۔1866 ء کے بعد ایلیانے پینزا میں،جس دوریانسکی انسٹیٹیوٹ کو چھوڑا تھا۔اس کے ایک سابقہ طالب علم دمٹری کاراکوزوف نے زار کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔1870ء میں نچائیف کے گروہ نے روس بھر میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔آٹھ برس بعد پلیخانوف کی ساتھی ویرا زاسولیچ نے سینٹ پیٹرسربرگ کے گورنر جنرل ٹریپوف کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔اس قسم کے واقعات کی صدائے بازگشت سمبرسک کے پس منظر میں بھی سنائی دے رہی تھی۔یہاں بھی لوگ سیاسی واقعات کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔یہاں بھی مارک وولوکوف کی انقلابی شخصیت پیدا ہوئی،جس کاگونچاروف نے اپنے ناول”Obryv”میں تمسخر اڑایا تھا۔حتیٰ کہ سمبرسک میں گرامر سکول بھی ان انقلابی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ستر کے عشرے کے آخر میں یہاں ایک استاد منظرِ عام پر آیا،جو پلیخانوف کا ساتھی تھا۔اس پر طالب علموں پر مشتمل غیر قانونی سرکل تشکیل دینے کا الزام عائد کیا گیا۔اس وقت سے فیودر کیرنسکی نے سکول کے عملے اور طالب علموں میں بے چینی پر نظر رکھنا شروع کردی۔ایلیا نے اپنے بچوں کو ان سیاسی سرگرمیوں اور اثرات سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔اس سلسلے میں جہاں تک وولودیا کے معاملے کا تعلق تھا ،تو اس میں وہ کامیاب رہا۔لیکن جہاں تک ساشا اور ایناکے معاملے کا تعلق تھا،اس میں وہ ناکام رہا۔خصوصاً ساشا کے معاملے میں تو وہ بالکل ناکام رہا۔کیوں کہ ساشا نے کلیسا جانا چھوڑ دیاتھا اور ہر قسم کی عبادات میں شرکت سے انکار کردیاتھا۔وہ اپنے سائنسی تجربات سے فارغ ہوکر پساریف،ڈوبرولیبوف اور چرنی شوفسکی کی تحریریں پڑھتا تھا۔اینا تحریر کرتی ہے:
"جب ہم اعلیٰ کلاسوں میں پہنچے میں نے ساشا کے ساتھ مل کر پساریف کی ساری کتابیں پڑھیں،جنہوں نے ہم پر زبردست اثرات مرتب کیے۔ان کتابوں پر لائبریریوں میں پابندی عائدتھی۔مگر ہم نے انہیں اپنے ایک واقف ڈاکٹر سے مستعار لیا،جس کے پاس ان کے تمام ایڈیشن تھے۔یہ اولین ممنوعہ کتابیں تھیں،جو ہم نے پڑھیں۔ہم ان میں اس قدر مستغرق ہوگئے کہ جب ہم نے پساریف کی آخری کتاب ختم کی تو ہمیں بہت ہی افسوس ہوا کہ ہم اپنے پسندیدہ ادیب سے جدا ہوگئے ہیں۔ہم باغ میں ٹہل رہے تھے ساشا نے مجھے پساریف کے انجام کے متعلق بتایا،جو پانی میں ڈوب گیا تھا۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ مسلح پولیس والا،جو اس کا تعاقب اور نگرانی کرتا تھا ،نے اسے پانی کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے دیکھا۔لیکن اس نے دیدہ و دانستہ اس کی مدد کے لیے کسی کو نہیں بلایا اور اسے مرنے دیا۔مجھے بہت غصہ آیا۔۔۔۔ساشامیرے ساتھ ٹہل رہا تھا، وہ اپنی حسبِ معمول خاموشی میں ڈوب گیا۔اس کا متوجہ اور سیاہ چہرہ صرف یہ ظاہر کرتا تھا کہ کس قدر اس کا جذبہ بھی زبردست تھا”۔(8)۔
