9
مارکسسٹ نقاد کا کام اور زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہوجاتا ہے جب وہ مافیہ کی جانچ کر لینے کے بعد فارم کی جانچ کی طرف رُخ کرتا ہے ۔یہ بہت اہم کام ہے۔ فارم جانچنے کا کیا معیار ہوسکتا ہے ؟۔ فارم کا مافیہ سے ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے ۔یہ فارم ہی ہے جس سے مافیہ کا زیادہ سے زیادہ اظہار ہوتا ہے تاکہ قارئین پر جن کے لیے وہ تخلیق ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ اثر ڈالے۔ پلیخانوف نے جو سب سے اہم معیار اس جانچ کے لیے مقرر کیا ہے اس کا یہاں ذکر ضروری ہے۔ اس نے کہا کہ ادب تصویر کشی کا فن ہے۔ محض خیالات کا اظہار یا نظریات کا پروپیگنڈہ ادب نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ پلیخانوف کا یہ معیار مجرد نہیں ہے ۔ ایسی تخلیقات موجود ہیں جو اس معیار پر پوری نہیں اترتیں لیکن وہ ہیں لاجواب۔ مثلا شیریڈن سپینکی اور فرِط نوکی تخلیقات ۔ لیکن ایسی تخلیقات سے خبردار ضرور رہنا چاہیے۔ البتہ پروپگنڈہ لٹریچر بھی وہی مفید ہوتا ہے جس کی فارم خوب صورت ہو۔ کیونکہ ایسی فارم کے بغیر پروپگنڈا لٹریچر (تبلیغی ادب) کے دلائل خواہ کتنے ہی معقول ہوں قارئین کو متاثر نہیں کرتے ۔اس لحاظ سے نقاد کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ مافیہ کے مصنف کی فن کا رانہ صلاحیتوں کی خامیوں کے بارے میں بات کرے کیونکہ مافیہ کی تصویر کشی اس طرح کی ہونی چاہیے کہ وہ حسین مورتیوں کی طرح سامنے آئے نہ کہ دھات کے ٹھنڈے ڈلوں کی طرح۔
دوسرا مخصوص معیار فارم کی تخلیقی قوت ہے جو مذکورہ بالا تمام وضاحت کے نتیجے میں ازخود برآمدہورہا ہے۔ فارم کی اس ندرت (تخلیقی قوت) میں کیا کیا ہونا چاہیے؟۔ صحیح بات یہ ہے کہ کسی ادبی تخلیق میں مافیہ اور فارم کو اس طرح مربوط ہونا چاہیے کہ وہ ناقابل تقسیم کل کی حیثیت اختیار کرے ۔اگر مافیہ نیانہ ہوگا تو کام کی کوئی قیمت نہ رہے گی۔ آرٹسٹ ادیب یا فنکار کو کچھ ایسی چیزپیش کرنی چاہیے جو پہلے نہ پیش کی گئی ہو۔ ایک چیز دوبارہ پیش کرنا آرٹ نہیں بلکہ محض کار یگری ہے (یہ بات مصور مشکل سے سمجھیں گے) لیکن دست کاری بھی بعض دفعہ بہت نفیس ہوتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے ہر نئے کام میں نیا مافیہ نئی فارم کا تقاضہ کرتا ہے ۔
فارم کی تخلیقی قوت کا کس شے سے محاکمہ (مقابلہ) کرسکتے ہیں؟۔ پہلی بات تو گھسی پٹی فارم کی ہے جو حقیقی طور سے نئے خیال یا نظر یئے کو کسی تخلیق میں آمیزہی نہیں ہونے دیتی ۔ ایک ادیب پرانی فارموں سے مسحور تو ہوسکتا ہے چاہے مافیہ نیا ہو۔وہ نئی شراب پرانی شراب کے مشکیزے میں انڈیل دیتا ہے۔ ایسی خرابیاں نوٹس میں آئے بغیر نہیں رہتیں۔ دوسری صورت میں فارم کمزور ہوسکتی ہے یعنی نئے دل چسپ خیال کے باوجود ادیب ساری کہانی، ناول، ڈرامے وغیرہ میں زبان کے روایتی الفاظ کی دولت سے نابلد ہویا صحت الفاظ اور جملوں کی اعلیٰ بندش نہ کرسکتا ہویا شعرو سخن میں نظم ہویا غزل یا گیت صحیح طور پر تال سُر اور بحرکاتوازن قائم رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ مارکسی نقاد کو ان سب باتوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ مارکسی نقاد کو مکمل استاد بالخصوص نئے ادیبوں اور مبتدیوں کا اپنے کو ثابت کرنا چاہیے۔
