شریعت بل یا ملاّ شاہی
جنرل ضیاء کے سینٹ نے نفاذ شریعت کا بل تالیوں کی گونج میں منظور کر لیا اور غلام اسحٰق خان نے انہیں اس پر مبارک باد دی ۔ مدرسوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور اخبارات پر گذشتہ چالیس برسوں سے قابض سرکاری اور بنیاد پرست دانشوروں نے صفحوں کے صفحے کالے کرڈالے ۔
اس بل کے منظور ہو جانے سے غلام اسحاق کے اختیارات کئی گناہ بڑھ جائیں گے ، گو کہ پہلے ہی آئین کی آٹھویں ترمیم سے انہیں ایک بادشاہ جتنے اختیارات حاصل ہیں ۔ پھر قانون سازی کے لئے قومی اسمبلی کی بجائے ملاؤں کی انجمن با اختیار ہو گی ۔ قومی اسمبلی جو براہ راست عوام کے ووٹوں اور رائے سے قائم ہوتی ہے ۔ اور مہذب ممالک میں اس کا واحد کام قانون سازی ہوتا ہے ۔ اس ادارے کی حیثیت میں کمی کر کے اور اس پر کچھ افراد کے گروہ کو مسلط کر کے عوامی رائے کا مذاق اڑایا جانا مقصود ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بل خود عدلیہ کو پس پشت ڈال کر ملاؤں کو ’’ می لارڈ ‘‘ بنا دے گا ۔
ضیاء کے پر وردہ لوگوں کا یہ شریعت بل ہر طرح کے بنیادی انسانی حقوق کو ختم کر کے رکھ دے گا۔ تعلیمی درسگاہوں سے سائنس کی ہر بات نکال باہر کی جائے گی ۔ سیکولر سوچ کو دفن کیا جائے گا ، سرداری ، جا گیر داری اور لوٹ کھسوٹ کا نظام جوں کا توں رہے گا ۔ پس ماندگی ، تنگ نظری ، پیر پرستی اور ماضی پسندی کاراج ہو گا ۔ انسانی شرف کی حامل ہر چیز نا پید ہو جائے گی اور پاکستانی معاشرہ عملاً اس راہ پر گامزن ہو گا جس کا ارمان اور تصور ضیاء الحق اور اس کے ہم فکروں نے کیا تھا ۔
بے حد تیز رفتار سے بدلتی ہوئی آج کی دنیا میں ممالک کے سارے قواعد و قوانین اسی رفتار سے ڈھل رہے ہیں جو آج کے معاشی ، سیاسی اور سائنسی حالات و ماحول سے مطابق رکھیں ۔ ہماری ثقافت ‘ سوچ اور ہمارے رویوں سب کوتبدیل ہونا ہے ، بخوشی یا بہ مجبوری۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ساری اندھی ‘ بشر دشمن اور ترقی مخالف قوتوں کو زیر کر لیا ہے اور اب اس نے ایک سپر پاور کی حیثیت سے انسانی اذہان پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے ۔ اس کے سامنے اب ماضی کی کوئی چیز کسی بھی نام یا کسی بھی سابقہ لاحقہ کے حوالے سے چل نہیں سکتی ۔
شریعت بل ، رجعت ، بالا دست طبقات اور برسر اقتدار گروہوں کا ایک بھیانک گٹھ جوڑ ہے ۔ یہ وہ گھناؤنی حرکت ہے جس سے ملک میں روشن خیالی ، انسان دوستی ، سائنسی ترقی ، معاشی و ثقافتی آزادی اور سیکولر طرز زندگی کے سارے دروازے بند کر دیئے جائیں گے ۔ ہم اپنے قارئین ، ہم خیال احباب، اور منور ذہنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انسانی ارتقاء کے کارواں کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کی مخالفت کریں اور ابدی صداقتوں اور عالمگیر اصولوں کے پیش نظر پاکستانی عوام کی معاشرتی ضرورتوں کا ادراک رکھتے ہوئے ایک بہتر طرز حیات کے حصول میں اُن کی راہنمائی مہیا کریں ۔ ووٹ اور اظہار رائے کے تقدس کو بلند رکھیں ۔ قومی اسمبلی سے بڑھ کر کسی دوسرے ادارے کو ارفع ‘اعلیٰ اور مقدس تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ اور عوامی رائے سے قائم شدہ اس قانون ساز ادارے کے کام اور اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کو یقینی بنادیں ۔