قصہِ اہلِ جنوں کوئی نہیں لکھے گا
جیسے ہم لکھتے ہیں، یوں کوئی نہیں لکھے گا
وحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی
حالتِ سوزِدروں کوئی نہیں لکھے گا
کیسے ڈھے جاتا ہے دل ، بجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟
سرنوشتِ رگِ خوں، کوئی نہیں لکھے گا
کوئی لکھے گانہیں کیوں بڑھی ، کیسے بڑھی بات؟
کیوں ہوا درد فزوں ، کوئی نہیں لکھے گا
خلفتِ شہر سر آنکھوں پہ بٹھاتی تھی جنہیں
کیوں ہوئے خواروزبوں ، کوئی نہیں لکھے گا
عرضیاں ساری نظر میں ہیں رَجز خوانوں کی
خبر ہے ہمیں، کیوں کوئی نہیں لکھے گا
شہرِ آشوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
میں ہی لکھوں تو لکھوں، کوئی نہیں لکھے گا
بے اثر ہوتے ہوئے حرف کے اس موسم میں
کیا کہوں، کس سے کہوں، کوئی نہیں لکھے گا