گاڈوِن روسو کے اس نکتہ سے متفق نہیں تھا کہ انسان بنیادی طور پر صالح ہوتا ہے : انسان کے رضا کارانہ عوامل opinion کی کو کھ میں پرورش پاکر اُبھرتے ہیں اس لیے جمالیاتی حس اور احساساتی /جذباتی تاثرات کو نظر انداز کرنا اعلیٰ آدرش کے حصول اور ہیئت پر منفی اثرات ڈالنے کا موجب بن سکتے ہیں ۔ خلوص میں ملبوس گفتگو پر عمل پیرا ہونے سے ہی ہماری ذات کے اندر، بہادری اور مہک پیدا ہوسکتی ہے ۔ ہمارے لیے منافقت ، مصلحت ، خود ساختہ سماجی رواج اور دیگر masksکو ریزہ ریزہ کرنا از بس ضروری ہے۔ ’سچائی‘ صرف آزادیِ اظہار پر ہی ایستادہ ہوسکتی ہے ۔
متذکرہ گاڈوینی سنگت کے حوالے سے یہ کڑوی حقیقت بھی ہے کہ حکومتی جبر واستبداد کا ایک ایسا دور بھی آیا کہ چند ایک کو چھوڑ باقی تمام سرگرم کارکنوں ودانشوروں پر جھوٹے اور فرضی مقدمے قائم کئے گئے ۔ اور ان میں سے بیشتر کو برطانوی جزائر کے قریب Botany Bayکے اندر مقید رکھا گیا ۔ لیکن ان میں سے بیشتر سنگتوں کا عزم چٹان کی مانند تھا۔
اس کے بعد اُنیسویں ۔ بیسویں صدیوں کے درمیان بادشاہی روس کے اندر اور باہر dedicated سنگتوں کا ایک اور سلسلہ ہمالیہ کی مانند اپنے مقصد اور نظریہ پر اٹل وغیر متذلزل نظر آتا ہے ۔ یہ وہ عظیم دانشور اور سیاسی مفکر وادیب تھے جو ارتقا انقلاب کے داعی ومبلغ تھے۔ لینن ان سب سے زیادہ فعال ، جیالا،اور اس دمکتی لڑی کا سربر اہ تھا ۔ ان دیوقامت شخصیتوں میں پلیخانوف ، مارٹوف ، میکسم گور کی ، ۔۔۔ وغیرہ بھی شا مل تھے۔بادشاہت ان کا ھدف اور پرولتاریہ ڈکٹیٹر شپ مقصد تھا۔ لمبی جلاوطنی کے دوران انہوں نے سوئٹزر لینڈ فرانس واٹلی (کیپری) سے ظاہراًو خفیہ کئی سیاسی /ادبی/فکری۔۔ رسالے ، اخباروں ۔۔۔ کا اجراء کیا ۔ اور اکتوبر انقلاب تک یہ شعوری آگہی کا سلسلہ جاری و ساری رہا ۔ ’’انقلاب ‘‘ کی بنیادوں میں اس قافلہ کی contribution بہت اہم گردانی جاتی ہے۔
اس ’’سنگت ‘‘سے پیشتر اکیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے آٹھویں دہائی تک روسی سرزمین سے ایک اور ہمالیائی شخصیت اُبھر کر سامنے آئی : الیگزینڈر ھرزن ۔ زاری جبریت کے خلاف ایک گونجدار آواز جس میں فکر سوچ ادب تاریخ انقلاب عظمتِ آدم اور دھرتی سے والہانہ محبت کی ایسی قوس وقزح شامل تھی جس کی مثال نادر ہی مل پائیگی۔ اور وہ گونج بھی اپنی دھرتی سے جلاوطن ہو کر برطانیہ کی سرزمین سے اُٹھی تھی۔ آنے والے اکتوبر انقلاب میں اس ’’آواز‘‘ کی دَین کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اِس کے سنگتوں میں وہ انمول رتن شامل ہیں جنہوں نے دنیا کی فکری دانش وآگہی میں امر قسم کے جوہر بھردیے تھے: چرنی شووسکی ، بلانسکی ، باکونن، مزینی، وغیرہ۔ ھرزن کا سنگت رسالہ Bellنام کی مناسبت سے ظلم جبر غاصبیت ملوکیت کے خلاف ایک جنگی ناد تھا جس نے روس کے اندربادشاہت اورپادری کی غیر مقدس گٹھ جوڑمیں دراڑیں پیدا کردی تھیں لینن بھی اس (ھرزن) کی محبوبیت سے بہت متاثر تھا۔
ھرزن کو عرفہ عام میں والٹیئر کا جنم بھی کہاجاتا تھا۔ اس کی سوچ ہر قسم کی انتہا پسندی کے خلاف تھی۔ اس کے بمو جب دوانتہاؤں کے درمیان منطقی آبرومند انہ سمجھوتہ جو کہ انصاف سچائی اور اخلاقی طریقہ کو عملی جامہ پہنانے کیلیے کیا جائے اُس میں جانبدارانہ راہ اختیار کرنا از بس ضروری گردانی چاہیے۔
اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم سے پیشتر ، اس کے دوران اور اس کے بعد کے عرصہ میں فرانس کے عظیم ترقی پسند فلسفی ادیب دانشور و سیاسی مفکر جے پی سار تر نے اپنے ہم خیال عظیم دانشور دوستوں : البرٹ کا مو ، پال نذر ، سیمون ڈی بوار ۔۔ کی سنگت میں ایک ایسے رسالہ (نیا زمانہ) کا اجراء کیاجس نے تین دھائیوں تک دنیا ئے سیاست وادب پر ایسے جاندار وجاودان نقوش ثبت کئے جن کا ارتعاش آج بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ اس رسالہ نے فرانس کے اندر نازی ازم کے خلاف وہ آگ بھڑکا دی تھی جو آخر کار اس کے وجود و فلسفہ کو بھسم کرنے کا موجب بھی بنی تھی۔اس پر چہ نے روشن فکرادب وفکرکے پھیلا ؤمیں بھی نمایا ں کردار ادا کیا تھا۔
تاریخ کے پنوں پر اس قسم کی بیشمار مخصوص سنگتیں اور ان کے تحت نکلنے والے اخبار ورسائل کی زر ین مثالیں بکھری ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔
بلوچستان کا باب بھی اس معاملہ میں اپنا ثانی خود ہے ۔ سن 1972میں نیپ حکومت کے دوران پہلی مرتبہ ، ایک وطن دوست دانشور رؤف وارثی کی ادارت کے تحت ہفت روزہ ’’سنگت‘‘ کا اجراء ہوا تھا۔
اس ’پرچہ‘ نے خود کو شعوری بالیدگی اور مٹی کامان رکھنے کی خاطر وقف کردیا تھا۔اس دوران فروری 1973 میں نیپ کی عوامی منتخب حکومت ایک سویلین آمر کی اندھی قوت کی قربان گاہ کی نزر ہوئی اور اس کے ساتھ سنگت کا چراغ بھی وقتی طور گل ہوگیا ۔ دنیا کی ہر تحریک خواہ ادبی ثقافتی سیاسی وفکری ، کے اندر زمان ومکان کے دائرہ میں set backsآتے رہتے ہیں اور فولادی عزم کی حامل دانش مایوسی کے دلدل میں پھنسنے کے بجائے ایسی تاریک ساعتوں میں ایک نئے ولولے عزم جوش وجزبہ سے سرشار ہوکر re.boundکرتے اُبھرتی (resurrect) دکھائی دیتی ہیں۔
دسمبر میں1997میں ملک میں موجود سیاسی ابتری ونیم آمرانہ نظام کی موجودگی میں دوبارہ سنگت ماہنامہ نے چند سرپھروں کی چُویاری میں resurrectکیا تھا ان دانشور وں میں عبداللہ جان جمالدینی،
ڈاکٹر شاہ محمد مری ، ڈاکٹر امیرالدین،راقم الحروف، سی آر اسلم ، ڈاکٹر خداداد خان، تمکین عباسی، محمد سرور، خواجہ رفیق ، لال بخش رند اور محمد اسلم ملک شامل تھے۔ اُسی روز سے ہی سنگت کا قافلہ ہر قسم کی بھونک کے باوجود اپنے مشن پر ثابت قدمی سے چلتا دکھائی پڑتا ہے ۔ آگے بڑھتا نظر آتا ہے ۔ میرے نزدیک سنگت اک ایسا اُتم symbolہے جس کی جڑیں نہ صرف پختگی کے ساتھ زمین میں پیوست ہیں بلکہ ماضی کے سدابیار ھرزنی یا لیننی روس یا فرانس کے سارترائی عہد یا کئی دیگر درخشندہ دوروں میں بھی پیوست ہیں۔ اس لیے اسے صرف بلوچستان کی حد تک محدود کرنا انصاف کے تقاضہ کے منافی ہوگا ۔ متذکرہ ’’علامت ‘‘غماز ہے حق کی ، حسن کی ، نیکوکاری کی، مزاحمت کی۔
اگر چہ اس وقت عنفوان جوانی میں قدم رکھا ہے (شاہ محمد نے نہیں ، سنگت نے) بیس برس کا خوبرو گھبرو ضرور ہے لیکن ، عقل تجربہ شعورو ودھرتی سے وابستگی کے لحاظ سے اپنی طبعی عمر سے کئی گنا آگے نکل آیا ہے۔ اس لیے نہ صرف قابل ستائش ہے ، بلکہ تمام تر نیک خواہشات اسکے ساتھ ہیں۔
انسان دوستوں کی نہ ختم ہونے والی قطار متذکرہ سنگتوں کے اٹوٹ وپیہم سلسلوں پر ہی ایستادہ اپنے ارادوں میں غیر متزلزل دیکھی جاسکتی ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے