مصوری ، شاعری اور موسیقی کی طرح ایک بہت بڑا آرٹ ہے۔ ہر آرٹ کا اپنا کا ایک تخلیقی، تخیلاتی جہان ہوتا ہے جس سے اس کے معنیاتی جہان نمودار ہوتے ہیں۔۔کسی آرٹ میں پوشیدہ حقائق کو کینوس سے باہر نکالنا قاری کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ قاری اگر مصوری کے اصول و ضوابط سے واقف ہے تو تصویر میں چھپی تصویروں کو جلد دیکھ لے گا لیکن اگر وہ ایک ناواقف کار قاری ہے تو اپنی ذہنی بساط کے مطابق اس تصویر میں سے معنی اخذ کرے گا ہو سکتا ہے کہ وہ ان حقائق کو بھی دریافت کر لے جسے مصور نے پینٹ کیا ہے لیکن وہ یہ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ اور کنفوڑن کا شکار رہے گا کہ آیا وہ درست ہے یا غلط۔۔
آرٹ اپنی جبلت میں نیچر کے Against سفر کرتا ہے۔ آرٹسٹ ہمیشہ اس جھیل کو پینٹ کرتا ہے جو اس کی تمنا میں ہے ان سوکھے درختوں کو اپنے کینوس پر اتارتا ہے جو اس کے اپنے اندر ہیں کیوں کہ انسان نیچرل نہیں آئیڈیالوجیکل ہے وہ نیچر کو تقویت نہیں پہنچاتا بل کہ اس کے مخالف سفر کرتا ہے۔۔علامہ اقبال نے کہا تھا:
"تو شب آفریدی چراغ آفریدم”
"چراغ آفریدم” کیا ہے؟
"چراغ آفریدم” نیچر کے Against بھی ہے اور مزاحمت بھی۔۔ آرٹ اپنی سرشت میں مزاحمتی ہوتا ہے۔ آرٹ ہر اس چیز کے خلاف مزاحمت کرے گی جو اس کی روح اور تمنا کے خلاف ہو گی۔اس کے دو پہلو ہیں:
ایک تمنا دو مزاحمت۔اگر آرٹ تمنا کے ذیل میں ہو گی تو پھر ہر طرف نغمے ہی نغمے ہوں گے سرشاری ہو گی۔۔لیکن غلام آدمی نغمہ نہیں لکھے گا۔۔۔بل کہ مزاحمت کرے گا۔۔
سر دست ہم یہاں تمثیل حفصہ کی مصوری کو شعری عنوان کے تحت بنے والی امیجری کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔۔تمثیل حفصہ نے کتنی پینٹگنز بنائی ہیں؟ کتنے کتابوں کی ٹائٹل ڈیزائن کیے ہیں؟ وہ مصوری کے کن معیارات پر پورا اترتے ہیں۔یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ہے۔۔ البتہ جن پینٹگنز کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے وہ ایک ہی سیریز کی پانچ پینٹگنز ہیں جن کا عنوان اپنے آپ میں بے مثال ہے۔۔۔عنوان ہے:
"ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے”
مشہور زمانہ غالب کا یہ مصرع ان پینٹنگز کی صورت پذیری کا موجب ہے۔جس طرح عنوان میں شب و روز اور تماشے کے استعارے استعمال کیے گئے ہیں بلکل اسی طرح ان پینٹنگز میں بھی کھیلوں کو بطور امیجری پیش کر کے عالمی، سیاسی صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ان کھیلوں میں شطرنج۔۔تاش۔۔لڈو۔۔ باؤلنگ اور پزل شامل ہیں۔ان پینٹنگز میں صرف ان کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے جو صرف تین رنگوں پر محیط ہیں۔۔ یہ تینوں رنگ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سفید، سیاہ اور سرخ رنگوں کو ذریعہ بنا کے میسج convey کرنے کی کوشش کی گئی۔۔ان رنگوں کی خاصیت بھی عجیب ہے۔سفید رنگ باقی تمام رنگوں کو reflect کرتا ہے اس کی اپنی کوئی رنگت نہیں ہوتی۔۔۔سیاہ تمام رنگوں کو جذب کرتا ہے جبھی تو سیاہ رنگ بنتا ہے۔۔۔سرخ دونوں کے ماحصل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ان تمام تصویروں میں جو آپس میں مربوط ہیں سرخ رنگ کو بہ طور نتیجہ بڑی وضاحت کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔۔مصور جب تاریخ کے دبیز پروں میں جھانکتا ہے تو اسے صرف خون ریزی ہی نظر آتی ہے جنہیں بڑے فخر سے درج کیا گیا ہوتا ہے۔۔مصور کھیلوں کے ماحول کو عالمی تناظر کے طور پر دکھانے کا خواہاں اسی لیے ہے کہ ہر چیز کی بدلتی تقدیر ایک بنیادی point سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔جس طرح ایک تصویر میں شطرنج کے ایک معمولی مہرے کو مستقل جدوجہد کرنے کے بعد شاہ کا منصب نصیب ہوتا ہے بالکل اسی طرح اس میں سازشی ذہن اور چالاکی کی عنصر بھی غالب رجحانات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔۔عالمی طاقتیں عام عوام کے مستقبل اور مقدر کا فیصلہ کرتی ہیں۔شاطر ذہنیت رکھنے والا فرد ہی اس سماج میں زندگی گزار سکتا ہے۔۔کیوں کہ معاشرتی تضادات کے پیش نظر فرد کے لیے اکیلے جینا بڑا مشکل اور دشوار ہو چکا ہے۔اگر اس حقیقت کو ڈرامائی شکل نہ دی جائے تو بہت سارے مسائل اور جنم لیں گے جو محکموم طاقتوں کے لیے ناگوار ہیں۔ حقیقت کو کھیل یا ڈرامائی شکل صورت میں اجاگر کرنے سے لطف بھی حاصل ہو گا اور اپنے منظوم مقاصد بھی حاصل ہوں گے۔۔
مصور کی ان پینٹنگز کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ان میں آلات موسیقی اور وقت کی سوئیوں کو بھی پوشیدہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ موسیقی سے جہاں لطف اندوز ہونے اور اپنی حقیقت سے چشم پوشی کا احساس ابھر رہا ہے۔ وہیں دھیمے انداز میں متحرک گھڑی کی سوئیاں ایک الم ناک واقعے کا تاثر جنم دے رہی ہیں۔یہ الم ناک واقعہ کس صورت ہو گا؟۔ اس سے کیا کیا چیزیں تبدیل ہوں گی؟۔وقت کی یہ بے رحم سوئیاں کہاں آکے رکیں گی؟ ۔اس کے بارے میں یہ پینٹنگز خاموش ہیں لیکن یہ اتنا باور اور یقین ضرور دلا رہی ہیں کہ نتیجہ خون ریزی ہی ہو گا۔۔یہ تمام تصاویر حقیقت پسندانہ اسی لیے ہیں ان کے پیچھے جو سوچ کار فرما ہے وہ ظلم و بربریت پر مبنی ہے۔مصور کی پینٹنگز میں خیر اور شر کی معرکہ آرائی میں فتح شر کو ہی حاصل ہو رہی ہے اس کی واضح وضاحت تماشے کے استعارے میں آرٹسٹیکلی طور پر موجود ہے۔
تمثیل حفصہ کی پینٹنگز کے علاوہ اس کا ایک شعری جہان بھی ہے جو اس کی مصوری سے جنم لیتا ہے۔یہاں اس کی ایک نظم کا تخلیقی جواز اس لیے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس مصوری کا دیوی کے آرٹسٹک وجود کو سمجھا جا سکے۔۔نظم کا عنوان ہے۔۔
’’زندگی اے زندگی‘‘
کوئی بھی تخلیقی فن پارہ جب تخلیق ہوتا ہے تو سب سے پہلے اپنے وجود اور ہیئت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اثر جنم دیتا ہے۔۔یہ تخلیقی اثر اولین لمحے یا فرصت میں مصنف کے اندر پیدا ہوتا ہے وھاں کے رنگ و روپ میں خود کو ایک طرح سے ضم کراکے۔۔منوا کے پھر ایک سنجیدہ کاوش(شعور)سے شعری سماج کے آئینے میں پورے وثوق اور اعتبار سے خود کو مصنف سے پینٹ کراتا ہے۔
ریاضی کے ایک آسان سے کلیے میں 222822364 ہوتے ہیں لیکن آرٹ کی دنیا میں 22282 برابر ہمیشہ 4 سے زائد ہوتے ہیں کیوں کہ تخلیقی پراسس ہر لمحہ تغیر بہ عمل ہے اس سفر نامے میں اثر 2 کی طرح جامد نہیں رہتا بل کہ مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔۔جس سے معنی۔۔رنگ۔۔اور سر ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔اس نظم کی تعمیری ہیئت۔۔معنی کا بدلتا تناظر ہر طرح سے مکمل اور پختہ ہے۔اگر ہم نظم کی ہیئت پر غور کریں تو ہمیں کل گیارہ(11) مصرعے نظر آئیں گے۔آزاد نظم کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کا ہر مصرعہ دوسرے مصرعے سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن یہ کل گیارہ(11) نہیں بل کہ بارہ(12) مصرعے ہیں۔۔ اس نظم کا بارہواں مصرعہ اس کا عنوان ہے
"زندگی اے زندگی”
اس نظم کی بنت کاری ایک افسانے کی طرح کی گئی ہے جو ایک خاص ابتدائیہ سے شروع ہو کر معنی کے circle کوپورا کرتا ہوا اختتامیہ تک پہنچ کر تکمیل پاتا ہے۔۔نظم کا شعری کرافٹ ایک موسیقی کی لے کو جنم دیتا ہوا آگے بڑھتا ہے جس سے معنی کا احساس (اثر) ابھر کے سامنے آتا ہے۔۔مثلا:
"زندگی اے زندگی” اندر۔۔باہر "تیری ایک مسکان پہ واری سب۔۔۔۔تیری اک اک رات ہے بھاری اب” جو سو جائے۔۔۔تو سو جائے "کوئی۔۔کوئی”ہوں۔۔میرے (رنگ)تجھ میں یوں جان بھریں۔۔میرے(سر)تجھ میں یوں راگ بھریں”
(رنگ)آرٹ ہے اور (سر)موسیقی۔۔۔ یہ تو نظم کی موسیقی ہے جو sound جنریٹ کر رہا ہے معنی کے اس جہاں تک رسائی کے لیے جہاں قاری پہنچنا چاہتا ہے۔۔۔ اب اس کے (آرٹ)امیجری روپ کو دیکھیں:
ایک زندہ وجود مورت بنی ہوئی ہے ۔یہ مجسمہ ایسا بالکل نہیں کہ اس کی پوجا کی جائے۔۔ بل کہ اسے پوجا لائیک بنانے کی سنجیدہ کاوش ہو رہی ہے۔تبھی نظم کا متکلم اسے بار بار۔۔دوہرا دوہرا کے سمجھا رہا ہے۔
"کبھی آ جانا اس گھر میں تو
تیری مورت کو دفنائیں گے”
مورت کو دفنانا۔۔۔دراصل وہ آرٹ ہے جسے آرٹسٹ زندگی دے کے پینٹ کر رہا ہے۔وہ مورت کو اس کی اپنی ذات میں دفنا کر زندہ و جاوید بنا رہا ہے یہی master peace ہے۔۔نظم میں زندگی کو تشکیل دے کر تکمیل کرنے والا آرٹسٹ۔۔ جسے زندگی کی خارجی اور باطنی کیفیات کی معرفت حاصل ہے نظم میں خود بھی موجود ہے۔۔وہ اس لیے کہ باہر سے شعری سیاق کو تعبیر کا جامع نہیں پہنایا جا سکتا۔۔۔
تمثیل حفصہ کی مصوری کا اسلوب ظاہری imagenation سے زیادہ باطنی امیجری سے اجاگر ہوتا ہے۔ وہ کینوس پر image بنانے سے پیش تر امیجری کے معنیاتی تصور کو اپنے تخلیقی ذہن کے کینوس پر اتارتی ہے اس میں تخیلاتی رنگ بھرتی ہے جب ذہن اور تخلیقی روح اسے شہ پارہ تسلیم کر لیں تب جاکر وہ کینوس پر پینٹ ہوتی ہے۔۔اس کی
پینٹنگز سے یہ تاثرات بہ آسانی مرتب کیے جا سکتے ہیں کہ وہ کرافٹنگ کے روش سے کوسوں دور ہے۔ وہ بے معنی پینٹ ہی نہیں کرتی۔ پینٹنگز اس کا سرمایہ ہیں جن میں وہ جیتی ہے سانس لیتی ہے۔۔ اس کی پینٹنگز ایک ایسی وجودی phonmenon سے جنم لیتی ہیں جن کو سمجھنا قطعا آسان نہیں۔۔ اس کا قاری آرٹ کے سحر میں محو ہوئے بغیر معنی کے سراغ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔۔ہر مصور کا آرٹ ہی اس کی زندگی ہونی چاہیے وگرنہ بت تراشی کا پیشہ ترک کر دینا ہی بہتر ہے کیوں کہ جب تک پینٹنگ کی خاموش دنیا میں بیٹھا بت بولے گا نہیں وہ کیسے اور کیونکر بت(۔۔۔۔) تسلیم کر لیا جائے؟؟