1
ساحر لدھیانوی کو ہم سے بچھٹرے ہوئے سینتیس سال(37) ہوگئے ہیں ۔ ساحر عام آدمی کے دل کی ڈھڑکن کو سمجھنے والا شاعر تھا۔ اس نے اپنے دور کے نامساعد حالات ،محکوام قوام، اُن کے مسائل، بھوک افلاس، بیماری پر لکھا اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف مضبوط آواز بلند کی ، گو کہ اُس کی رومانوی شاعری بھی عروج پر رہی ۔ اور اس نے ہندوستانی فلموں کے لئے بیش بہا حسین نغمے لکھے ۔ساحر جیسے انسان کے لئے الفاظ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہوتی ساحر روح کے اندر چھا جانے والا شاعر ہے۔ساحر جذبات کا شاعر ہے ، ساحر انقلابیوں کا شاعر ہے ، ساحر نوجوانوں کی مستی کی ہستی ہے ،ساحر پل دوپل کا شاعر ہے،ساحر سرخ پرچموں کا شاعر ہے، ساحر ہر پل کا شاعرہے، ساحر شاعروں کا شاعر ہے،ساحر ہر دور کا شاعر ہے۔
آج میں ہوں جہاں کل کوئی اور تھا
یہ بھی اک دور ہے وہ بھی اک دور تھا
ساحر بھی کیا انسان تھا خود کو خودی سے ہی چراتا گیا، تنہائی کی جو کفیت ساحر کی زندگی میں گزری ہے اس کا پتہ اُس کے نغموں میں ، اُس کی شاعری میں اور اُس کے دل کے تاروں سے نکلی ہوئی وہ دھن ہے ، وہ نغمہ ،وہ ساز ،درد ، وہ لے ہے جو اس طرح سامنے آجاتا ہے
جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سنی ہے
جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتہ ہے
ساحر کی شاعری میں جو چاشنی ، سادگی ، سلاست اور پیغام ہے اسے سمجھنے میں جتنی آسانی ، پڑھنے میں جتنا لطف اور اثر اتنا گہرا چھوڑ جاتا ہے کہ بار بار پڑھنے کے باوجود بھی ہر بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور تشنگی رہ جاتی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں امن اور تہذیب کے تحفظ کیلئے جو تحریکیں چل رہی ہیںیہ نظم "پرچھائیاں ” اس کا ایک حصہ ہے ۔اس نے پرچھائیاں جس دور اور کیفیت میں لکھی ہے اور جن حالات کی نشاندہی کی ہے امن سے محبت اور جنگ سے نفرت کا جو اظہار کیا ہے وہ عام فہم انسان کیلئے بہت آسان اور اثر چھوڑنے والی نظموں میں شمار ہوتا ہے ۔محنت کش اور مزدورں کیلئے جو انقلابی گیت لکھے وہ ہر زبان پر ترانہ بن گئے ۔وہ محفلوں میں، جلسے جلسوں میں بو لے اور گائے گئے ۔ ” وہ صبح تو کبھی آئے گی” وہ صبح ہمیں سے آئے گی، جب دھرتی نغمے نگائے گی ، جب امبر جھوم کے ناچے گی ، تم سے قوت لے کر تم کو راہ دکھا وں گا جیسی سینکڑوں نظمیں لکھ کر ساحر محنت کشوں ، مزدوروں اور انقلابیوں کے اند ر انقلابی بن کر اُنکی رگوں میں آج بھی دوڑ رہا ہے ۔سرخ پرچم کا ساتھی ، ترقی پسند نوجوانوں کے شاعر "تاج محل ” جیسے شاہکار کی تخلق کو جہاں مزدوروں کے خون پسینے کی اس عمارت کو جس انداز سے بیا ن کیا ہے وہ عام انسانوں اور محنت کشوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ساحر کی زند گی اور اُس کی تخلیق کاری نے ہمیشہ سر چڑھ کربولا ہے۔اپنی دھن ،اپنے اندر مگن ، اپنی دنیا کا تاج محل بھی خو د ، اپنی گیتوں کا گیت بھی خود نغمہ بھی خود اور ساز بھی خود۔۔ نے ہر فکر کو دھوئیں میں اُڑاتا رہا، بربادیوں کا جشن مناتا رہا، محبت ترک کی ، گریبان سی لیا، حسین خوابوں میں کھوکر خواب بنتا رہا مگر کسی کا خواب نہیں بن سکا ۔ ساحر کا عشق اُس کی اپنے ہی حسن سے ٹکراتا رہاموجِ ساحل سے ملتا رہا ، اور اپنے کھوئے ہوئے رنگین نظارے کو خودہی دیکھتا رہا،اپنے ہی اند ر حسرتوں کا دیدار کر تا رہا ، اپنے دل پہ خود ہی چھایا رہا ، اپنی آنکھوں سے اپنا جام خود ہی پیتا رہا اور جنت کی رنگین گلیوں میں محبوب کی طرح پھرتارہا۔ بیٹر ی سلگاتارہا ، دل کو جلاتا رہا ، راکھ کا ڈھیر بن گیا پھر بھی جلتا رہا۔ کوئی شعلہ نہ کو ئی چنگاری ۔۔ اسی طرح غیر یقینی صورتحال میں ساحر لدھیانوی یقینی زندگی گزارتا رہا اور بے مزگی میں زند گی کی مزگی کو اُڑاتا رہا اور زندگی کا ساتھ نبھاتا رہا ، اسی طر ح اُس نے پوری زندگی خود کو سزا دی ۔
2
۔۔زندگی کے گیتوں کو دل کے تاروں سے ملاکر بجاتا رہا نہ تار کو پتہ چلا نہ ہی ساز کو۔ وادیوں نے بھی دامن کاساتھ چھوڑ دیا تو راستوں نے ساتھ دیا، سہانی رات بھی ڈھل گئی نیلا آسمان بھی سو گیا فضاء سوگوار اور ہوائیں خاموش ، کالی گھٹاوں کے سائے نے بھی ساحر کو معاف نہیں کیا، پلکوں کے شامیانے میں پلکیں بھیگتی رہیں، جگنووں کی مانند بے خواب آنکھیں اور مد ہوش نظریں ہمیشہ تلاش میں رہیں اور جوانی پوری زندگی حسن کی رنگین پناہوں میں سوتی رہی۔” میں جانتا ہوں تو غیر ہے کوئی” آنکھ ویراں،دل پریشان ،غم کا سامان اور اذیتیں لیے بے خطا پکارتا رہا "آج پھر جینے کی تمنا ہے آج پھر مرنے کا ارادہ ہے۔ڈوبتی سانسوں اور بجھتی نگاہوں سے اپنے بد ن کو خاک میں ملا کر ، اپنے دکھوں کو سہہ کر ، بے چینی کے جس عالم میں ساحر رہا ۔۔ تو بس رہا، اسی طرح رہتے رہتے دیوانہ وار کرتے کرتے ” چکلے” سے لے کر”صبح کی نویدتک ” نہرو ” سے لیکر ” گاندھی ” تک جشن ” غالب ” لولمبا ” ” لینن ” سے لے کر ” سوویت یونین ” تک ” امرتا ” سے لے کر ” پریتم ” تک اور اُس صبح سے لے کر ” فرار” فرار کی دینا سے لے کر "تاج محل”اور "مادام”تک خواب بنُتے رہے۔ چکلوں میں گھومتا رہا اور ثناء خواں تقدیس ڈھونڈتا رہا عوام کے دلوں کے ناطوں کو جوڑتے جوڑتے دیوانوں اور مستانوں کے طرح اپنی وار کا خود ہی شکار رہا اور شکا ر ہوکر چلا۔ ساحر کو نہ منزل ملی ، نہ بازار نہ چاند نہ تارے بس اُس کی صدائیں ٹکراتی رہیں ستاروں سے "مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا۔نہ راہ ،نہ منزل،نہ روشنی کا سراغ بھٹکتی رہی زندگی یونہی ۔۔چلتے چلتے۔
ساحر ایک سچا انقلابی تھا ،عوامی انسان تھا ،زندگی کا سارا سفر ۔۔ سفر تنہا ئی میں گزاری ، ماں کی محبت سے سرشار اور باپ کی نفرتیں ساحر کو اس مقام پہ لے آئیں کہ وہ آگے ہی بڑھا اوران نفرتوں نے ساحر کو سینکڑوں لوگوں سے محبت سکھائی ۔ ساحر نے ان گنت لوگوں سے محبت کی، معاشرہ عجیب سوچتا ہے لو گ آسمان کی طرح رنگ بدلتے ہیں اس عظیم انسان کے صرف ایک پہلو کو ہم دیکھتے ہیں۔ساحر کے پاس کچھ نہ تھا لیکن سب کچھ تھا ۔ساحر کے پاس سب کچھ تھا تو کچھ نہ تھا وہ زندگی کا زہر خود ہی پیتا چلا گیا سب کچھ دوستوں میں اڑاتا چلا گیا، عیاشی کی بے ایمانی نہیں کی ۔عیاشی بھی کیا عیاشی درد ہی درد سینے میں لیے دل میں اتارے چلے گئے ۔ہمارے اندر برداشت کا مادہ نہیں ہم کسی کو آسودہ حال میں بھی نہیں دیکھ سکتے لیکن ساحر تو آسودہ حال بھی کبھی نہیں رہا۔وہ تو آخر تک یہی کہتا رہا میرے لیے تھوڑا سا پیار بچا کر رکھو میرے کل کے لیے کل جو گم نام ہے ،کل جو سنسان ہے ،کل جو انجان کل جو ویران ہے،میں تو کچھ بھی نہیں۔اس دنیا اور آج کی دنیا میں بچانے کے لیے غم ہی تو ہے جو ساتھ ساتھ چلتا ہے ” راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی دکھ تو اپنا ساتھی ہے ” میں سمجھتا ہوں کہ ساحر کو اس کے اندر کے روگ نے مار دیا اور ارد گرد کے دوستوں اور ماحول سے یہ آگ بجھائی نہ گئی اور وہ پیتا ہی چلا گیا ” میں نے پی شراب تم نے کیا پیا ؟ آدمی کا خوں ،میں ذلیل ہوں تم کو کیا کہوں ” تم پیو توٹھیک ہم پیءں تو پاپ، ہم تبا ہ حال ،ہم فقیر لوگ زندگی بھی روگ مو ت بھی عذاب۔۔۔
ساحر نے زندگی کی تکلیفوں اور مشکلوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے زندگی کی زیادیتوں، اذیتوں نے شروع ہی سے ساحر پر جو اثر ڈالا ہے وہ شاعری اور گیتوں کی شکل میں سامنے آیا ہے ،ساحر کے سدابہار گیتوں نے پورے برصغیر میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ محمد رفیع ، لتامنگیشکر، مہندر کپور ، گرودت،گیتا دت ، آشابھوسلے ، مناڈے، ہیمت کمار،کشور کمار ، اور بہت ساروں نے ایک سے ایک بڑھ کر ساحر کی شاعری کو گایا ہے تو دوسری طرف ایس ڈی برمن ،خیام ،جے دیو،روی جی، یش جوپڑا،او پی نیر،این داتا، مدن موہن اور دیگر سنگیت کاروں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ہندوستان کی فلمی دنیا کو جو پذیرائی ملی وہ ساحر جیسے شاعروں کی مرہون منت ہے ” احسان میر ے دل پہ تمھارا ہے دوستو۔۔ تم مجھے یو ں بھلا نہ پاوٗ گے ۔۔ چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں۔۔ میں نے چاند اورستاروں کی تمنا کی تھی
"تاج محل” کے متعلق ساحر لکھتا ہے کہ یہ بیس ہزار سے زیادہ محنت کش مزدورں کے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کیا گیا ہے، جو تاج بھی نہیں اور محل بھی نہیں۔ یہ تو ایک بادشاہ کا تاج ہوسکتا ہے ہم جیسے غریبوں کا سایہ تو یہ مزدور ہیں جنہوں نے اس کی تعمیر کی۔ ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے اُن کے جذبے صادق اور امین نہیں تھے کیا ؟۔ یہ وہ ذہن ہے یہ وہ خیال ہے ساحر لدھیانوی کا ۔۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اور اصل میں اس سر زمین کا مالک ہے دوسرا طبقہ وہ ہے جو تاج محلوں میں بیٹھ کر لوگوں کو اذیتیں دے رہا ہے۔ ساحر لدھیانوی کی زندگی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اُس کی جڑیں ہمیں ہمیشہ عوام کے اندر ملیں گی۔کیونکہ وہ ہر سطح پر محکوم طبقے کی نمائندگی اور ترقی پسند قوتوں کی حمایت میں آگے رہا ہے۔
3
جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کا جو پیغام اُس نے اپنی طویل نظم "پرچھائیاں ” میں دیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے اور اس جنگ میں ساحر نے ہمیشہ اُن ہی لوگوں کے لیے لکھا اور کہا جنہوں نے سرمایہ دار ی نظام کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ ساحر لدھیانوی نے ظلم کے خلاف اُن قوتوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور اُن کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالتا رہا ۔ساحر کہتا ہے ”میں ذہنی طورپر اقتصادی آزادی کا حامی ہوں جس کی واضح شکل میرے نزدیک سوشلزم ہے۔ساحر لدھیانوی کمیونسٹ ورکروں کے ساتھ مل کر جلسے جلسوں میں شامل رہا نعرے بازی کرتا رہا اورطالب علمی کے زمانے میں سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر اور جنرل سیکریٹری بھی رہا۔ مہندر ناتھ ،سردار جعفری ،مجروع سلطان پوری،ظہیر کاشمیری ،اختر حمید،احمد راہی ،سجاد ظہیر ،کرشن چندر ،کیفی اعظمی ،جانثار اختر،حسرت جے پوری،شکیل بدایونی اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر بائیں بازو کی قوتوں کا ساتھ دیا۔ جنگ عظیم کے دور میں ساحر انقلابیوں کی صف میں کھڑا تھا۔ جن کی ترقی پسندانہ روشن خیالی نے انہیں لیفٹ کی سیاست میں عملی طورپر شامل کرلیا ،انقلابی نغمے اور ترانے سٹیجوں پر گونجتے رہے ۔ساحرنے عالمی انقلابی واقعات پر اپنے ترقی پسند شاعرانہ خیالات کا اظہار بھر پور انداز میں کیا ہے ۔ وہ سرمایہ داری ،جاگیرداری نظام سے آزاد ہوکر لکھتا رہا۔ ،عوامی انسان اور عوامی لوگوں کے درمیان رہا ۔ساحر عظیم انسان ان کا پیغا م عظیم تر جس سے ہماری موجودہ نسلیں اور آنے والی نسلیں عملی ، نظریاتی اور فکری حوالے سے فیض یا ب ہوتے رہیں گے ۔ ساحر لدھیانوی ایک جاگیر دار خاندان کا چشم وچراغ تھا ۔اتنا بڑا جاگیردار کا بیٹا اور جاگیرداری کے خلاف مزدوروں کا دوست اور ان کی آواز ۔۔اس کا گزر مزدوروں کی بستیوں میں ہوتا تھا۔ چھونپڑیوں ،میلی کچیلی گلیوں اوربستیوں میں کیفی اعظمی کے ہمراہ گیا تو وہاں کے مزدوروں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ساحر ہمارے درمیان ہے۔ وہاں کے مزدوروں نے ساحر سے مخاطب ہوکر کہا "اس تنگ و تاریک بستی میں آپ کا دم تو نہیں گھٹتا۔یہاں کا رپوریشن کے کارندے کبھی نہیں آتے لیکن پولیس روز آتی ہے یہاں قومی رہنماصرف الیکشن کے موقعے پر آتے ہیں لیکن وبائیں ہر موسم میں آتی ہیں۔ ہم آپ کو اپنا آلہ تفریح نہیں بنائیں گے ۔ ہم محنت کش ہیں ہم مزدور ہیں "یہ اُن مزدوروں اور کسانوں کی آواز ہے جو خود ساحر کو بلاتیں ہیں۔ ساحر کی رگوں میں جاگیرداروں سے نفرت اور مزدوروں سے بے انتہا محبت ہے۔تب ہی تو وہ کہتا ہے میرے گیت تمھارے ہیں ۔
آج سے اے مزدور کسانو!میرے گیت تمھارے ہیں
فاقہ کش انسانو! میرے جوگ بہاگ تمھارے ہیں
جب تک تم بھوکے ننگے ہو،یہ نغمے خاموش نہ ہوں گے
جب تک بے آرام ہو تم یہ نغمے راحت کوش نہ ہونگے”
کیفی اعظمی لکھتا ہے "ساحر نے سرح پرچم اپنے ساتھی کے کاندھے پر رکھ دیا ہے اور بربط خود اٹھا یا ہے پرچم تو لہراتا رہے گا،کاش بربط بھی بجتا رہے اور ساحر گاتے رہیں زندگی بڑی بے درد ہے اس نے اس انقلابی دور میں ایسے ہزاروں ہاتھوں سے بربط چھین لیا ہے جن کے کاھندوں پر پرچم نہیں تھا۔
تم سے قوت لے کر اب میں تم کو راہ دکھاوں گا
تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاوں گا
4
ساحر نے ادبی اور فلمی دنیا میں بیک وقت نام کمایا ،ادبی دنیا میں رہ کر فلمی گیت لکھنا اگر مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں تھا لوگوں نے تنقید بہت کی اس کے لیے ساحر کو در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں ۔ساحر نے اپنے احساسات اور جذبات کو بھی فلمی دنیا میں اتار دیا ۔ان کی سوچ اور خیال کھلی کتاب کی مانندہے۔ساحر کہتاہے” فلمی دنیا شاعرکو جنم نہیں دیتی بلکہ ایک شاعر فلمی دنیا کو اچھے گیت دے سکتا ہے۔ ایک حقیقی ادیب خود کو سماج کے مسئلوں سے الگ نہیں رکھ سکتا اور ان سے غافل نہیں رہ سکتا ۔ایک تنقید نگار کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ فلم کے نغموں پر تنقید کرنے بیٹھے تو صرف یہ نہ دیکھے کہ وہ نغمہ کس شاعر نے لکھا ہے بلکہ یہ بھی دیکھے وہ نغمہ کس کردار کے لیے لکھا گیا ہے ۔محمد رفیع نے ساحر کی شاعری کو جس انداز میں گایا ہے رہتی دنیا تک یہ آواز سینکڑوں ساحر کے چاہنے والوں کے کانوں میں گونجتی رہے گی ۔
ساحر لدھیانوی نے "بابل کی دعائیں ساتھ لیتی جا ۔جا تجھ کو سکھی سنسار ملے”( جسے محمد رفیع نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر پرُ نم ہو کر گایا ہے ) لکھ کر آپ نے باپ کا بیٹی کے حوالے سے اپنے جو احساسات کا کلیوں اور پھولوں کی طرح اس طرح اظہار کیا ہے جیسے آپ دنیا کی تمام بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں۔یہ تھا اصل ساحر اس کے اندر کی حقیقت ،چاہت اور احساسات کو کہیں لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔دنیاکی بٹییوں کے لیے جو پیغام آپ نے دیا ہے پڑھنے اور سُننے کے بعد ہی جذبات اشک بن کرامڈآتے ہیں۔
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں جوکچھ ہوتا چلا آر ہا ہے جس طرح ان کے حقوق سلب کئے گئے ہیں ، ان کی زندگی کو پامال کیا گیا ،دھتکا را گیا ،بازاروں بیچا گیا ، عصمت کے سودے اور سودوں پرتکرار ، لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں ، روح بھی ہوتی ہے اس پر یہ کہا ں سوچتے ہیں صرف تَن کے تقاضوں کا بول لگاتے ہیں ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں ۔۔۔۔۔ساحر لکھتا ہے
جن سینوں نے ان کو دودھ پِلایا ان سینوں کا بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کو کھ کا کاروبار کیا
جس تن سے آگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا
ساحر جب بلندیوں کو چھونے لگا تو کرشن چندر نے کہا "ساحر کی مقبولیت کو دیکھ کر میں بھی سوچ میں پڑگیا کہ ساحر عوام میں اتنا مقبول کیوں ہے "ساحر کے دوست کہتے ہیں ساحر کی مقبولیت کی وجہ اشتراکی شاعری ہے۔ اس نے اشتراکی فلسفے کو مد ھم مدھم فلسفی انداز میں اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ اس کی شاعری میں نغمگی ہے ۔ شائستگی ہے۔ ساحر لفظوں کی نشست ہے ،سلیس اور خوبصورت لفظوں کا انتخاب ہے ۔۔۔مہندرناتھ کہتے ہیں”انسان اندر سے روشنی اورتاریکی کا سنگم ہوتا ہے اگر کسی کے اندر اچھائیاں ہی اچھائیاں ہوں تو وہ انسان نہیں فرشتہ ہوتا ، فرشتوں کا اس زمین پر کیا کام انھیں تو آکاش میں رہنا چاہیے ۔ ساحر تو انسان ہے اپنا غصہ دوسروں پر نکالتا ہے جب میں ساحر کی اچھائیوں اور برائیوں کو ترازو میں تولنے لگتا ہوں تو اچھائیوں کا پلڑا بھاری نظر آتاہے جو ساحر کی شاعری کی عظمت کی نشاندہی کرتی ہے ۔ساحر مجموعہ اضداد ہے ۔پہاڑوں ،ریگستانو ں ،بنجر زمین ،تپتی دھوپ ،ٹھنڈی راتوں کا ،روتے روتے ، ہنستے ہنستے ،کھائیوں میں گر کر اٹھ کر ، حالات سے لڑتے لڑتے اردو ادب اور فلمی دنیا میں ساحر بن کر ابھرے ” عبدا لحئی سے ساحر تک یہ سفر اقبال کے اس شعر کے اندر چھپا ہوا ہے جو” ساحر "کا تخلص بنا اور "داغ”کا مرثیہ ۔۔۔
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبلِ شیراز بھی
سینکڑوں شاعر بھی ہوں گے صاحبِ اعجاز بھی
یقیناًسینکڑوں میں ایک ساحر اور ایک میں سینکڑوں ساحر کو چاہنے والوں میں ہم سب کا شمار ہوتا ہے کیوں کہ نفرتوں کی جہاں میں ہم کو پیار کی بستیا ں بسانی ہیں۔ ذات پات، مذہب، رنگ، نسل جو بھی ہو آدمی سے کم تر ہے اِس حقیقت کو تم بھی میری طرح ماں جاؤ تو کوئی بات بنے ۔
ساحر کی زندگی آج کی زندگی تھی اس کا نہ کوئی ماضی تھا اور نہ ہی مستقبل ۔کل اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور کل میں کبھی رہا بھی نہیں ۔ حال میں جیتا رہا اورحال ہی میں مرتا رہا۔میں سمجھتا ہوں ساحر نے عوام کے مستقبل کی خاطر اپنے حال کو قربان کردیا، ماضی تو اس کی ذلت کے سوا کچھ بھی نہ تھا، اسے نہ کاوشوں کا صلہ چاہیے تھا اور نہ ہی اس نے اپنی ناکام محبت کی کہانی چھیڑی ۔اس نے تو کہا تھا میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں ، میری امیدوں کا حاصل میری کاوشوں کا صلہ ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں ،عشق ناکام سہی زندگی ناکام نہیں۔ بس اس طرح زندگی کو لئے ساحر صبح کی نوید بن کر ابھرا ۔دھڑتی کے پیار اور لوگوں کی محبت سے وہ کبھی غافل رہا ہی نہیں و ہ جس دلدل میں دبا جارہا تھا وہ اس کی تنہائی تھی ،اس کی سچائی تھی لیکن کس کو خبر تھی کہ ایسے دن بھی آئیں گے جینا بھی مشکل ہوگا اور مرنے بھی نہ پائیں گے۔
امرتا پریتم کہتی ہے 26″ اکتوبر کی درمیانی شب دو بجے کے قریب ایک فون آیا کہ ساحر نہیں رہے تو پورے 20دن پہلے کی وہ رات اس شب میں مل گئی جب میں بلغاریہ میں تھی ڈاکٹروں نے کہا تمھارے دل کی حالت تشویش ناک ہے اس رات میں نے نظم کہی ۔۔
” اَج میں اپنے دلِ دریَا دچِ اپنے پھل پروا ہے”
اور اچانک اپنے ہاتھو ں کی طرف دیکھنے لگ گئی کہ ان ہاتھو ں نے اپنے دل کی دریا میں تو اپنی ہڈیاں بیاہی تھیں۔پھر یہ ہڈیاں تبدیل کیسے ہو گئیں ؟ یہ فریب ہاتھوں نے کھایا تھا یا موت نے ؟۔ سانسیں بھی ہوا میں ملتی رہیں اور نظموں کے لفظ بھی ہوا میں۔۔ سوچ رہی ہو ں ، ہوا کوئی بھی فاصلہ طے کرسکتی ہے وہ پہلے بھی شہروں کا فاصلہ طے کرتی تھی۔ اب اس دنیا اور اس دنیا کا فاصلہ بھی ضرور طے کرے گی۔
عوامی شاعر حبیب جالب” تاج محل کی موت” کو اس طرح یاد کرتا ہے۔
عمر بھر اس نے کیا عشق غمِ دنیا سے
اس سا ہوگا نہ کوئی عاشق انسان یارو
اس کی ہر نظم میں دکھ درد ہے انسانوں کا
اس کا ہر شعر ہے انسان پہ احسان یارو
وہ نہ ایک پل بھی رہا ہم سے گریزاں یارو
اس سا ہندو نہ کوئی اس سا مسلماں یارو
اس کے گیتوں سے زمانے کو سنوارنے آؤ
روحِ ساحر کو اگر کرنا ہے شادان یارو "