خوابوں کے ذَرّات کا نور بھی صْبحوں میں حل ہو
مٹی پہ مرجانے والی راتوں کی کَل ہو
سْرخی مائل رَوہی ہو یا پھر پِیلا تَھل ہو
مجھ میں صحرا ہو صحرا میں ریت کا دلدَل ہو
گیتوں کے ہونٹوں پہ خاموشی ہو چمکیلی
راہوں کی آنکھوں میں سَنگریزوں کا کاجل ہو
میں جمتی کائی ہوں دریاوں کے سنگم پر،
تْو کوھساروں کے رستوں کا جیسے وَل وَل ہو
سْر میں جینے والے تیری آنکھیں راگ چڑھی
غزلیں کہنے والے تیرا فن گنگا جل ہو
سو جاوں تو اکثر میری تجھ میں آنکھ کْھلے
تیرے سِینے میں اْکتاہٹ کا اک جنگل ہو
تنہائی کے کچّے سبزے کی خوشبو اوڑھے
پیاس کے خوابیدہ پیڑوں کے سائے میں *جَھل ہو
*”دْوجا شخص جہنم ہے” پھر کیوں کوئی آخر؟
میری تاریکی کو جھیلنے والا پاگل ہو؟
*وَل وَل (براہوئی) بل دار/پیچ و خم
* جَھل (بلوچی) گھاٹی