کڑوے سچ کے اوے میں اپنی حسیات کے ساتھ اترنا ، میرے لئے تو ناممکن ہے۔۔ ایسی کتاب لکھنے کے لیے ذہن، سوچ اور جذبات کو تاریخ کی اس بھٹی میں جھونکا جاتا ہے ،جس بھٹی نے کئی تاریخیں، کئی کتابیں، کئی تہذیبیں اور اَن گنت بے مثال انسانوں کو ان کی سوچ کی بلند و بالا چٹانوں سمیت جلا کر خس وخاشاک کر دیا ہے۔۔ اورجلنے اور مرنے کے خوف سے، سچائی کے دعوے داروں نے بھی راستے بدل کر نسبتا ہموار راستوں کا انتخاب کر لیا ہے۔ مگریہ سلگتا آتش کدہ نسیم کے ارادوں اور حوصلوں کی تپش کے آگے سر نگوں ہے۔ اورنسیم سیدآزمائش کی اس سلگتی بھٹی سے،کندن بنی۔۔۔ اِک نئی آب و تاب سے، مانندِ صحیفہ یہ کتاب لیے ہمارے سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں۔
اس کتاب میں کینیڈا ، (جو اب فخریہ انگلش سپیکنگ ممالک کی صف میں شامل ہے) کے حقیقی باشندوں، جنہیں انیوایٹس اور ایبوریجنل اور اب فرسٹ نیشن بھی کہا جاتا ہے (اور جو نوآبادیاتی نظام کے بدترین جبر کا شکار رہے ہیں) کی تاریخ کے تلخ تر دَور کو رقم کیا گیا ہے۔
یوں تو طاقت کا استعمال ہر پیمانے پر قابلِ مذمت ہے مگر کسی ایک خودساختہ تہذیب کا دوسری اقوام پر غاصبانہ تسلط یعنی کولونائزیشن، طاقت کا بدترین مظہر ہے۔ آج کے ’’مہذب یورپ‘‘ کے تہذیبی ڈھانچے پر نجانے کتنی اقوام کے بہتے لہو سے نہ مٹنے والے خون کے دھبے، ہمیشہ انہیں یاد دلاتے رہیں گے کہ ان کی تہذیب، بے شمار بے گناہوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔
تاریخ انسانی میں سامراجی قوتوں کا کردار۔۔۔ قتل و غارت گری۔۔۔ ملکیّتوں اور زمینوں پر جبراً غاصبانہ قبضے اور سادہ لوح اقوام کی تہذیبوں کی پامالی سے عبارت ہے۔ مفتوح اقوام کی کھوپڑیوں کے مینار بنانے ، عورتوں کی عزتوں کی پامالی اور لاشوں کے ڈھیر لگانے کے بعد کولونیل قوتوں کا حملہ قابض زمینوں کے تہذیب و تمدن، زبان و ادب، رہن سہن اور ثقافت و روایات پر ہوتا ہے۔ سامراج، چونکہ اس خبط میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی تہذیب، زبان، بودوباش، علمیت وترقی، مفتوح قبیلے، گروہ، طبقے اور مْلک سے برتر، ارفع و اعلیٰ ہے، لہٰذا وہ مفتوح علاقوں کے محنت کشوں کے خون پسینے کی محنت سے کمائے ہوئے سرمائے سے، اپنے منتخب کردہ ٹاؤٹ حکمرانوں کے ذریعے نافذ کردہ نظامِ تعلیم کے ذریعے مفتوح اقوام کو یہ باور کرواتا ہے کہ ان کی تاریخ، ان کے آباؤاجداد کی دانائی کے قصے، ان کی کہانیاں، ان کی نظمیں،ان کی داستانیں، ان کے ہیروز۔۔۔ غرض یہ کہ ان کا حال، ان کا ماضی۔۔۔ سب کچھ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کے لائق ہیں۔ ان کی روایات ماضی کے چبائے ہوئے لقموں سے بدتر ہیں۔۔۔ ان کی تہذیب کچرے کا ڈھیر ہے۔۔۔ اور اب ان کی ایک پہچان ہے کہ وہ ’’غلام‘‘ ہیں۔ جسمانی، ذہنی، رْوحانی اور جنسی غلام۔ ان کی بقا اپنے آقا کی تقلید کرنے، اس کی زبان سیکھنے اور خود کو کمتر اور خود پر مسلط کردہ جابروں، آمروں اور لٹیروں کو عظیم، فاتح اور برتر سمجھنے میں پنہاں ہے۔
تسلط کار، ظلم، زیادتی، نفرت، قتل و غارت گری کے ساتھ ساتھ نفسیاتی داؤ پیچ سے کام لیتا ہے۔ ہر غیراخلاقی ہتھکنڈے کو جائز کہتا اور منواتا ہے۔ وہ یہ جھوٹ اس شدومد سے، اِتنی بار اور اِتنی سفاکیت سے رٹواتا ہے کہ۔۔۔ صدیوں کی ثقافت کے تانے بانے میں بندھے، اپنی دھرتی کی گہری جڑوں کی محبت میں گندھے، اپنے لوگوں، اپنے پیاروں، اپنے رقص و موسیقی اور اپنے لوک گیتوں کی عشق میں ڈوبے لوگ۔۔۔ حال کے جبروظلم میں زندہ رہنے کی جدوجہد میں، اپنی تاریخ، اپنا جغرافیہ، اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی بودوباش۔۔۔ بدلنے میں ْ جت جاتے ہیں۔ دن رات خود کو فراموش کرنے کی بے ْ سود کاوشیں کرتے ہیں۔۔۔ اور اسی رنگ میں رنگنا چاہتا ہے جس رنگ میں ان کے آقا رنگے ہوتے ہیں۔
تاریخ کا یہ ذِلت آمیز دور۔۔۔ جن خطوں اور تہذیبوں نے دیکھا ہے۔ اس میں ہم بدبخت بھی شامِل ہیں۔۔۔ مگر۔۔۔ ایک فرق کے ساتھ، ہم آج بھی سامراج کے گماشتوں اور لٹیروں کو اپنے نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ مگر کینیڈا کے حقیقی باشندوں نے بد ترین مظالم کو سہتے ہوئے بھی اپنے اصل سے اپنا رشتہ نہ تو ڑا ۔
استعما ر کے گْرگے یہ بھول گئے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کی زبان میں لکھی شاعری، ان کی بائبل ہے۔۔۔ جن کے لیے ان کی دھرتی ان کی ماں ہے، جن کے لیے آسمان ان کا سائبان ہے، جن کے گیت، نظمیں اور موسیقی ان کا جزوِ ایمان ہیں۔انہوں نے بدترین مظالم سہتے ہوئے بھی۔۔۔
لٹیروں کو لٹیرا لکھا۔
غاصبوں کو غاصب کہا۔
جابروں کو جابر۔۔۔ تسلط کاروں کو تسلط کار،قاتل کو قاتل، ریپسٹ کو ریپسٹ اور ظلم کو ظلم لکھا۔
یہ کینیڈا کے اصل باشندوں کا فخر ہے۔ ان کا اِفتخار ہے کہ یہ آج بھی اپنے تمدن پر شرمسار نہیں۔۔۔ یہ جانتے ہیں ظلم کسی بھی رنگ میں آئے ظلم ہی کہلائے گا۔۔۔ قاتل کسی بھی سمت سے آئے، قاتل ہی کہلائے گا۔ سامراج کسی بھی آسمانی صحیفے کو ساتھ لائے، سامراج ہی کہلائے گا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ و ادب کے درمیان موازنہ، دْنیا کے دانا ترین یونانی فلسفیوں سے چلا آ رہا ہے۔ تاریخ انسانی سروں کا حساب رکھ سکتی ہے۔ کیلنڈروں پہ درج تاریخیں لکھ سکتی ہے کہ اسے اعدادوشمار سے سروکار ہوتا ہے، دلوں کی شکستگی اور رْوحوں کی پامالی سے نہیں۔
کینیڈا کے حقیقی باشندوں کی ایک تاریخ۔۔۔ فاتح نے رقم کی تو دوسری اس کے حقیقی باشندوں نے۔ اور ان حقیقی باشندوں کی تاریخ کو ان کی نظموں کے توسط سے دْنیائے اْردو تک پہنچانے کا بیڑہ نسیم سیّد نے اْٹھایا۔ نسیم نے چن چن کر حقائق اکٹھے کیے۔۔۔ زعم برتری میں مبتلا اقوام کی سفاکیت، رْوپ و رنگ کا گھمنڈ، کولونیل ازم کی مکروہ سازشیں ،نہتی معصوم اقوام کے وسائل پہ قبضہ گیری۔۔۔ اور ان کی نسلوں کو بدل دینے کا جنسی، جنگی ا ور مجرمانہ جنون،تہذیب و تمدن کے ْ پرفریب نعروں میں چھپی نفرت کی سیاست، غرض کہ ہر موضوع پر نسیم نے مواد اکھٹا کیا اور ان۔۔۔ سادہ لوح، پرامن، مدرسری نظام کے پروردہ،فطرت و قدرت کے مظاہر سے محبت کرنے اور غمزدہ گیت گانے والوں کی عزا داری ، اشکباری اور سوگواری میں نسیم خود بھی شامِل ہو گئیں۔وحشتوں اور بربریت کی اس ہولناک داستان لکھنے میں اْنگلیاں و دل تو کیا، رْوح بھی زخم زخم ہو گئی ہو گی۔۔۔ مگر۔۔۔ نسیم سیّد نے اس کتاب کو مکمل کرتے ہی دم لیا۔
کتاب کیا ہے؟
حکایتِ خونچکاں ہے
داستانِ رنج و اَلم ہے
قصہِ درد و غم ہے
ایک ایسا نوحہ ہے جو گر ریگستان میں گایا جائے تو مانو آسمان رو رو کر دشت کو جل تھل کر دے۔
ساؤتھ ایشیا کے بے شمار باشندے ہجرت کر کے کینیڈا آئے جن میں قلم قبیلے کے افراد بھی شامِل ہیں۔۔۔مگر یہ کتاب لکھنے کا خیال، کسی کو کیوں نہ آیا؟۔۔۔ شاید اس لیے کہ نسیم کسی کا اْدھار نہیں رکھ سکتی۔۔۔ وہ محبتوں، رفاقتوں ،دوستیوں اور زندگی کے حساب میں بہت کھری ہے۔ واضح، دو ٹوک اور بے باک۔۔۔ اور جب بات حرف کی آئے۔۔۔ حرف کی حرمت کی آئے اور پناہ دینے والی دھرتی کی۔ تب نسیم اپنی ذات تو کیا۔۔۔ اپنے قبیلے کا ادھار چکتا کرنے پر تْل جاتی ہے۔ یہ جملے لکھتے ہوئے مجھے بے ساختہ نسیم کی نظم ’’مجھ کو مہران یاد آتاہے ‘‘ یاد آئی ہے ، جس میں نسیم سید نے سندھ دھرتی اوراپنی ماں کے لیے اپنی بے پناہ محبت اور ہجرت کے درد کو لفظوں میں یوں سمویا:
شام کے سرمئی اجالے میں
دودھیا روشنی سے پر والے
سی گل اک دوسرے کی سنگت میں
آشیانوں کی سمت اڑتے ہوئے
جب فضاؤں میں کوئی پگڈنڈی
اجلی اجلی بناتے جا تے ہیں
سوچ کی گرد گرد راہوں سے
اجلی پگڈنڈیوں تلک جب یہے
لالٹینیں سی دھرتے جاتے ہیں
اس گھڑی سارے کام چھوڑ کے میں
اجلی پگڈنڈیوں پہ اڑتی ہوئی
ایک بستی میں جا نکلتی ہوں
ایسی بستی کہ جس کے رسم و رواج
مجھ سے مانوس، مجھکو جانتے ہیں
جس کی گلیاں مکان باغیچے
میرے بچپن سے مجھ کو جا نتے ہیں
( اب مگر بدگمان سے رہتے ہیں)
جس کی مٹی میں
سائیں سچل کے
مست گیتوں کی سوندھی خوشبو تھی
پیار کی رسم تھی بھٹائی کی
(اب جہاں صرف خاک اڑتی ہے)
اسی بستی کے اک محلے میں
بوڑھے گھر کے اداس کمرے میں
میری یادوں کی ایک ایک کتاب
کیسے کیسے محبتوں کے خواب
شیلف پر یوں سجے سے رکھے ہیں
جیسے بے جان سرد کمرے میں
زندگی کا یقیں دلانے کو
کوئی تصویریں ٹانگ دیتا ہے
پیار سے چھو کے ان کو دیکھتی ہوں
تہہ بہ تہہ گرد اُن کی پو نچھتی ہوں
ایک شفاف اجلی چوکی سے
اٹھ کے اجرک گلے لگاتی ہے
مامتا جیسے لمس کی راحت
میری نس نس میں پھیل جاتی ہے
میری ماں ننگے سر، شکستہ بدن
لٹ کے اس شہر میں جب آئی تھی
