عشق دریا ہے گراں بار نہ جانے کوئی
بہتے پانی کو گنہگار نہ جانے کوئی

اس میں روحوں کی ملاقات ہوا کرتی ہے
خواب کے پیار کو بیکار نہ جانے کوئی

میں جو حالات کے دھا رے میں بہی جاتی ہوں
مجھ کو لہروں کا طرفدار نہ جانے کوئی

سر جھکایا ہے محبت میں محبت کے لئے
اس محبت کو مری ہار نہ جانے کوئی

میں یونہی وقت گزاری کو چلی آئی ہوں
مجھکو خوابوں کا خریدار نہ جانے کوئی

مجھکو حالات کی تلخی نے کیا ہے برہم
میری گفتار کو تلوار نہ جانے کوئی

یاد آتے ہی غزل بنتی ہے میری بلقیس
سا عت۔ ہجر کو آزار نہ جانے کوئی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے