(اخترعثمان کی غزلوں کے مجموعہ پر ایک تبصرہ)
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اختر عثمان کی غزلوں کی کتاب ”چراغ زار”چھپ کر ہمارے مطالعہ میں آچکی ہے۔اس سمجھ میں نہ آنے والے دور میں اردو پڑھنے والوں کو ایک اچھی کتاب کامیسر آنا ہی بڑی بات ہے۔ چراغ زار بایں ہمہ صفات اپنے اندر شاعری کے وہ محاسن رکھتی ہے جس سے ایک باذوق قاری کی علمی و ادبی تشنگی دور ہوتی ہے۔ کتاب کی چھپائی کو ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا اور اس پہلی اشاعت کی ساری کتابیں ہاتھوں ہاتھ نکل گئیں۔رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز کا یہ حسن انتخاب واقعی قابل داد ہے کہ ایک اچھی کتاب کو چھاپا میرے کئی دوست مجھ سے یہ کتاب مانگ مانگ کر ناراض ہوچکے ہونگے۔امید ہے دوسری اشاعت پر یہ ناراضی دور کردی جائے گی۔اختر عثمان ہی کا ایک شعر اس موقع پر:
اختر تری گفتار فسوں کار میں کیا ہے
جو بھی ادھر آتا ہے ، ادھر کیوں نہیں جاتا
اختر عثمان اردو شعر وادب کا اہم نام ہے۔ اس کی شعر و ادب میں حصہ داری عصر حاضر میں ایک معروف نام ہے۔ اس کا علمی کام اپنا اعتبار آپ ہے۔ میری اس سے شناسائی کا عرصہ دوسری دہائی کو بھی عبور کرچکا ہے اور اس مدت میں اس سے جتنا مکالمہ ممکن تھا کیا جاچکا ہے باقی بشرط زندگی کہ بہت سی باتیں باتوں ہی میں رہ جاتی ہیں۔ فلسفہ ء جدید و قدیم سے لے کر شعر میں ماڈرن اور کلاسیک کے علاوہ ہماری ایک مشترکہ دنیا بھی ہے جسے فارسی شعر و ادب کی دنیا کہا جاتا ہے۔ تمام تر شعراء کے محاسن اور ان کے کلام کے علاوہ بالخصوص ”بیدل ” کے کلام کے بحر بے پایان میں وہ جس انداز سے غرق ہے اس پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ عرصہ ء دراز سے اس سے گفتگو کا زیادہ تر محور بابائے معانی یعنی ابولمعانی حضرت بیدل کا کلا م ہی رہا ہے۔ میرے حلقہ ء احباب میں اگر کسی کو بیدل کے سینکڑوں اشعار یاد ہوں اور وہ انہیں فوری طور پر پوری معنویت کے ساتھ ادا بھی کرتے ہوں تو ان میں صرف اختر عثمان ہے۔ امید ہے کہ اس کا بیدل کا منظوم ترجمہ بھی جلد منظر عام پر آجائے گا۔اردو کے علاوہ اختر عثمان نے فارسی میں کافی شعر کہے ہیں دو شعر تو ”چراغ زار”میں درج ہیں جو یوں ہیں:
کاریست کار بخیہ کہ تا زیست ماندہ پس
آھستہ رو، بہ سوزن زودن نمی شود
روغن ز خون کشید و بہ انداخت بر خسک
کاین آتش از شرار فزودن نمی شود
اختر عثمان کی شعری بوطیقا کو علمی ادبی دنیا کے سنجیدہ حلقے خوب جانتے ہیں ۔ وہ شعر گوئی کو ایک بڑی ذمہ داری سمجھتا ہے ، عطائے علم کا قرض اور خرد و جنوں کے پیکار میں اسے معیار گراننے کے علاوہ شعر گوئی کی نعمت کو ولایت سمجھتا ہے۔ یہاں چند ایسے اشعار ملاحظہ فرمائیں جہاں وہ اظہار و بیاں کو کیا قرار دیتے ہیں اور کیسے اور کس انداز سے بیان کرتے ہیں؟
شعر ، انسان سے گفتار ہے اختر صاحب
یہ ولایت ہے، ولایت نہیں چھوڑی تم نے
۔۔۔
خرد شعار زمانے کی موج ہے اور میں
مرا جنوں مرا حاصل ہے کیا کیا جائے
۔۔۔
دربدری کا دور ہے، حرف سخن سرا میں رہ
معنی و مدعا میں جی، رقص و دم صبا میں رہ
نام و نمود کی ہوس خوب سہی پہ تابہ کے خود میں کوئی صدا لگا کوچہ ء اکتفا میں رہ
۔۔۔
علم میں حلم کا مشاہدہ کیجئے:
عطائے علم کا یہ قرض کس طرح چکتا
سرِادب ہے خمیدہ، قلم نگوں ہے کہ یوں
۔۔۔
جہت جہت کئی معنا کھلے تو باغ ہنسا
نگار گل نے کہا ، یہ عجب فسوں ہے کہ یوں
۔۔۔
عجیب شوق ہے اختر یہ اہل ساحل کو
وہ ایستادہ رہیں، ہم گہر اگلتے جائیں
۔۔۔
تم جو کہتے ہو وہ کہنا نہیں آتا مجھ کو
ہنرِ حرف برہنہ نہیں آتا مجھ کو
کیا جو لکھتا ہوں سب اوروں کی تمنائیں ہیں
کیا جوکہتا ہوں وہ سب سہنا نہیں آتا مجھ کو
۔۔۔
جب اتنا کچھ ایک شاعر شعر اور اپنے شعری معیار کے حوالے سے کہتا ہو تو شاعرانہ تعلی کا شعر ملاحظہ ہو، ایسا خوبصورت تعلی کا شعر اردو میں شاید ہی کسی نے کہا ہو!۔
تازیست ہنر سیکھتے ہیں لوگ جو اختر
اتنا تو سنبھالے ہوئے نکلا تھا میں گھر سے
یہی نہیں کہ وہ اپنے شعر اور شاعری کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک شاعری کا معیار اور اس کی معنویت کے تناظر میں ہی اس کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
اپنے لیے اک درجہ بنا رکھا ہے ہم نے
معیار ہے، معیارسے کم کچھ نہیں کہتے
ایسے ہی اس نے ہنر کی قدرمندی کا اظہار پورے انصاف کے ساتھ کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہنر اور ہنروری تو انسانیت کا ورثہ ہے جس دور کو ہم جاہلیت کا دور کہتے ہیں اس کے بھی دانش مند اور ہنر مند حسن معنی اور زیب ہنر سے خالی نہ تھے۔ شعر ملاحظہ فرمائیے:
کچھ نہ کچھ بات بھی لوگوں کے لیے تھی
جاہلی دور کے اہل قلم ایسے تو نہ تھے
اسی غزل کا مطلع دیکھیں :۔
استخواں سوختہ و سوختہ دم ایسے تو نہ تھے
اے عزا خانہ ء احساس ہم ایسے تو نہ تھے
شاعر جب تک عزا خانہ ء احساس میں نہیں قیام کرتا اس کے حرف و لفظ میں سوز و گداز اور تاثیر پیدا نہیں ہوسکتی۔یہ مختلف تجربات ، مشاہدات ، واقعات اور سانحات ہوتے ہیں جن سے انسان اپنی باطنی نمو کرتا ہے اور حرف کو صدا، لفظ کو معنا اور کلام کو اثر دیتا ہے۔اختر عثمان اس بات سے بخوبی آگاہ ہے اور آگاہانہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں:
یہ کار گفتن احوال کوئی سہل ہے کیا
وہ چپ لگی ہے کہ تاب سوال سے بھی گئے
۔۔۔
دل سے امید، آنکھ سے ہر خواب لے گیا
یہ ہجر اب کی بار تو اعصاب لے گیا
۔۔۔
جیسے خیال و خواب تھی دہر کی آمدن شدن
جیسے کوئی جھنجھوڑکر پھر سے سلا گیا مجھے
۔۔۔
چلنے پہ بھی تمام نہ ہو پایاتا حیات
قصداً بچھا دیا گیا یہ رستہ تہ بہ تہ
۔۔۔
جنوں شعار ہوں افتادگی تو ہے مجھ میں
شروع عمر سے شہزادگی تو ہے مجھ میں
۔۔۔
اختر عثمان کے ہاں موضوعات کو برتنے کا ایسا سلیقہ ہے جو زبان و بیان کو سمجھے بغیر ممکن نہیں کہ اظہارکا ذریعہ بن سکے۔ وہ خود ہی کہتے ہیں:۔
ہم نے جی بھر کے چرایا ہے خیالات کا متن
صرف اتنا ہے کہ ہر بار بنت اپنی تھی
