بہت سارے پرانے شہسواروں نیز نوجوان محققین نے سر توڑ کوششیں کیں مگر نتیجہ وہی نکلا:بلوچوں کے سارے کلاسیکل ادب، اور ہماری پوری لوک شاعر ی میں پاپڑ ، پکو ڑا اور اچا رکا کوئی ذکر موجودنہیں ہے۔ ہمارا جدید ادب بھی ان تینوں چیزوں کے تذکرہ سے نا آشنا ہے ۔ پاپڑ کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ اسے لوگ اس لئے کھاتے ہوں گے کہ گا جرکی طرح یہ دانتوں کے بیچ مزید اردار قسم کا’’ کَرچ کَرچ‘‘کرتاہے ۔پکوڑے کے بارے میں توہمارے لوگ آج تک یہ نہ سمجھ سکے کہ حکومت نے آلوکوکس راستے سے اس میں داخل کیاہے؟۔ خودآلو پہ پہاڑی علاقوں میں دنبے کی چکی کی چربی کے ٹکڑے کا مغا لطہ ہوتاہے اوربہت با راایسا ہواکہ جب مسافروں کو آلو کا شور بہ کھا نے کیلئے پیش کیاگیا تو شوربہ کے ساتھ روٹی کھانے کے بعد وہ آلو ؤں کے ٹکڑ وں کے بارے میں یہ کہتے سنے گئے کہ ’’بیائیں دمبغاں بہر کنوں‘‘۔۔۔۔آؤ دنبے کی چکی والی چربی کے ٹکڑے بانٹ لیں( جیسے کہ گو شت کی بوٹیا ں بانٹی جاتی ہیں )۔
اسی طرح اچاربھی اب تک بلوچستان کا لوکل سرٹیفیکٹ حاصل نہیں کرسکا ہے ۔حالانکہ اچار کا اڈہ شکار پور ہمارے پڑوس میں واقع ہے۔
لہٰذایقینی طور پر رندولا شارکی تیس سالہ جنگ کاان تینوں چیز وں سے کو ئی تعلق نہ تھا،نہ ہی سسی پنوں کے پورے عشق کی داستان میں ان کا ذکرِ خیرمو جودہے ،اورنہ ہی ان ڈشوں کے بغیر آج کے بلوچ کا کھا نانا مکمل قرار دیا جاتاہے ۔
مگر ترقی یافتہ پاکستانی معاشرے میں یہ تینوں خصوصی اہمیت والی ڈشیں تصور ہوتی ہیں ۔ بالخصوص سندھ میں ، لوگ زبردست چاؤ سے انہیں کھاتے بھی ہیں اورنہایت اہتمام و انصرام سے یہ چیز یں تیاربھی کرتے ہیں ۔ شکا رپورکااچا رتو‘جیسے ہم کہہ چکے ہیں،پورے ملک میں بلوچی چپل کی سی شہرت رکھتا ہے ۔میرے دوست پر وفیسر ڈاکٹر کرتارڈانوانڑیں توہرآنے جانے والے کے ہاتھ ہمیں ایک سیر شکار پوری اچار ضرور بھجو ادیتے ہیں ۔
تحائف کے تبادلوں کو ہمارے نیک اورصوفی سنت لوگ دوستیوں اورمحبت میں اضا فے کاباعث قراردیتے ہیں ۔لیکن اگر انہیں معلوم ہوتا کہ تحفے میں بھیجے ہوئے سند ھی پاپڑ کا حشر بلوچ کے ہاں کیسا ہوتا ہے تووہ اپنے بیان میں ’’ما سوائے پاپڑ‘‘ کے الفاظ کا اضافہ ضرور کرلیتے ہیں ۔ ہوایوں کہ ایک بار پروفیسرکرتا رنے پیارسے سرشار ہوکر ہمارے لئے تین چارسیر پاپڑ بھجو ادیے۔ مگر ظالم نے انہیں تیار کرنے کا طر یقہ نہیں سمجھایا ۔ چونکہ ہم نے 50 برس کی عمر تک پاپڑ نہیں کھائے تھے اسلیے ہماراخیال تھا کہ پاپڑ کو دوبارہ تیار کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔ لہذا گھرجاکر بچوں کے سامنے رکھ دیے اور یارکے بھیجے ہوئے تبرک کاپہلا ٹکڑا خودمنہ میں ڈال دیا۔ ہم تو دوست کی دوستی کے تکلف میں چپ رہے مگر ہر بچے نے اولین نوالہ ہی تھوک دیا ۔ یوں بلوچ کے بچوں کو کرارے دار پاپڑ کھانا نصیب نہ ہوا۔ ان بیچاروں نے تو باپ کے دوست کے تحفہ کی قدر نہ کرنے کی سزا کے بطور، میری ڈانٹ ہی کھائی ۔
جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوا اور عقلِ سلیم لوٹ آئی تو بچوں کا موقف درست لگا ۔ یوں پاپڑوں کی ہی وجہ سے اور منہ کابگڑا ذائقہ بدلنے کیلئے ٹافیاں خرید نے کوانہیں آٹھ سے دس روپے جیب سے دینے پڑے ۔ مستر دکردہ پاپڑوں کا تھیلا شام سے پہلے ہی اپنے اصلی مقام یعنی گھرسے بہت دورکوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پہنچ گیاجہاں پہ شنید میں آیا کہ کتوں نے بھی بجا رانی مریوں کے کتوں کی طرح پاپڑ کی طرف التفا ت کی نظر تک نہ ڈالی۔ ( بجا رانی مری گردہ نہیں کھاتے بلکہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے کتے بھی گردہ نہیں کھاتے ، خواہ وہ سخت بھوکے کیوں نہ ہوں ) ۔بعد میں ما ہر ین دوستوں نے نہ صرف یہ سمجھا یا کہ پاپڑ وں کوکھا نے سے پہلے تیل یاگھی میں تلناباقی تھابلکہ ہمارااچھا خاصامذاق بھی اڑایا۔
اُن کے مذاق کا البتہ ہم نے برانہیں منایا اس لیے کہ جب تعلیم کے بلوچستان بھرکے ڈائر یکٹر جنرل ، تمکین عباسی صاحب کو ستر برس کی عمر میں بھی گاڑ ی کا دروازہ لاک کرنا نہ آتا ہو توہم کیا اورپاپڑ بیلناکیا؟ ۔
یہ تو کچھ نہیں۔اچھے بھلے ماڈرن ، مہذب اور جمہوری انگریزوں کو گنا چوسنا تک نہیں آتا۔ ابھی چند برس قبل سردیوں میں جب ہم ڈیرہ بگٹی گئے تو وہا ں نواب اکبر خان بگٹی کی مہمان نواز یوں سے محظو ظ ہوئے ۔ سجی‘ کاک ،روسٹ ، فروٹ وغیر ہ وغیرہ ۔ نواب صا حب میں دیگر باتوں کے علاوہ ’’ انوکھاپن ‘‘ بہت تھا ۔ کوئی نہ کوئی انو کھی بات اُن میں ہر وقت ضرور نظر آتی تھی ۔ اس بار اُن کے مہما ن خانے میں انوکھی بات یہ تھی کہ درجنوں مہنگی اور سپیشل بلوچی ڈشوں کے بعد سویٹ ڈش کے بطو رجوار کے صاف کئے ہوئے ڈنٹل دستر خوان پر موجود تھے۔ جوار کے یہ ’’گنے ‘‘ ہم کاشتکاری اورزراعت سے وابستہ سب لوگ چوستے ہیں ۔ مگر بہر حال دل کے کسی گوشے میں یہ دیہاتی پن یاکچھ کچھ پسما ندگی کی بات لگتی ہے ۔اب جب کہ بلوچستان کے سب سے بڑ ے امیر اورسب سے بڑے مہمان نوازنواب کی بیٹھک میں ایک پر تکلف نوابی کھانے کے بعد سویٹ ڈش کے طور پر جوار کے سینکڑوں ڈ نٹلو ں کوسرجوڑے یکجا دیکھا تو ماما عبداللہ جان نے نواب بگٹی کے ’’ انو کھے پن ‘‘ کی تعریف کی ۔نواب صاحب کی سیاست ، معیشت اورسردار یت میںیہ انوکھاپن ایک مستقل مظہررہا ۔
نواب صاحب نے جوار کے ڈنٹلوں کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک یورپی جوڑا انکا مہمان تھا ۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ خاتون سے گپ شب میں مصروف تھے تو محسوس کیاکہ شو ہر صاحب جوار کا گنا منہ میں ڈال چکے تھے ۔ نواب نے خالی پلیٹ ان کے سامنے رکھ دی اور بتا یاکہ رس چوس کرباقی پھوگ اس پلیٹ میں ڈال دیں ۔ مگر نرکے بچے نے انکشاف کیاکہ وہ اب تک ایک ڈنٹل تنا ول فرماچکے ہیں ۔ اور چونکہ طریقہ معلوم نہ تھااس لئے پھوگ بھی تکلف میں نگل چکے ہیں: ’’ بہت درد ہوا گلے میں ‘‘۔ اس یورپی پی ایچ ڈی کو جوار کھانا نہ آیا۔(نواب بگٹی کا،جوبھی مہمان بناکنفیوزہی لوٹا)۔
مگر غورطلب بات یہ ہے کہ اگر انگر یزکو جوار کھانانہ آئے تو اسے کوئی جاہل نہیں کہتا مگر کسی بلوچ کو اگر پاپڑ کھانا نہ آتا ہوتو وہ پسما ند ہ ٹھہر تاہے ۔
لیکن غور کیجیے کہ اگر بلوچستان میں پاپڑ بھی عام ہوتا تو لوگ بلوچی ضرب المثل ’’ جغر ہونے ، سغر ہڈّ ے ، سری پٹ ایں سغندانا ‘‘ (کلیجی تومحض خون کالوتھڑا ہے ۔سر ہڈیوں کا مجمو عہ ہے اوراوجھڑی پر تو ویسے ہی لعنت ہو) میں او جھڑی کے لفظ کو پاپڑ سے بدل لیتے ۔ گند م کی روٹی تواللہ کانور ہوتی ہے ۔اس کا تو مقابلہ ہی نہیں مگر جوار اورباجر ہ بھی‘ خواہ کتنی تلخ اور ناپسند یدہ کیوں نہ ہوں وہ کم ازکم نسبتاً ہموار توہوتے ہیں مگر کیا کسی نے پاپڑ کوکبھی ہموار دیکھاہے ۔اِدھر دیکھوتو سطح سمندر سے گیارہ ہزار فٹ بلند کوہ سلیمان کی بلند یاں ہیں اورپھر اچانک سبی کا گڑھا ………. بالکل بلوچستان کا سطح مرتفع جس کے ہر نشیب میں ایک متنو ع تہذ یب ہے ، اورہرفرازمیں ایک الگ حسین شاعری اورایک عظیم تاریخی ورثہ موجود ہے ۔
البتہ پاپڑ کھانے سے جنم لینے والے حسن کااندازہ توہند وستانی فلموں کی ہیروئنوں کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتاہے ۔ ہم دوستوں نے بہت غوروخوض اور مغز کھپائی کے بعد کہیں جاکر یہ راز پالیاکہ بے انتہا نسوانی ہند وانہ حسن میں پاپڑ کازبر دست حصہ موجود ہوتاہے ۔حتی کہ ہم سب نے قرار داد منظور کی کہ آئندہ کسی بھی خوبصورت خاتون کے لیے ’’پاپڑ ‘‘ کا لفظ استعمال کریں گے۔ اور اس قرار داد پر میں اور امیر الدین تو حرف بہ حرف عمل کرتے رہے ۔ وہ مرگیا تو قرار داد کی پاسداری کرنا میرے لئے بھی ضروری نہ رہی۔کچھ الفاظ جسم کے Cellکی طرح کسی ایک ہی شخص کے لیے ایزرو ہوتے ہیں ۔ وہ شخص مرجاتا ہے ۔ تو دوسرے کے پاس لفظ اور جسم کے وہ Cell مرجاتے ہیں ۔ امیرالدین ! تو میرے جسم کے کچھ Cell مار گیا ، دشمنِ جان!۔
ایسی ہی حیرت انگیز ہوشربا پاپڑ وں کے بیچ ہم نے شیام کمار کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی ۔وہیں پر ہمیں سوبھو گیا نچندانی پہلی بار ملا جسے ہم ’’موہن جودڑوکاجوگی‘‘ کہتے ہیں ۔