ساشا کا اس وقت تک کسی انقلابی سرکل سے کوئی تعلق نہیں تھااور نہ ہی اس نے کبھی بھی کسی پارٹی سیاست میں کوئی دلچسپی ظاہر کی تھی۔اس نے خود کو سائنس کے لیے وقف کردیا تھا۔اس کی تما م تر توجہ اس پر مرکوز تھی۔1883ء میں اس نے سکول میں اپنا آخری امتحان امتیازی حیثیت سے گولڈ میڈل کے ساتھ پاس کیا۔اس کے دالدین اس کے مستقبل کے لیے بالکل بھی فکرمند نہیں تھے۔
لینن کو بچپن سے کھیل کود،تیراکی،گھڑ سواری،سکیٹنگ، شکار اور شطرنج سے بہت دلچسپی تھی ۔ وہ اور ساشا گھنٹوں شطرنج کھیلتے تھے۔شام کے وقت ساشا اور وولودیا سیر پر بھی نکل جاتے تھے اور اندھیرا پھیلنے تک گھر واپس لوٹتے تھے۔اس دوران وولودیا ساشا سے پوچھتا کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟تو وہ جواب دیتا تھا کہ میں بہت سی چیزوں کے متعلق سوچتا ہوں۔اس ستارے کو دیکھو وہ یہاں پرکیسے نمودار ہواہے؟اور زمین پر زندگی کیسے معرضِ وجود میں آئی؟اور ہم یہاں کیوں ہیں؟اور ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟وولودیا اس کی باتوں کو بہت غورو فکر سے سنتاتھااور اس کے ذہن میں بھی ایسے ہی خیالات پیدا ہوتے تھے۔ہاں ہم یہاں کیوں ہیں؟ہمارا مقصد کیا ہے؟اس کے لیے ان سوالات کے جواب ڈھونڈنا بہت دلچسپ تھا۔پھر وہ سوچتا تھاکہ ساشا بہت ذہین ہے۔میں بھی اس کی طرح بنوں گا۔اب وولودیا نو برس کا ہوچکا تھا۔اسے گرامر سکول میں داخل کردیا گیا۔اگست 1879ء میں اس کا گرامر سکول میں داخلے کے لیے امتحان ہوا۔گرامر سکول کی عمارت دو منزلہ تھی،جو گاؤں کے مرکز میں واقع تھی۔اساتذہ ایک لمبی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔وولودیا کو اس کی باری پر بلایا گیا۔وہ بڑے اعتماد کے ساتھ بلیک بورڈ کی طرف گیا۔اسے سوالات کا جواب دینے میں کوئی بھی مسئلہ پیش نہ آیا۔اس سے جو بھی سوال پوچھا گیا اس نے فوراً اس کا جواب بلیک بورڈ پر لکھ دیا۔چنانچہ اس نے تمام مضامین میں بہترین نمبر حاصل کیے۔اسے سکول میں داخلہ دے دیا گیا اور وولودیا نے آٹھ برس یہاں تعلیم حاصل کی۔ساشا بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا،جب کہ اینا گرلز سکول میں پڑھتی تھی۔شام کو بچے لیمپ کی روشنی میں کھانے کی میز پر بیٹھ کر اپنا سکول کاذمیہ کام کیاکرتے تھے۔
وولودیا اپنے والد کے مطالعے کے کمرے میں جاتا تھا۔اس میں ایک بڑا ڈیسک اور کتابوں کی الماری ،ایک بیضوی میزاور ایک صوفہ تھا۔وہاں اس کا والد اپنا کام کررہا ہوتا تھا۔وولودیا ہمیشہ اپنے والد کے مطالعے کے کمرے کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتا تھا۔اس کا والد،جو اس وقت ڈائریکٹر آف سکولزتھا ،اس پر بہت زیادہ ذمہ داریاں تھیں۔وہ سخت سردی کے دنوں میں سینکڑوں میلوں کا سفر کر کے دور دراز دیہاتوں میں واقع سکولوں کا دورہ کرتا تھا۔سمبرسک صوبے میں شائد ہی کوئی ایسا اسکول تھا،جس کا دورہ اس نے نہ کیا ہو۔وہ اسکولوں میں جاکر اساتذہ کی مدد اور رہنمائی کرتاتھااور ان کے مسائل حل کرتا تھا،انہیں تربیت دیتاتھا۔پھرگھرواپس لوٹ کر وہ اپنے دورے کی رپورٹیں تیار کرتا اور تعلیمی مسائل پر مضامین لکھتا تھا۔ان سب چیزوں کو دیکھ کر وولودیا بہت متاثر ہوتاتھا۔وولودیا اب اپنی ابتدائی جماعتوں میں پڑھ رہا تھا۔اس کا والد اس کے بارے میں بہت فکر مند تھا۔کیوں کہ وہ بے حد ذہین و فطین تھا۔اسے ہر چیز آسانی سے سمجھ میں آجاتی اور یاد ہوجاتی تھی۔اس کے والد کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں یہ بات اسے محنت سے دور نہ کردے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کے والد نے دیکھا کہ وہ بہت سنجیدہ طالب بن گیا ہے اور محنت کرنے کی عادت بھی اس میں پیدا ہوگئی ہے۔وہ شب و روز پڑھائی میں مصروف رہتا تھا اور بہت محنت سے اپنا سبق یاد کرتا تھا۔اس کے والدین نے ہمیشہ اسے گھر میں نظم وضبط سکھایا تھا،جہاں ہر شخص دوسرے کی محنت کی قدر کرتا تھا۔
” ایلیا نکولائی ایچ لینن اور دوسرے بچوں کو سمبرسک کی اس مشہورگھاٹی پر پکنک منانے کے لیے لے گیا،جس کا ذکر ایوان گونچاروف نے اپنے ناول "Perspice”میں کیا ہے۔انہوں نے اس کھائی کو دیکھا اوراس کی گہرائی کا اندازہ لگایا۔لینن کے خاندان میں دوسرے مصنف بھی پڑھے اور زیرِ بحث لائے جاتے تھے۔اولیانوف بچے نکولائی گوگول اور ایوان ٹرگنیف کے ناول پڑھتے تھے۔وہ جو پڑھتے تھے اسے ایک مقابلے کے کھیل کے طور پڑھتے تھے۔شام کے وقت جب وہ فارغ ہوتے تو وہ کسی ناول یا نظم کا حصہ پڑھتے تھے اور اس کے مصنف کے نام کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے۔”(9)۔
وولودیاگھر کی اوپر والی منزل پر واقع ایک چھوٹے سے کمرے میں پڑھتا تھا۔یہ کمرہ اس جیسے ایک اورکمرے سے ملحق تھا۔جس میں ساشا رہتاتھا،جو اب اس کے یونی ورسٹی چلے جانے کی وجہ سے خالی پڑا تھا۔تین سال پیشتر اینا بھی اپنی تعلیم کے سلسلے میں سینٹ پیٹرسبرگ جاچکی تھی۔وولودیا ان کے لیے بہت اداس رہتا تھا۔ وولودیا کے گھریلو ماحول نے اس میں مطالعے کے شوق کو پیدا کیا۔وہ شب وروز مطالعہ کرتا تھا۔ ” لینن سکول کے زمانے سے ہی فن و ادب کی طرف مائل ہوا۔ اس کا فطری رحجان لاطینی اور روسی ادب وموسیقی کی طرف مائل تھا۔ اس وقت وہ زینوفونز اور اوڈ کا مطالعہ کرتا تھا اور اس کاپسندیدہ ادیب ساسیرو تھا۔ اس کے جمالیاتی ذوق کو اس کے گھریلو ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع ملا، جہاں ہر شخص پشکن، لرمنٹوف، نیکراسوف اور کبھی کبھی گوئٹے اور شکسپئیر کو پڑھتا تھا۔اکثر اس کے گھر کے افراد اکھٹے ہوتے اور گوگول، ٹالسٹائی، اور ٹرگنیف کی کتابوں کے کچھ حصے ایک آدمی پڑھتا تھا اور باقی اسے سنتے تھے۔لینن کے تصور میں ان ناول نگاروں کے کردار روسی حقیقت کے مختلف پہلوؤں ۔۔کی علامتوں کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے۔۔۔جوشائد مقامی آبلوموف سے زیادہ کوئی نہیں تھے۔” (10)۔