یعنی ان خیالات سے نہیں بلکہ ان کے متن یا نفس مضمون سے استفادہ اس طرح سے کیا ہے کہ اس کی بنت کو اپنا انداز دیا ہے۔ یہاں شعری صداقت کا اظہار بھی خوب ہے اور دوسرے مصرع میں جس طرح سے صرف اتنا ہے کہہ کر سادگی کے ساتھ یہ بھی کہہ گئے کہ کہنے والے تو بہت ہیں لیکن نفس مضمون کو بھانپ کر اسے درست لباس پہنانا یقیناًایک بڑا کام ہے یعنی تعلی کی تعلی اور عاجزی کی عاجزی۔۔۔
اختر عثمان کا مطالعہ و مشاہدہ ء زندگی کے چند مزید اشعار پیش خدمت ہیں:۔
غبار راہ کو طاقت نہیں کہ اٹھ بیٹھے
بس آتے جاتے ہوئے دیکھتا ہوں فردا کو
۔۔۔
کوئی دیوار ہماری تھی نہ چھت اپنی تھی
اپنے سائے میں جیے ہم یہ سکت اپنی تھی
۔۔۔
تمام خلق ہے اک سمت اور ایک طرف
یونہی فضول دلائل کو ہانکتا ہوا میں
۔۔۔
لو ، شام گئی ، رات ہے ، کابوس ہے، میں ہوں
میں صبح کا بھولا ہوں تو گھر کیوں نہیں جاتا
۔۔۔
شام گریہ و ماتم ، ہجر تک معطل ہے
جشن جب بپا ہوگا جب نہیں ملیں گے ہم
۔۔۔
بہت سنبھال کے رکھ اے نگار زیست ہمیں
عجب نہیں کہ ترے کھیلنے میں کھو جائیں
۔۔۔
یہ دشت نہیں ہے دشت اپنا
ہر اورہے اک ہراس اے دل
اسی طرح اختر عثمان کے چنیدہ چند نادر اشعار کا لطف اٹھائیے:۔
صبا تھپکتی رہے خواب میں ٹہلتے جائیں
کسی کا دھیان کریں وقت سے نکلتے جائیں
۔۔۔
یہی نہیں کہ ہم سے نہیں نبھ سکی محبت میں
زوال عمر ہے اب اور کیا جھوٹ بولیں
۔۔۔
محبتوں ہی سے فرصت نہیں کہ نفرت ہو
میں کیا کروں کہ مجھے وقت ہی نہیں ملتا
۔۔۔
جو سود خور ہیں بہتر ہے اب کنارہ کریں
یہ کار عشق ہے اس میں خسارہ کافی ہے
۔۔۔
گیا ہوں اور چلوں گا میں اپنے مقتل تک
اس کو کہتے ہیں آمادگی، تو ہے مجھ میں
یہاں ” چراغ زار ” میں ایک ایسی شخصیت کا بھی ذکر ہے جس کا نام خودی علی تھا جو 2013ء جنوری کی 10تاریخ کو شہر مقتل کوئٹہ میں بم دھماکے میں شہید ہوئے۔اگر آپ عرفان علی خودی علی گوگل کریں گے تو آپ کو اس گوہر نایاب کی قدر دانی کی وجہ سمجھ میں آئے گی۔ اس خطہ کی بڑی بد قسمتیوں میں سے ایک بڑی بدقسمتی اس شخصیت کا اس طرح سے کھودینا ہے۔چونکہ یہ دکھ اخترعثمان اور میرا مشترک ہے تو یہ منظوم خراج یقیناًجگر پیٹنے کے لیے اور نوحہ خوانی ہی کے لیے ہے، اس کے دوشعر درج ہیں:۔
وہ خد و خال کہاں بھولتے ہیں
گھنگھرواں بال کہاں بھولتے ہیں
ہو وہ اختر کہ علی بابا تاج
تجھ کو بے حال کہاں بھولتے ہیں
اچھی شاعری کو واقعتا داد سے زیادہ اچھے قاری کی ضرورت ہے عصر رواں میں اچھی شاعری کا قارئین تک پہنچنامشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے لیکن جس طرح سے چراغ زار کی طلب دیکھنے میں آئی ہے تو امید ہے کہ دیگر اشاعتوں کے ساتھ اختر عثمان کا دیگر اہم کام بھی چھپ کر سامنے آئے گا اور وہ ہمارے ادب کے ذخیرے میں اضافہ کا باعث بنے گا۔
ہیلو، ایک روح کو بچانے کے لئے ضروری ہے. ڈونر کی زندگی میں کوئی خطرہ نہیں ہے اگر وہ طبی عملی کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کریں. ہم گردے نہیں خریدتے ہیں، ہم صرف گردوں کے ڈونرز کو معاوضہ دیتے ہیں.
ہم فی الحال 3 سنگین ڈونر کی ضرورت ہے، ہر ایک کو $ 750،000.00 کے ساتھ معاوضہ دیا جائے گا. ایک بین الاقوامی پاسپورٹ کے ساتھ درخواست کریں. رابطہ ای میل: prof.johankidney@consultant.com