عرفان شہود

خلقتِ دھر نے یہ جو پرکار سے کھینچ رکھے ھیں سب دائرے
احتجاجاً میں اِن کو نہیں مانتا
یعنیِ اٹلی کی سڑکوں سے جتنے بھی سیاّح
ھْنزہ کے پربت کو چھونے کی خاطر گھروں سے چلیں
اْن کو یہ سرحدی بیریئر روک لیں
اور ڈھاکہ میں نوشاد نوری کی بیٹی اگر پھر سے لاہور آنے کو ترسے تو قدغن لگے
غار کے آدمی کی یہ تہذیب کتنی اکائیوں میں تحلیل ھوتی گئی۔
گویا باڑہ ھے بھینسوں کا, چاروں طرف بانس سے بند ھے.
پھر تو ایسا ہے جتنی سمندر میں ہیں مچھلیاں وہ بھی پابند ہوں
اور اْڑتے ھوے سب پرندوں کی سرحد بنے
رسیوں سے جکڑ لیجیے روشنی چاند کی
پھیلتی خوشبوؤں کے دھن بندہوں
کْرہ ارض پہ یار جینے بھی دو
آسمانوں پہ بستے ہوے چند رب کے فرشتوں نے حامی بھری
تو بناوں گا دھرتی کی صورت نئی
کھینچ دوں گا زمیں کے میں سر سے نئیً مانگ کا بیریئر
ایسے تسخیر کرتے ہوئے
اک طرف ہوں گے خورشید کو دوذخی آگ کا ہمنوا کہنے والے بشر
اور دوْجی طرف,روشنی,آدمی, جھیل,پربت,شجر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے