کوئی تو آئے
فضا میں تازہ بشارتوں کی نوید لائے
تمام غم بیچ دے ہمارے
اور اس کے بدلے مسرتیں کچھ خرید لائے
کوئی تو آئے

کوئی تو آئے
جو تپتے صحرا میں ابر پارے کا عکس رکھ دے
ہمارے ظلمت بھرے افق پر
کسی چمکتے ہوئے ستارے کا عکس رکھ دے
کوئی تو آئے

کوئی تو آئے
جو غم کے موسم خود اپنی جاں پر گزار آئے
زمانے تکتے ہیں جس کی راہیں
وہ جس کے آنے سے شہرِ جاں میں بہار آئے
کوئی تو آئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے