کتاب : عشاق کا قافلہ نمبر30
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : 132
قیمت : 250 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
بہت سارے دن گزر گئے بابا جان سے ملے اور آج تو وہ بے تحاشا دل کے آسمان پر چھائے رہے ۔ دن تو جیسے تیسے گزر گیا لیکن شام ہوتے ہی میں جلدی جلدی تیار ہوئی اور ان کی محفل (لیب)کا رخ کیا کہ اب مزیدانتظار نہیں ہو پا رہا تھا۔
وہاں پہنچی تو بابا کے سامنے میز پر ایک بڑا البم رکھا ہوا تھا اور بابا جان نہ جانے کہاں کھوئے ہوئے تھے کہ ایک لمحے تو ان کو پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کھڑی ہوں ۔ اچانک جو نظر پڑی تو مسکرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور میں سلام کرتے ہوئے ان کی طرف بڑھی ۔انھوں نے سر پر پیار کیا اور کہا ’ بیٹھو بیٹا۔‘
’ خیر ہے بابا جانی آج تو کہیں اور ہی ہیں آپ، آج یہاں تو مجھے نہیں لگ رہے۔‘
’بیٹا ،یادیں سرمایہ تو ہوتی ہیں لیکن یہ بہت بے چین بھی کر دیتی ہیں۔۔۔‘ میں خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھنے لگی، توگویا یادوں کی محفل سجی ہوئی تھی۔
’یہ دیکھو میراا بہت پیارا دوست ڈاکٹر امیر الدین ، انھوں نے البم کا پہلا صفحہ پلٹا۔‘ان کے لہجے میں اپنے بہت قریبی دوست کے لیے بے تحاشا محبت عیاں تھی ۔’امیر الدین عالم گیر سچائی کے قیام کا بڑا کام کرتا تھا، مسیحی اقلیت کو بم مارنے والوں کے خلاف ڈٹ جانا، اغواکاروں کو اغوا گر قرار دینا، جیل میں پڑے بے گناہ کو چھڑوانا، انسانی شرف و حقوق کی بحالی، پروگریسو رائٹرز فورم کی مضبوطی، عوامی انقلابی پارٹی کی تنظیم کرنا، جمہوریت کے احیا کا کام، انسان دوستی کے نظریہ کے فروغ کا کام۔۔۔اس کی پوری زندگی انہی عظیم آدرشوں کی تکمیل میں مصروف گزری عابدہ ۔ اس نے ساری عمر ایسے ہی کام کیے۔‘
’امیرالدین ساری زندگی پڑھاتارہا اور بلوچستان میں علم کی روشنی پھیلاتارہا۔اس کی پرنسپلی میں چلنے والے ہیلپرز سکول کا بچہ اپنی مخصوص تربیت کے حوالے سے دور سے پہچانا جاتا تھا۔بہت پُراعتماد، سرگرم اور گھل مل جانے والا۔ بہت وسیع النظر، روشن خیال اور لبرل۔ یہی تھی امیرالدین کی تربیت۔ ‘بابا نے ان کی وفات کی باتیں شروع کی تو ان کے مضبوط لہجے میں لرزش صاف سنائی دی ۔ ان کے الفاظ کے گلے میں آنسوؤں کی نمی میری آنکھیں بھی نم کر گئی۔۔۔اور میں نے بات بدلنے کی غرض سے جلدی سے اگلی تصویر کا پوچھا ،’بابا یہ کون ہیں؟‘
’یہ ہے ڈاکٹر فہمیدہ حسین ۔جس نے مجھے کتاب بھیجی تو لکھا تھا ، ’ ادا ‘ شاہ محمد مری !‘ انھوں نے کہا۔ ’اور اس کی کتاب ’ شاہ لطیف کی شاعری میں عورت کا کردار‘ کو پڑھ کر میں مست توکلی کی عظمت کو سہی معنوں میں سمجھا۔ایک فہمیدہ باپ کی فہمیدہ بیٹی ،جس نے انسان سے محبت ، سندھی زبان سے محبت ورثے میں لی۔ سماج کی عورت سے ازلی نا انصافیوں کو زیر کر کے استاد بن گئی۔ایک ایسی استاد کہ جو شاہ لطیف کو میلوں ٹھیلوں سے نکال کر اس کی تعلیمات کے ساتھ عوام کے سامنے لائی۔ یہ احسان کیا کم ہے اس کا بیٹا۔۔۔؟‘ بابا نے میری طرف دیکھا اور میں مسکرا دی۔
’اور بابا جان یہ تو ہمارے سرور صاحب نہیں ہیں ؟‘ میں نے اگلی تصویر پر انگلی رکھی۔
’ہاں بیٹا یہ وہی ہے بس ذرا سا جوان ہے اس میں ۔‘ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’میں جب لاہور میں پڑھ رہا تھا تو تب پارٹی کا رسالہ اس کے پاس آیا کرتا تھا ، ملاقات تو میری بہت بعد میں 1990ء میں اس سے ہوئی۔ یہ جمعیت میں چار سال رہا ہے۔ اس کے بعد مارکسزم پڑھنا شروع کی۔ گورکی ماں ، پشتو میں مارکسی فلسفہ، ماؤ کی کتابیں پڑھیں اور سوشلسٹ پارٹی میں آیا۔ اور تب سے ہم دوستوں سے آغا کا لقب پایا۔‘
بابا نے البم کا صفحہ پلٹتے ہوئے کہا۔
’اس کو جانتی ہو عابدہ؟ ‘ بابا نے ایک تصویر دکھائی۔
’نہیں بابا جان ۔ کون ہیں یہ؟‘
’ بابا عبداللہ جان کے بہت قریبی دوست انور احسن صدیقی۔ماہنامہ ’ طلوع‘ میں ساتھ تھے دونوں۔ سوچ اور نظریے کا یہ مستقل مزاج، وفا اور دوستی کا یہ نشان، مارکسی علم سے بہرہ ور انسان تھا ۔ ادب میں پاکیزگی زندگی میں پاکیزگی کی طرح مقدس جان کرپاکیزہ تخلیقات کے ساتھ سنگت میں رہا تھا۔مظلوموں ، مقہوروں کو شعور دینے والے انسان کو بھولا جا سکتا ہے بھلا! خود کو ہی گویا بھول گئے پھر تو۔‘
’ اور اب دیکھو عابی بیٹا، میرے دوست سائمن غلام قادر کی تصویر۔ کچھ یاد نہیں پڑتا ہم پہلی بار کب ملے تھے ،بس یوں کہ جیسے دن کی روشنی غیر محسوس انداز میں رات میں مل کر روشن دن لاتی ہے۔ بس اتنا یاد ہے کہ ضیا الحق کے خوف ناک دور میں رنگ اور برش لے کردیواروں پر ’ مارشل لا مردہ باد، دنیا کے مزدورو ایک ہو جاؤ‘ لکھتے وقت ہم ساتھ تھے۔ اور پھر تو ہم نے بہت سے نظریاتی ساتھی بنائے۔ ہسپتالوں میں مرد و خواتین نرس کامریڈ، خاکروبوں کی یونین بناتے وقت ،مارکس کی فکر گفتگو کے ذریعے اور اخبارات پڑھ پڑھ کر اقلیتوں کو پہنچاتے وقت ہم ساتھ تھے۔ سسٹر ثبینہ اور فادر یوسف جیسے انسانوں سے دوستی کا تحفہ بھی قادر ہی کے مرہونِ منت ہے۔اور پھر وہ مجھ سے کھو گیا ، بس جدائی کے آنسو بہانے کا بلاوا آیا تھا۔‘
’اور یہ رہا میرا بحثو یار اکرام احمد۔بحث کا اس قدر رسیاکہ بات کولپور تک پہنچا کر ہی دم لیتا تھا بلکہ دم کہاں لیتا آخر میں پھر ’ جاری ہے‘ کا کارڈ دکھا کر اگلی بار پھر وہی بحث۔ ہاں مگر کتاب پڑھنے پر مہینوں لگاتا۔ افغان انقلاب اور سوویت یونین کے ساتھ ہم یاروں نے خوب یاری نبھائی۔ اور موت کو تو ذرا دیکھو، سمجھتی ہے ہمارے دوست کو ہم سے دور لے گئی۔ ہمارے ساتھ ہے وہ اب بھی۔‘
بابا جان خاموش ہو گئے۔
’ بابا جان آج چائے نہیں ملے گی کیا۔۔۔؟‘
’ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ ‘انھوں ایک آہ کی اور پھر چائے کے لیے لڑکے کو کہا جو کچھ دیر میں ہی گرم گرم چائے لایا۔
’تم بور ہو رہی ہو؟‘
’نہیں بابا، بور کیوں ہونا ہے ، میں تو بلکہ مزا لے رہی ہوں آپ کی باتوں کا۔ اچھا بابا جان، یہ کون ہیں؟‘ میں نے اگلا صفحہ پلٹا اور ایک تصویر کی جانب اشارہ کیا۔
’یہ تو اپنے عہد کا بابو شورش تھا،ڈاکٹر سعید مستوئی!‘ انھوں نے چائے کاگھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ سنگت سعید ایک غیر معمولی انسان تھا۔ادب و آداب! وہ استقامت کہ اپنے استاد کے سامنے سگریٹ نہ پیتا، سیاست و نظریات میں ایسی استقامت کہ آخر تک اس پر قائم رہا۔ فکر و نظریے میں کوئی جھول نہیں تھا۔ یہ دھیما شخص بہت واضح اور اونچی آواز میں سوچتا تھا اور اسی بلند آواز اور وضاحت کے ساتھ لکھتا تھا۔ اس کی سوچ اس کی تحریروں میں عیاں تھی۔ آخر تک سنگت اکیڈمی کے ساتھ رہا۔
’بابا جا آپ کے اور دوست بھی تو تھے جو پینٹنگ کرتے تھے، آپ نے ایک بار بتایا تھا۔‘ میں نے چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے پوچھا۔
’ آہا۔۔۔عزیز مینگل ۔ یہ دیکھو اگلی تصویر اسی کی تو ہے۔ نفرت، تعصب، اوہام پرستی جیسی اندرونی آلودگی سے پاک ، شال کا Grace ، روشن فکر عزیز مینگل۔سرداریت، طبقاتی سماج، فضائی اور نیت کی آلودگی کو زہر کہتا تھا۔درس و تدریس سے وابستہ یہ مصور بے شمار کتابوں کا خالق تھا۔سنگت اکیڈمی سے وابستہ، پوہ زانت، سنڈے پارٹی اورایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ میں آخر تک شامل رہا۔ اس کا نام سنگت اکیڈمی کے ایڈیٹوریل بورڈ سے ہٹانا آسان کام نہیں تھا۔ گویا میں اپنی جلد پر سے اس کا نام کھرچ رہا تھا۔‘
اگلی تصویر سامنے آئی تو بابا جان نے مسکرانا شروع کر دیا ۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ میرا دوست انوار ہے۔اور پھر جو اُن کی شخصیت کا نقشہ انھوں نے کھینچنا شروع کیا تو میں تو زور زور سے ہنسنے لگی اور میرے ان قہقہوں میں بابا جان کے اپنے قہقہے بھی شامل ہو گئے۔اور پھر انھوں نے بتایا کہ انوار گو کہ بلوچستان میں زیادہ نہیں رہا لیکن کہتا تھا کہ میرے دل کے تمام راستے بلوچستان کو جاتے ہیں۔ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور پھر سرائیکی کا چیئرمین بنا۔انقرہ یونیورسٹی، اوساکا یونیورسٹی، فیصل آباد یونیورسٹی میں اردو پڑھائی۔سو کے قریب مقالے لکھے۔درجنوں کتابیں لکھی۔ادب سے محبت رکھی۔ بابا جان نے بتایا کہ اس کی دوسری محبت کے بارے میں جانتا تو نہیں لیکن میرا تجربہ بتاتا ہے کہ اس کرامت والی نعمت کے بغیر وہ اتنا تخلیقی وپیداواری شخص بن ہی نہیں سکتا تھا ۔۔۔‘اور ان کی اس بات پر میرے ہونٹوں پر ایک دفعہ پھر مسکراہٹ تیر گئی۔
’یہ ہے اکبر بارکزئی؛ روسی انقلاب سے متاثر ہو کر ا س نے لیاری میں سٹڈی سرکلز کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں لیاری سٹوڈنٹس فیڈریشن، بلوچی اکیڈمی بنائی۔ شاعری بھی خوب کی۔ جلاوطن ہوا تو بغداد سے بھی بلوچی اخبار نکالا۔‘
’اوہ یہ تو جاوید اختر صاحب ہیں بابا ۔‘
’ ہاں جاوید، جس کی ماں گشکوری تھی اس لیے ہم اسے گشکوریوں کا بھانجا کہتے ہیں ۔ اس کا تو پتہ ہی ہوگا کہ مارکسی فلسفے سے واقف اور لسانیات کا ماہر ہے۔براہوی زبان پر بہت تحقیق کی ہے اور اس موضوع پر پانچ کتابوں کا مصنف ہے۔غضب تو یہ کیا اس نے کہ جمالیات پر کتاب لکھ ڈالی۔اسلوب تو اس قدر خشک کہ مجال ہے جو قلم ذرا سی بھی شرارت پر آمادہ ہو۔ایسے الفاظ:ارتجالی، مہیجات، ازواق، امیال ۔۔۔‘بابا جان بولتے گئے اور میں ہنستی چلی گئی ۔’ بس کر دیں ۔۔۔اُف!کتنے مشکل الفاظ ہیں بابا جان۔ ‘
’ ہے کہ نہیں مچھر بھگانے والے Mospel لوشن کی طرح کہ قاری کوپاس ہی نہ آنے دیں‘۔بابا نے ہنستے ہوکہا۔ ’لیکن ایسا بھی نہیں عابدہ، میرا دوست ان تیس سالوں میں ثابت قدم رہا، جب سوویت یونین ٹوٹنے اور سوشلسٹ بلاک تحلیل ہونے پر ساری دنیا پارٹیوں جھنڈوں سے سرخی اتار کر راستہ بدل رہی تھی تب بھی جاوید سوشلزم کے نظریے پر قائم رہا۔‘
’یہ پیاری سی تو کوئی انگریز لگ رہی ہے بابا۔‘
’ ہاں یہ انگریزنی سی آر اسلم صاحب کی بہو اور قیس کی بیوی کسنڈرا بالچن تھی۔ہماری ملاقات انہی کے گھر میں ہوئی۔میں نے لو برڈ (Love Bird)کا لفظ اُس سے سنا جو خود بھی لو برڈ تھی۔ انقلابیوں کی عزت کرنے والی، عورتوں کے حقوق کی اس علمبردار نے مجھے وپٹساروف سے متعارف کرایا ۔ مختلف رسالوں ، اخباروں سے وابستہ ہی نہیں رہی بلکہ خود بھی لکھتی رہی۔سوشلزم میں ہماری شریک تھی۔ وفا کا علم بلند کرتے ہوئے ہم اسے سلام کرتے ہیں۔‘
’اور یہ ہے خلیل صدیقی ! ‘بابا نے کہا اور اٹھے ؛’ایک منٹ میں سلائیڈ دیکھ کر آتا ہوں ۔‘
بابا جان کے انتظار میں، میں نے وہ دراز کھولا، جس کی اکثر میں تلاشی لیتی ہوں ۔ ’کوئی نئی کتاب نہیں ہے اس میں ، اب تک کی ساری تمھیں دے چکا ہوں‘۔ بابا نے واپس آکر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’خلیل صدیقی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں استاد رہا ،صرف نصابی کتب کا نہیں بلکہ ادب ، لسانیات، روشن فکری اور اخلاقیات کا استاد ۔یہ دھیما اور خوش گفتار انسان ہر انسان کی ذہنی سطح تک آکر بات شروع کرتا اور پھر اسے آسمان کی وسعتوں تک لے جاتا۔شعور کا یہ اسپیشلسٹ کتابوں کے انتخاب، مطالعے اور ترجمے کے لیے، رسالے میں بہتری کے لیے رہنمائی کرتا۔ تعصب سے دور سچا انسان ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔‘
’اس تصویر میں تو دو لوگ ہیں بابا جان ۔ یہ کون ہیں؟‘
’ یہ در بدر ، خاک بسر ہیں ۔‘ بابا نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
’یہ کیسے نام ہیں بابا جان؟ ‘میں حیران ہوئی۔
’یہ دونوں بہت قریبی دوست ہمارے بھی بہت قریب تھے۔ بدر الحسن محکمہِ تعلیم میں ہونے کی وجہ سے تبادلے ہوتے رہتے تھے تو جعفر اچکزئی اس کوبدر کی بجائے دربدر کہتا تھا تو تمکین عباسی بھی جو اسی محکمے تھا اس کو خاک بسر کہتا تھا۔ بہت ہی روشن فکر انسان تھے یہ دونوں۔ ‘
اسی اثنا میں کسی ٹیسٹ کی رپورٹ ان کے سامنے رکھی گئی اور وہ بات چھوڑ کر اس پر سائن کرنے لگے۔
’اور یہ رہا حمزہ واحد کا خاوند ، واحد بشیر، فارغ ہو کر انھوں نے اپنی بات جاری رکھی۔
’آپ بھی کیسی باتیں کر تے ہیں بابا یہ حمزہ واحد کا خاوند پھر کیا ہوا، جب واحد بشیر کی بات کر رہے ہیں تو بس ان کا ہی نام لیں۔‘
’ بہت ضروری ہے بیٹا حمزہ کا نام لینا کیوں کہ اسے اپنی بیوی سے بہت محبت تھی اور اس کا ذکر بہت ہوتا تھا اس کی گفتگو میں۔ واحد،’ ارتقا‘ کا ایڈیٹر، بزنس ریکارڈر کا سب ایڈیٹر،، ہفت روزہ’ الفتح ‘کا اسسٹنٹ ایڈیٹر خود بھی’ سنگت ‘میں لکھتا تھا۔ دو شعری مجموعے شائع ہوئے۔مزدوروں کی جدوجہد میں ساتھ رہے ۔ لکھنے کی پاداش میں جیل بھی ہو آئے۔‘
بابا جان نے البم کا صفحہ پلٹا تو کوئی خاتون تھیں۔
’ بابا، ویسے میں دیکھ رہی ہوں جو آپ نے اس البم میں ایک فرق روا رکھا ہے کہ خواتین کی تعداد کم ہے اس میں۔‘
اور بابا نے نے مسکراتے ہوئے میرے سر پر چپت لگائی ؛’ایسا نہیں ہے۔ اچھا سنو یہ گوہر ملک ہے، میر گل خان کی صاحب زادی ۔‘
اور میں نے خوش ہوتے ہوئے البم اپنے قریب کر لیا۔
’اس نے اور نہ ہی اس کے شفیق باپ نے اس کی جسمانی معذوری کورکاوٹ سمجھا۔ اچھی تعلیم اور تربیت ہوئی اس کی۔ عورت کی پسماندگی، مظالم، بلوچ ثقافت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ احمد ندیم قاسمی اور جمال ابڑو کے افسانوں اور ن۔ میم ۔ راشد کی نظم ظالم سردار کا بلوچی میں ترجمہ کیا۔ ‘
’اور بیٹا یہ رہی افضل توصیف؛ بہت اچھی ناول نگار، افسانہ نگار، ادیب اور کالم نویس تھی۔ اردو، پنجابی اور انگریزی میں لکھتی تھی۔’ سنگت‘ کے لیے اپنی تحریریں بھیجتی تھی۔‘
البم کا اگلا صفحہ پلٹا تو وہ آخری تصویر تھی۔ جو بابا جا ن نے بتایا کہ محمد علی صدیقی ہے۔
’ صدیقی صاحب تخلیق کار کی عزتِ نفس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ کسی انسان کی دل آزاری نہیں کرتا تھا۔ وہ جدیدیت، ما بعد جدیدیت اور وجودیت نامی ادبی نظریات کا سب سے بڑا مخالف تھا۔بہت بڑا نقاد تو تھا ہی لیکن بعد میں سنا کہ گوہر کے تخلص کے ساتھ شاعری بھی کی۔اسی سوچ کا حامل تھا کہ فیوڈل ازم، سماجی و معاشی نا انصافی کے خلاف تھا۔تنقیدی مضامین کی بے شمار کتب اس کی چھپ چکی ہیں۔بلوچی قوم اور بلوچی زبان کا خیر خواہ تھا اور اس زبان سے رغبت کی بنا پر بلاچ کلاسیکل شعرا کو پڑھا اور ایک مضمون ’ بلوچی لوک داستانیں اور معاشی ترقی‘ کے نام سے بھی لکھا۔‘
بابا جان نے بات ختم کرتے ہوئے البم بند کر کے جو میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں نمی جھلملا رہی تھی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ پتہ نہیں یہ نمی ، یہ مسکان اس ملاقات کی تھی جو ہم ان کے دوستوں سے کر کے آئے ، ان دوستوں کی جدائی کی تھی جو دور پردوں کے اس جانب چلے گئے یا ان دوستوں کے لیے لب مسکرا اٹھے جو ابھی ان کے پاس ہیں۔ کوئی ملی جلی کیفیت رہی جس نے بابا جان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔۔۔
۔۔۔اور یہ حصار تب تک قائم رہا جب تک کہ میری آنکھ نہ کھل گئی۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ بابا کی کتاب ’عشاق کا قافلہ‘پڑھتے پڑھتے جو میری آنکھ لگ گئی تھی تو یہ سارا سفر اسی خواب میں ہوا۔ کیسا خواب تھا۔۔۔جی چاہا کہ پھر آنکھ لگ جائے اور سلسلہ وہیں سے جڑ جائے۔
پھر خیال آیا کہ قافلہ جاری ہے تو خواب کیسے ختم ہو سکتا ہے۔۔۔!!۔