آخری بات یہ ہے کہ فارم کی تخلیقی قوت کے مذکورہ قاعدے کے خلاف تیسرا گناہ فارم کی وہ ’’تنظیم ‘‘ہے جس میں مافیہ کے تھوتے پن کور سمی اختراع سے یا سجابناکر چھپایا جاتا ہے ، روایت پرستوں سے متاثر ادیب بورژوا ابتزال کے لگے بندھے نمائندے ہیں جو اپنے ’’دیانتدارانہ ‘‘ و’’بھاری بھرکم‘‘ مافیہ کو مختلف عیاریوں سے سجا بنا کر اپنا مطلب نکال رہے ہیں۔
مارکسی نقاد کو تیسرے معیار میں ادبی تخلیق کی ’’ہمہ گیری‘‘ کی رسمی فطرت کا بھی ہوشیاری سے جائزہ لینا چاہیے۔ ٹالسٹائی نے اس بارے میں بہت زور دیا ہے ۔ ہم جو ایسے ادب کی تخلیق سے دلچسپی رکھتے ہیں جس کے مخاطب عوام ہوں ، ان سے یہ سمجھ کر اپیل کرتے ہیں کہ وہ زندگی کی تعمیر وتخلیق کرنے والے ہیں ہمہ گیری سے بھی دل چسپی رکھتے ہیں ، علیحدگی پسند گی کی تمام گونگی اور خاموش فارموں کو جو جمالیاتی ذوق رکھنے والے چھوٹے سے مخصوص حلقے کی لطف اندوزی کے لیے ہیں آرٹ کی ایسی تمام اختراجات کو مارکسی نقادوں کو مسترد کردینا چاہیے ۔ مارکسی نقادوں کو اس قسم کے ماضی اور حال کے ادبی کارناموں کی پوشیدہ حیثیت کو بے نقاب ہی نہیں کرنا چاہیے، اس ذہنی چوکھٹے کی مذمت بھی کرنی چاہیے جس نے حقائق سے اپنے کو دور رکھنے کے لیے یہ رسمی طریقے استعمال کیے۔
لیکن جیساکہ اوپر کہا گیا ہے، ہمہ گیری کے معیار کو بہت احتیاط سے دیکھنا چاہیے۔ ہمارے پریس اور پروپگنڈہ لٹریچر کے سلسلے میں ہمارا واسطہ ایسے رسائل اور اخبارات سے پڑتا ہے جو اپنے قارئین سے کافی سمجھ داری کا مطالبہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی مقبولیت عام کی سطح کا بھی ۔ہم اپنے ادب کو غیر مہذب پچھڑے ہوئے کسان عوام اور انگھڑ مزدوروں کی سطح تک بھی نہیں گراسکتے ۔ ایسا کرنا سنگین غلطی ہوگا۔
کامران ہے وہ ادیب جو ایک پیچیدہ اور قیمتی سماجی نظریے کو اپنی زبردست فنکارانہ سادگی سے لاکھوں دلوں تک پہنچا دے۔ وہ آرٹسٹ بھی مبارکباد کے قابل ہے جو مقابلتاً سادہ اور ابتدائی مافیہ سے لاکھوں انسانوں کے دلوں تک پہنچ سکتا ہے۔ مارکسی نقاد کوایسوں کی بہت قدر کرنی چاہیے۔ ایسی صورت میں انہیں مارکسی نقادوں کی خاص توجہ اور مدد کی ضرورت ہے۔ البتہ اس ادبی کام کی قیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو ہر (معمولی) خواندہ کے لیے قابل فہم نہیں جس کے مخاطب پرولتاریہ کی بالائی سطح کے لوگ اور نفاست پسند پارٹی ممبران ہیں۔ یہ وہ قارئین ہیں جو بلند تہذیبی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ زندگی ان لوگوں کے سامنے بہت ہی اہم مسئلے لے آئی ہے۔ یہ وہ ہیں جو سوشل ازم کی تعمیر میں بہت اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ اس لیے ان مسائل کا ایک ادیب جو اب دیئے بغیر نہیں رہ سکتا صرف اس عذر پر کہ ابھی انہوں نے عظیم اکثریت کا سامنا نہیں کیا ہے یایہ کہ ابھی انہوں نے عام صورت اختیار نہیں کی ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ہم دوسری راہ پر بہت آگے چلے گئے ہیں ۔ ہمارے ادیبوں نے آسان کام پر اپنی توجہ لگارکھی ہے اور ایسے وقت میں وہ محض ایسے قارئین کے لیے لکھ رہے ہیں ۔مجھے یہ بات دہرانی پڑتی ہے کہ ادب مزدوروں اور کسانوں کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے۔ شرط یہ ہے کہ پوری قابلیت سے کامیاب ادب پیش کیا جائے اور وہ قابل قدر ہو۔
10
جیسے کہ بتایا جا چکا ہے مارکسی نقاد اعلیٰ پایہ کا استاد بھی ہے۔ محض تنقید بیکار عمل ہے اگر اس تنقید کا نتیجہ بہتری کی صورت میں نہ نکلے ۔مگر یہ ترقی لازمی طور پر کیسی ہو؟۔ اول یہ کہ مارکسی نقاد کا ادیب سے برتاؤ لازمی طور پر استاد جیسا ہونا چاہیے۔ بالکل ممکن ہے کہ میری یہ بات سُن کر برہمی کے ساتھ آوازیں بلندہوں اور کہاجائے کہ نقاد کوکوئی اس بات کا حق نہیں دے سکتا کہ وہ اپنے آپ کو ادیب سے بلند تر شمار کرے وغیرہ وغیرہ۔ مگر جب اس بات کو درست جملوں میں ادا کیا جائے تو پھر اس قسم کے اعتراض بے جان ہوجاتے ہیں ۔ ایک تو اس طرح کہ جب کہا جائے کہ مارکسی نقاد لازمی طور پر ادیب کے لیے مثل استاد کے ہونا چاہیے۔ اس سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ وہ انتہائی پر عزم مارکسی ہے اور فاضل ترین بے داغ شخصیت ہے۔ اس پرکہاجاسکتا ہے کہ ایسے نقاد ہیں ہی نہیں، یانام چار کے چند ہیں۔ سمارے معترض یہ کہنے میں بالکل غلط ہیں کہ ایسے نقاد ہیں ہی نہیں۔ البتہ اس بات کا دوسرا حصہ سچائی کے قریب ہو سکتا ہے۔ مگر اس سے ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ سیکھنے اور جاننے کی بہت ضرورت ہے ۔ ہمارے عظیم ملک میں اچھے اور قابل ادیب بہتیرے ہوں گے لیکن انہیں سیکھنے اور جاننے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ البتہ وہ نقاد جو ادیب سے خود کو افضل سمجھے بغیر اُسے سکھاتا پڑھاتاہے وہ ادیب سے خود بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اچھا نقاد وہ ہے جو ادیب کو قدر اور عزت کی نظر سے دیکھے اور اس کے لیے سب کچھ کرے ۔ مارکسی نقاد کو دو طریقوں سے ادیب کا استاد بننا چاہیے۔ اول وہ نوجوان ادیب یا ادیبوں کی تخلیقات میں اُن غلطیوں کی نشان دہی کرے جو عام غلطیاں ہیں۔
علاوہ ازیں مارکسی نقاد کو سماجی لحاظ سے بھی ادیب کا استاد ہونا چاہیے۔ سماجی طرز عمل میں سماجی زندگی کے قوانین اور اس عہد کے بنیادی تقاضوں سے نا بلد ہونے اور دقیانوسی خیالات رکھنے کے سبب سے غیر پرولتاری ادیب ہی بچوں جیسی بدترین غلطیاں نہیں کرتے اکثر پرولتاری ادیب بھی کرتے ہیں ۔یہ کہنے کا مقصد ادیبوں کی توہین کرنا نہیں کسی حد تک ستائش کرنا ہے ۔ ادیب نہایت حساس لوگ ہیں۔ وہ حقائق کے اثرات کو فوراً لپک لیتے ہیں۔ زیادہ ادیبوں کے پاس مجرد اور سائنسی فکر کا تحفہ یا مخصوص مفاد نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ عوامی مفادات کے موضوعات کے متعلق نقادوں کی دی ہوئی مدد کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن عام طور پر اس انکار کا سبب مدد کرنے کا وہ طریقہ ہے جو عالمانہ شان سے ہوتا ہے ۔ پھر بھی حقیقتاً قابل ادیبوں اور نقادوں کے اشتراک عمل ہی کا نتیجہ ہے کہ اچھا اور اعلیٰ پائے کا ادب ہمیشہ تخلیق ہوتا رہا اور ہوتا ہی رہے گا۔
11
جو مارکسی نقاد ادیب کو فائدہ بخش انداز میں تعلیم دینا چاہتا ہے ، وہ قاری کو بھی پڑھاتا ہے۔ ہاں ہاں قاری کو ضرور پڑھناسیکھنا چاہیے۔ نقاد بحیثیت تبصرہ کنندہ (کومن ٹیٹر) ایسی شخصیت ہے جو زہر سے خبردار کرتا ہے جس کا ذائقہ شیریں ہوسکتا ہے ۔وہ ایک ایسا شخص ہے جو یہ بتانے کے لیے کہ اس میں موتی ہے ایک سخت خول کو توڑ ڈالتا ہے۔ ایسا شخص جو بھاری بنیاد پر کُلیہ قائم کرنے کے لیے نقطہ اور زیر زبر تک بناتا ہے۔ ایسے رہبر کی آج لازمی ضرورت ہے جب کہ اتنے سارے قیمتی لیکن ناتجربہ قارئین ہمارے سامنے چلے آرہے ہیں ۔ یہ جو ایک رشتہ ہمار ے ماضی اور عالمی ادب کے ساتھ ہے اسے موجودہ دور سے جوڑنے کا یہی ذریعہ ہے ۔ ہم پھر بتانا چاہتے ہیں کہ یہی وہ مطالبے ہیں جو موجودہ دور مارکسی نقادوں سے کر رہا ہے ۔ ہم اپنے اس مقالے سے کسی کو دھمکانا نہیں چاہتے۔ مارکسی نقاد کو ابتدا انکسار سے کرنی چاہیے لیکن وہ یہ ضرور یاد رکھے کہ اسے پہلی منزل تک چڑھنے کے لیے لمبے پھسلوان زینے سے کام لینا ہے اور اس مرحلے کو طے کرلینے کے بعد بھی اسے لازمی طور پر اپنے کو نو آموز سمجھنا ہوگا۔ کچھ بھی سہی مگر یہ امر ناممکن ہے کہ اس عظیم تہذیبی اور اعلیٰ ادب کے ابھار کونظر انداز کر دیا جائے۔ یہ یقین کرنا نا ممکن ہے کہ مارکسی تنقید کی موجودہ حالت جلد بہتر ہوجائیگی چاہے پوری طرح اطمینان بخش نہ ہو۔
12
منطقی نتیجے کے طور پر دو اور سوالوں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ۔ پہلا تو یہ کہ نقادوں پر اکثر نعرہ بازی کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ بے شک یہ امر خطرناک ہے کہ کسی ادیب کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ ’’بے شعور‘‘ ہے یا ’’نیم شعوری‘‘طور پر انقلاب دشمن خیالات رکھتا ہے ۔ اور اس صورت میں کہ جب کسی ادیب کو اجنبی بورژوایا ایسا شخص سمجھ لیا جائے جو دائیں بازو والوں کے پیچھے لگاہوا ہے۔یا ہمارے آدمیوں میں سے کسی کو پٹٹری سے پھسلنے والا وغیرہ کہاجائے تو ساری صورتحال مشکوک نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ یا وہ نقاد کیا سیاسی مشتبہہ ہے یا سیاست فہمی میں خام ہے یا سیاست میں ناکام ہے۔ ہم کو قطعی طور پر اس قسم کے مطالبے کرنے والوں کو سختی سے جھڑک دینا چاہیے۔ وہ نقاد جو اپنا ذاتی مفاد چکانے کے لیے ایسی باتیں کرتا ہے اور جان بوجھ کر بدنام کرنا چاہتا ہے وہ دلن ہے۔ یہ مفسد ہمیشہ دیر سویرا جاگر ہوجاتا ہے۔ وہ نقاد احمق اور بے لگام ہے جو بغیر سوچے یا جانچے اس قسم کے حملے کرتا ہے ۔لیکن وہ جو خود مارکس ازم کی روح اس ڈر سے توڑتا مروڑتا ہے کہ وہ اپنے ہدف کے سماجی تجزیے کا اعلان نہیں کرسکتا ۔ ایسے شخص کو بے پروا اور سیاسی مایوس قرار دینا چاہیے۔
مارکسی نقاد کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ چلّائے ’’خبر دارر ہو‘‘ ۔یہ ریاستی ادارے سے اپیل کرنے کا مسئلہ نہیں بلکہ کسی ادیب کے ادبی کام کا اپنی تعمیر کے لیے آمکنے اور جانچنے کا معاملہ ہے۔ یہ خود ادیب کا کام ہے کہ اپنی لائن کو درست کرنے کے لیے نتیجے مرتب کرے ۔ ہم نظریاتی جدوجہد کے ماحول میں ہیں۔ ایک بھی صاحب شعور اور ایماندار کمیونسٹ اس جدوجہد کی اس زمانے کے ادب اور اس کی جانچ پڑتال کے سوال کی نوعیت سے انکار نہیں کرسکتا۔
13
اور اب ایک آخری سوال یہ ہے کہ کیا تیز و تلخ مناظر ہ بازی جاری رکھی جائے ؟۔
اگر چہ تیز وتلخ مناظر ے قاری کی توجہ قائم رکھنے کے لیے مفید ہیں۔ مناظرہ جس میں دونوں فریق غلطی پر ہوں عوام پر اثر ڈالتا ہے اور وہ آسانی سے سمجھ جاتے ہیں۔ مزید برآں مارکسی نقاد جب انقلابی کی طرح اپنے خیالات کا تیزی سے اظہار کرتا ہے لیکن اگر وہ اپنے دلائل کی کمزوری کو چھپانے کے لیے فقرہ بازی کا سہارا لیتا ہے تو اس نقاد کا یہ عمل بمنزلہ گناہ عظیم ہے ۔جب دلائل کم ہوں اور چبھتے ہوئے فقرے اور طنزیہ جملے اور کاٹتے ہوئے سوالات زیادہ ہوں تو ان کا اثر لوگوں کو بظاہر خوش تو کرسکتا ہے لیکن وہ سنجیدگی سے عاری رہیں گے ۔تنقید کی بھی تنقید ہونی چاہیے ۔کیونکہ مارکسی تنقید جہاں سائیٹفک ہے وہاں آرٹسٹک بھی ہے ۔تنقید میں برہمی کوئی اچھی بات نہیں۔ برہمی اس امر کا اظہار ہے کہ نقاد غلطی پر ہے ۔
بعض دفعہ استہزاد اور تضحیک نقاد کے دل سے نکلتی ہے اور دوسرے نقاد اور سامعین شروع ہی سے طبعی غصے اور بغض میں تمیز کر لیتے ہیں ۔ہماری تعمیری کوششوں میں بغض امکانی حدتک بالکل نہیں ہوناچاہیے۔ بغض اور طبقاتی نفرت میں فرق ہے ۔ ہمیں ان دنوں کو نہیں ملانا چاہیے۔ طبقاتی نفرت اس چھائے ہوئے بادل کی طرح ہے جس میں شخصی بغض نہیں ہوتا ۔ مارکسی نقاد کا دوسروں کی خامیوں پر خوش ہونا درست نہیں۔ اس کا رویہ ہمدردانہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے خوشی کی بات تویہ ہونی چاہیے کہ وہ آرٹ کے مُثبت پہلو دریافت کرے۔ اور انہیں عوام پر اجاگر کرے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ وہ آرٹسٹوں کی مدد کرنے کے لیے ان کی رہنمائی بھی کرے اور انہیں بھول چوک سے خبردار بھی کرے۔ استہزا اور تضحیک نیز سخت تنقید کے تیروں کی تو جب بھی ضرورت پڑے گی جب ولنوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ تھوتے آرٹسٹوں کا قلع قمع توبہ آسانی کیا جاسکتا ہے