اسی اجرک نے اپنے آنچل سے
اس کے زخموں کی خاک پونچھی تھی
اس کے سر پہ ردا اڑھائی تھی
آج اس مہربان آنچل کی
ہر شکن سرد سرد آہیں ہیں
ایسے سارے اداس لمحوں میں
مجھ کو مہران یاد آتا ہے
جان جاں، دلربا مرا مہران
دھیمے دھیمے اداس لہجے میں
دیر تک مجھ سے بات کرتا ہے
دیر تک میرے ساتھ رہتا ہے
بیتے موسم کی اچھی یادوں سے
ہم بہت سے دئیے جلاتے ہیں
اور مناجات کرتے جاتے ہیں
صبح دم سیگل
آشیانوں سے
رزق کی سر زمیں کو اڑتے ہوئے
چہچہاتے ہیں، گاتے جاتے ہیں
اور میں
سیکڑوں سوالوں کی
ایک گٹھڑی سی پشت پر لادے
تھکی، پژمردہ لوٹ آتی ہوں
اور جب وسیع و عریض دْنیا، سرزمینِ کینیڈانے نسیم سیّد کو پناہ دی۔۔۔اور وہ نوآبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ، اس مْلک کے حقیقی باشندوں پر گزرنے والے مظالم سے آگاہ ہوئی کہ دھرتی کے یہ بے شناخت باشندے کبھی اس دھرتی کے والی تھے، وارث تھے۔ یہ زمین ان کی تھی۔۔۔ یہ وسائل ان کے تھے۔۔۔ اور جو آج تک منتظر انصاف ہیں،تو اس نے ان مظلوموں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے ضمیر اور قلم کی طاقت سے اس خوفناک اور جان لیوا سچ کو لکھا ، جس کا سامنا کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔نسیم سیّد لکھتی ہیں:
"نوآ بادیات نے قدیم النسل مردوں، عورتوں اوربچوں کو گویکساں متاثر کیا لیکن عورتوں کوجسمانی اورروحانی دونوں مارماری، انہیں قتل کرنے سے پہلے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا اورطرح طرح سے ذلیل کرنا ایک معمول تھا۔ نوآ بادیاتی حکمرانوں کے پاس اپنے مفتوح کوبرباد کرنے کے ہر قسم کے ذرائع ہوتے ہیں ہیں، جہاں وہ طاقت کے بوتے پر انہیں اپنا غلام بنا تے ہیں وہیں نفسیاتی مار بھی مارتے ہیں۔ کینیڈا میں پس نوآ بادیات یعنی آج بھی ہزاروں کی تعداد میں غائب چکی ہیں اورمسلسل ہو رہی ہیں۔ انہیں زمین کھا جاتی ہے یا آ سمان ، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اس غائب ہونے کے پیچھے انڈینز کویقین ہے کہ وہی پرانی سازش ہے کہ ان کی نسل کو ختم کردیا جا ئے۔ کینیڈاکے ایک ایبوریجنل ادیب تھامس وائکنگ نے اپنی بائیس سالہ حاملہ کزن کے اغوا کے بعد قتل کر دیئے جانے کے حوالے سے چارسال پہلے ایک طویل مضمون میں’’ نوآبادیات کے اثرات زندگی پر‘‘ میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے اس موضوع پرکہ انڈین خواتین رائٹرز کا مزا حمتی لہجہ ان کے ادب میں تلخ کیوں ہے۔نوآ بادیا تی حکمرانوں کا دورعورتوں کی وحشیانہ آ برو ریزی کی لرزہ خیز داستانیں ہیں۔ ان کے پرائیویٹ پارٹ کو کاٹ کے درختوں کی شاخوں پرٹانگ دیا جاتا۔ ریپ کے بعد ان کی برہنہ لا ش بیچ سڑپ پرپھینک دی جاتی۔”
نسیم نے ایبوریجنل باشندوں کی اس ظلم و جبر کے خلاف لکھی شاعری اکھٹی کی جو تاریخ کا ایک انمٹ باب بن چکی ہے۔ اس شاعری میں عورت کی آواز نمایاں ہے کہ فطرت سے محبت کرنے والی ان اقوام کے پاس عورت ، انسان تھی،ذہین و فطین انسان۔اس کا مقام معاشرے میں افضل و محترم تھا۔۔ایک ایبوریجنل شا عرہ کرسٹوفر کی نظم ہے::
تمہیں استعمال کے بعد قتل کردینا ہی منا سب ہے
میری ماں نے بتا یا
’’ہم اپنے وجود سے شرمندہ تھے
سفید آ دمی ہمیں دیکھ کے
نفرت سے ہمارے منہ پر تھوک دیتے
’’ بد شکل جنگلی عورتیں ‘‘
وہ ہم سے کسی کو بھی
کسی بھی وقت بے لباس کرسکتے تھے
ہمارے گندے جسم کواستعمال کرکے
قتل کرسکتے تھے
یا سڑک پرہمیں دیکھ کے
اپنی گاڑی سے کچل سکتے تھے
یہ سب کچھ روز کا معمول تھا
مجھے اپنے آ پ سے شرم آ نے لگی تھی
مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں اتنی بدصورت ہوں
کہ اسی سلوک کی مستحق ہوں
میں شرم کے مارے مرجانا چا ہتی تھی‘‘
میری ماں ریپ کے بعد قتل کردی گئی
مگروہ میری نظموں میں
زندہ ہے
اوراب جب میں یہ نظم اس کے قاتلوں
کو سنا تی ہوں
توان کے سرشرم سے سینوں سے جالگتے ہیں
ماں !۔
تیری بے عزتی کا بدلہ
میرا قلم لے رہا ہے
میری نظمیں تیرا وقار واپس چھین کے رہیں گی
بقول نسیم سید ،یہ نظم بہترین مثال ہے قلم کی اس طاقت کی جس نے وقت کے دھارے کواپنی مٹھی میں جکڑ کے اس کا رخ موڑ دیا ہے۔
بڑے ادیب یا شاعر، در حقیقت وہ ہوتے ہیں جو ہر دور کے جبر کے سامنے، سچ کا علم تھامے مظلوموں اور بے کسوں کی صدا بن کر مشکل مگر راست سمت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ خواہ حق و سچ کے اس سفر میں انہیں کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ کردار کی یہ عظمت ہی انہیں وہ لفظ و فکر عطا کرتی ہے جس سے وہ خلقِ خدا پر بیتتے قہر اورکرہ ارض پر بپا ہونے والے سانحات کو اپنے دامن میں بھر کر، اپنے آنسوؤں سے نتھار کر۔۔۔ نثر یا نظم کی شکل میں، فنکارانہ مہارت سے دْنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ ادیب اور شاعر اس دْنیا کا نہ صرف حساس ترین بلکہ خوبصورت ترین سرمایہ ہیں۔ ان کی آواز اور ان کے لفظوں کے بغیر، سسکتی اِنسانیت لاوارث ہے۔ حق وانصاف کا ساتھ دینے والے ان باکمال لوگوں میں نسیم سید بھی شامل ہیں۔ سچ کا سامنا کرتے ہوئے نسیم کا قلم کسی لمحے نہیں ڈگمگاتا۔ وہ اس ناقابل برداشت بھیانک سچ کے پاتال میں اترتی ہیں۔ اس گھپ تاریکی کے عقوبت خانے میں ہونے والے گھناؤنے جرائم اور بے کسوں کی دلدوز چیخوں کو بے پایا ں جرات، عظمت اور دلیری سے اپنے لفظوں کی زبان عطا کرتی ہیں:
’’حکومت کی طرف سے انڈینز کو انسان بنا نے کے لئے جو مدرسے قائم کئے گئے وہاں کمسن لڑکیوں کے ریپ کی بھی لرزہ خیز داستانیں موجود ہیں۔ بے شمار بچیاں حاملہ ہو جاتی تھیں اورلا کھ دہائی دینے کے باوجود کہ وہ بے قصورہیں ان کو سخت سزائیں ملتیں۔ ذہنی، جسمانی اورروحانی تشدد بردا شت کرنے والے ان انڈین نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنے قلم کواپنے نیزے اور ڈھال دونوں میں بدل دیا۔ امریکہ کینیڈا اوردیگرجن جن ممالگ میں انڈینزموجود تھے وہاں عوام میں ان پرہونے والے مظالم کے خلاف ایک تو مقامی ادیبوں، کالم نویسوں اورمیڈیا میں ان کے حق میں آوازبلند ہونے لگی اورآ خرکب تک نہ ہوتی کہ پانچ سوسال گزرچکے تھے ان مصائب کو سہتے ہوئے۔ اس عرصہ میں مقامی زبان (انگریزی) میں لکھنے کی صلا حیت انڈینزکی نوجوان نسل میں پیدا ہوچکی تھی ان کی آواز کو زنجیر کرنا اب مشکل تھا۔ عورتیں گو روزِاوّل سے آ سمانی اور زمینی ضابطوں کی پابند رہی ہیں۔ لیکن ان کی مٹی کا نم عجب جوہر رکھتا ہے جوسوبارزمین گاڑے جانے کے باوجود پھرسے پھوٹ آ تا ہے۔ ایبوریجنل عورت ٹکڑے ٹکڑے کرکے چیل کوؤں کوکھلا دی گئی۔۔۔ اس کی روح کی دھجیاں درختوں پر ٹانگ کے اس کے وجود کا مذاق اْڑا یا گیا۔۔۔ اس کے خاکے بنا ئے گئے جس میں جانوران کے برہنہ جسم کو بھنبھوڑ رہے ہیں اور ان کی آ بروریزی کرہے ہیں۔۔ ان کے چہرے مسخ کردئے گئے مگراس نے اپنے وجود کوایک بار پھر سمیٹا اورپورے جلال اورجمال کے ساتھ ڈٹ گئی آباد کاروں کے وحشی قوانین کے سامنے۔”
نسیم سید یہ کڑوا سچ آپ کے سامنے پیش کر کے جرات رندانہ سے کہتی ہیں ، یہ ہے استعمار کا اصل چہرہ، جسے اپنے اصل سے خائف ، کئی اقوام اب بھی دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اور ان کا ادب اب بھی طاغوتی طاقتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ادب کیا ہونا ہے، کیا ہونا چاہئے ، اور کیوں لکھا جانا چائیے،ادیب کی ذمہ داری کیا ہے۔ اس کتاب سے بہتر ان سوالوں کا جواب بھلا کون دے پائے گا۔سچا ادب بے ریا ہوتا ہے، اپنی زمین اور اس کے باسیوں کے دکھ سکھ ، آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ مصلحت کے نام پر جھوٹ اور دروغ گوئی سے دور ہوتا ہے۔
میرا بس چلے تو میں وطن عزیزمیں جھوٹ پر مشتمل حملہ آوروں اور رہزنوں کے گن گاتی نصابی کتب کی جگہ، نسیم سید کی اس کتاب کو سوشل سائنسز کے نصاب میں شامل کر وا کر ، اصحاب طبل وعلم سے دست بستہ عرض کروں۔۔ سرکا ر بہت ہو گیا جھوٹ، کئی نسلیں اپنے دشمنوں کو دلدار سمجھ کر اپنے ہاتھوں علم و دانش کی شمعیں گل کرتی رہی ہیں۔ اس کتاب کو ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی جانے والے بچوں کو پڑھائیں اور آغاز آگہی کے اک نئے دور کا آغاز کریں۔ مجھے یقین ہے نسیم سید کی اس کتاب کو سچائی کے پرستار دیوانہ وار پڑھیں گے۔ اس کتاب میں موجود شاعری پڑھ کر ، تیسری دنیا کے بے شمارشاعر ہمیشہ زندہ رہنے والی نظمیں لکھیں گے جو دھرتی کے اصل وارثوں کو انصاف دلوائیں گی۔وقت قریب ا?یا چاہتا ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم و محکوم عوام مرثیے نہیں، نوحے نہیں۔۔۔ اب بغاوت کے گیت گائیں گے۔