کچھ لوگ بابرکت ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے شہری روایات بحال رہتی ہیں۔ کوئٹہ شہر میں کچھ بڑے سیاستدان تھے جو جناح روڈ اور ملحقہ بازاروں میں چہل پہل کرتے ہوئے نظر آتے تھے جن سے لوگ عقیدت سے ملتے تھے یا احتراماً سلام دُعا کر کے آگے نکل جاتے تھے۔ اس روایت کے غالباً آخری امین ممتاز بلوچ فنکار عبدالقادر حارث تھے۔ جو دفتر سے چھٹی کرنے کے بعد سیدھا سورج گنج بازار میں عمر پان والے کے کھوکھے پر پہنچ جاتے اور شام تک اِدھر اُدھر ٹہلتے ، ملنے والوں کو پان کھلاتے ۔ پان کی گلوری مند میں رکھے ان کی آدھی مسکراہٹ کسی کے منافقانہ پوری بتیسی نکالنے پر بھاری ہوتا تھا۔ وہ عوام میں تو فٹ تھے مگر فن کے فروغ کے دعویدار اداروں کے لیے اُن فٹ تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی زبردست اداکاری کی وجہ سے ریڈیو ٹی وی کے پروڈیوسر اور افسران ان کے سامنے بونے لگتے تھے، ساتھی اداکار جیلسی میں اس کے خلاف تھے ۔ باقی کسر سماج کی مالی اور اخلاقی بدعنوانی نے پوری کر رکھی تھی۔ کیونکہ ایک عرصے تک چیکوں کے ففٹی ففٹی کرنے کا چرچہ رہا ( اب تو خیر چیک ہیں ہی نہیں) یہ قدرتی باصلاحیت فنکار کسی اکیڈمی سے سیکھ کرنہیں آیا تھا۔ بنے بنائے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن میں داخل ہوا تھا ویسے بھی جہاں نااہل لوگ ہوں وہاں بھلا کوئی کہاں سیکھ سکتا ہے ۔ باقی جو بڑے کہلانے والے ہیں وہ سکینڈلوں کے ذریعے اپنا قد اونچا کرتے ہیں۔ اس قبیل کے لوگ ٹی وی اور فلم انڈسٹری میں خاصے مشہور ومقبول رہتے ہیں ایسے ماحول میں قادر حارث بھلا کیسے فٹ بیٹھ سکتا تھا۔ اس کا کڑھنا بجا تھا کیونکہ وہ ایک نظر یاتی فنکار تھا۔وہ نا انصافیوں کے خلاف کہانیوں میں موجود اداروں کے بھر پور کردار ادا کرنا چاہتا تھا۔
وہ اپنے فن کے ذریعے معاشرتی برائیوں کے سرغنہ کرداروں کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا۔ وہ ڈرامہ برائے ڈرامے کا قائل نہیں تھا۔ اس کے پسندیدہ کردار قلی ، ریٹائرڈ ملازم ، تانگے بان، مزدور، معاشرے کا ستایا ہوا غریب باپ ، یا پھر کلچر ڈبزرگ تھے ۔ان کی خواہش تھی کہ وہ کبھی کسی دبنگ سیاستدان یا عمر مختار جیسے کسی بڑی شخصیت کا کردار ادا کرے یعنی ڈونل ٹرمپ، مودی ، شیخ رشید جیسا نہیں بلکہ چی گویرا ، بھگت سنگھ جیسا کردار پانے کا منتظر تھا۔ ان کمزور معدوں کو بھلااتنے اہم ، متحرک اور نئی تاریخ رقم کرنے والے کردار کیسے ہضم ہوسکتے ہیں۔ اداکار حسام قاضی مفلسی اور کام کی زیادتی کی وجہ سے اپنا صحیح علاج نہ کروا سکا یوں وقت سے پہلے ہم سے جدا ہوا ۔ اداکار اسماعیل شاہ بڑی انڈسٹری کے بڑے کھاتہ داروں کی لڑائی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کہہ لیجیے حاسدوں کے ہاتھوں ٹریپ ہوئے اور قادر حارث نا اہلوں کے بیچ میں کڑ ھ کڑھ کر ہم سے جدا ہوئے ۔ بالی وڈ کے عظیم اداکار نصیرالدین شاہ نے یونہی قادر کی اداکاری کی تعریف نہیں کی تھی۔ انہیں بھی اس جوہر نایاب کی عظمت کا بھرپور احساس تھا۔ مگر بلوچستان کی پسماندگی کا رٹہ لگانے والے استحصالی ٹولہ ایک مرتبہ پھر قادر حارث کی صلاحیتوں کے اظہار کے باوجود اُسے قومی ڈراموں کے مقابلے میں اول آنے کے باوجود ایوارڈ دینے سے منکر ہوا۔ اور اپنے ہی کیے گئے فیصلے سے روگردانی کی ۔ کسی حساس شخص کو جیتے جی مارنے کے لیے یہ غیر منصفانہ عمل کافی ہے۔ کاش کوئی اس نا انصافی پر بھی ایک جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کرتا۔ بہر حال قادر حارث جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے ہم ایک قادر کا مقدمہ لے کر کہہ سکتے ہیں اب تک کتنے قادروں کا قتل ہوا ہے ۔ اس وقت بھی بلوچستان کے فنکاروں کا معاشی قتل عام ہو رہا ہے ۔ریڈ یو اور ٹی وی جو واحد ادارے ہیں میں تخلیقی کام بند ہوچکا ہے ۔ فنکار اپنے پرانے معاوضوں کے حصول کے لیے دن رات ٹی وی اور ریڈیو سٹیشن کا چکر کاٹتے ہوئے ملتے ہیں ۔اوپر کی سطح پر بااختیاروں پر کروڑوں روپے اپنی عیاشی پر خرچ کرنے کے مقدمے عدالتوں میں چل رہے ہیں۔پی ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشن میں گزشتہ دس برسوں سے بھرتیوں کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ البتہ کنٹریکٹ پر سیاسی بھرتیاں ہورہی ہیں جن کی قابلیت پر روز سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں فن کے ساتھ ہونے والی زیادیتوں کا ازالہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ادب وفن کے ذریعے ہی معاشروں میں سدھار پیدا ہوتا ہے ۔ لکھاری اور فن کارہی اس حوالے سے معتبر کہلاتے ہیں۔ نامور صحافی صدیق بلوچ اور عبدالقادرِ حارث کے انتقال پر کسی بھی چینل پر قومی سطح پر بریکنگ نیوز نہ چلنے سے اہل بلوچستان کو قومی اداروں کے رویے اورپالیسی پر بہت افسوس ہوا ہے ۔ جبکہ اداکار مُنا لاہوری کے انتقال اور بیماری پر بریکنگ نیوز بھی آتے رہے۔ اور انہیں خراج عقیدت بھی پیش کیا جاتا رہا۔ جوکہ اچھی بات ہے۔ مگر کیااچھا ہوتا اگر لالہ صدیق اور قادر حارث کے لیے ایسا ہوتا۔ لالہ صدیق ڈان جیسے موثر اخبار سے برسوں وابستہ رہے۔ قومی سطح پر اخباری اداروں کے سربراہ رہے۔ قادر نے فلموں میں کردار نبھائے ۔ اسماعیل شاہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے۔ حسام قاضی نے بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں کے سٹیشنوں کے ڈراموں میں اداکاری کی ۔ یہ تو چونکہ تازہ واقعات ہیں۔ ورنہ یہ استحصالی رویہ بہت پرانا ہے ۔ باقی رہی بات عوام کی یا خواص کی وہ تو ہکا بکا زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں خود انحصاری سے واسطہ ہی نہیں۔ اگروہ خود انحصاری کے فلسفہ سے واقف ہوتے تو سرکاری اداروں سے تو قعات وابستہ کرنا عبث ہوتا ۔ قومیں تھیٹر، سکول ، لائبریری ، آرٹ گیلریوں کے لیے اپنی زمینیں وقف کرتے ہیں۔ اساتذہ فنکاروں کی خدمت کرتے ہیں ۔ تب قوم پرستی کے دعوے پورے ہوتے ہیں۔ ایسی قوم پرستی کا فائدہ کیا جس میں سماجی بہود وترقی کے ادارے محتاج نظر آتے ہیں۔ لاکھوں روپے قتل وغارت گری اور عیاشی پر صرف ہوں۔۔۔۔۔ اور انسانی ناقدری کا احساس قدم قدم پر ہو۔۔۔۔