جیکب آبادکانفرنس کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔بھئی، عام بلوچ کے سامنے آج بھی اگر کانفرنس کا نام لو تو وہ اسے کوئی ’’سرکاری ‘‘ کوئی’’حاکمی‘‘کوئی ’’بورژوا‘‘ یا کوئی ’’بدیسی‘‘ ٹائپ کی چیز سمجھ کر بیگانگی کا اظہار کرے گا۔ اور وہاں توہم 1932کی بات کررہے ہیں۔ اُس وقت تو کانفرنس کا کوئی نعم البدل تصور تک موجود نہ تھا۔
سنڈیمن ہم سے جرگے تو کرایا کرتا تھا مگر وہ جرگے دو تین قبائل کے بیچ جھگڑوں کو طے کرنے کے لیے ہوتے تھے ۔وہ جرگہ سرکارکی طرف سے بلایا جاتا تھا ، اوراس میں صرف سردارشامل ہوتے تھے ۔ یعنی محدود بین القبائلی جرگہ۔
باقی عام بلوچ تواپنے قبیلے کے اندر ہی ملتے تھے ۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قبیلے کے اندر بھی ذیلی شاخیں اور اُس سے بھی نیچے توسیع شدہ خاندان کی سطح پر اپنے تنازعات حل کرنے کے لیے مُچی، میٹر، مرکہ ، جرگہ سے ہی واقف تھے،یہمگر کانفرنس توبالکل ہی ایک نیا معاملہ تھا۔
دوسرا نیا پن اس میں یہ تھا کہ قبیلے کا سردار یہ کانفرنس نہیں بلا رہا تھا۔اورجو اکٹھ سردار یا وڈیرہ نہ بلائے وہ تو کوئی اکٹھ شمار ہی نہیں ہوتا تھا۔ صدیوں سے ایک مختص ہیرارکی کے تحت بلوچ اپنا کاروبارِحیات چلاتا آرہا تھا۔ اب پہلی بار کچھ لوگ (اور وہ بھی زیادہ تر غیر سردار لوگ) مل کر یہ اجتماع منعقد کروارہے تھے۔ کچھ کچھ قیامت کی نشانی تھی یہ، رواج وروایت سے ہٹ کر۔
ایک اور فرق یہ تھا کہ یہ انوکھا اجتماع قبیلے کے میروں معتبروں کو نہیں، عام آدمی کو بلارہا تھا۔
اچھا، یہ سبی کا روایتی میلہِ موشیاں یا جلسہ بھی نہ تھا جو صدیوں سے زمستان میں منعقد ہوا کرتا تھا۔ اور وہاں عام لوگ تو اپنا مال مویشی خریدنے بیچنے لے جاتے تھے۔ مگر وہاں اس میلے کا سرکاری حصہ صرف سرداروں پہ مشتمل ہوا کرتا تھا ۔ سردار انگریز حاکم سے وفاداری دکھاتے اور جواب میں کچھ روپے ، کچھ حمایت اور کچھ شفقتیں پاتے ۔ یہ کانفرنس اس طرح کی بھی کوئی چیز نہیں کررہی تھی۔
ایسی صورتحال میں تصور کیجئے کہ جب پہلی بار کوئی بلوچ یہ بات سنتا تو اُس کی آنکھیں غور میں کس قدر سکڑ جاتی ہوں گی، اُس کا منہ حیرت سے ادھ کھلا ہوگااور وہ انگشتِ حیرت دردھن کے بجائے پنجہِ حیرت سے سریا داڑھی میں کنگھی کرتے ہوئے سن رہا ہوگا۔ پیاری قوم اور پیارے لیڈر!!۔
یہ انڈیا بھر میں بکھرے ہوئے بلوچوں کی کانفرنس تھی، انڈیا جو کہ ایک بّرِصغیر ہے ۔ کونے کونے سے آنے والے بلوچوں کو نہ ایک دوسرے کے رسم ورواج کا پتہ تھا، نہ ایک دوسرے کے رہن سہن کی معلومات تھیں۔بس’’ بلوچ ‘‘!۔اوریہ نام ہی کافی ہوتا تھا۔یہ نام ہی کافی ہوتاہے ۔
سویہ پوری بلوچ قوم کی اپنے بارے میں ، اپنی کمزوریوں خامیوں کے بارے میں ، اور اپنی بہتری اور بہبود کے ذرائع پر غور کرنے کااجتماع تھا۔چنانچہ ہمارے آج والے بلوچستان بھر کے بلوچ،پنجاب سندھ کے بلوچ ،حتی کے آل انڈیا کے بلوچ مدعو تھے۔۔ انہوں نے مل بیٹھنا تھا، قوم کے بکھرتے شیرازہ کو دوبارہ مجتمع کرنے کا سوچنا تھا ، اُس کے مردہ تصورات کو دفن کرنے ،اُسے نئے عہد کے ساتھ ہم آہنگ نظریات عطا کرنے اور اُس کو اقوام عالم کی صف میں وقار کے ساتھ کھڑا کرنے کی ترکیبیں کرنی تھیں۔اور تاریخ میں پہلی بار جبہ ودستار کے مالکوں کے بجائے عام بلوچوں۔۔۔ فہمیدہ اور دانش مند بلوچوں نے یہ کام کرنا تھا۔عام بلوچوں کی، دانشوروں ، باشعورسیاسی ورکروں، اور سماجی طور پر جاگے ہوئے لوگوں کی کانفرنس ۔ہر لحاظ سے ایک نئی چیز تھی ۔
اور پھر یہ’’ ایک ‘‘روزہ اجتماع نہ تھا بلکہ یہ تو تین دن تک چلنے والی کانفرنس تھی ۔ قیام کے لیے کوئی فائیو سٹار ہوٹل نہ تھے، کھانے کے لیے کوئی اعلیٰ انتظام نہ تھا ۔ سواری کے لیے جہاز کا ٹکٹ وغیرہ نہ تھا۔ نہ قبائل کا امتیاز تھا ، نہ عہدوں کی تخصیص تھی۔۔۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ۔۔۔ اس میں کوئی جنگی فیصلے نہیں کرنے تھے۔
یوںیہ سراسر غیر قبائلی بلوچ قومی اکٹھ تھا۔ اس کی قبائلی بنیاد نہ تھی۔ سب بلوچ تھے۔ خیل وزئی والے کوئی امتیازات نہ تھے۔
منتظمین نے نہایت سنجیدگی سے اپنی بساط سے بڑھ کرمحنت کی ،جنگی بنیادوں پر ایسا کیا۔جیسے یہ کانفرنس دلوں کی آواز ہو، امیدوں کا اظہار ہو اور ناجائز یوں کے مداوا کی سبیل ہو۔
محنت کا پیکر ، نوجوان اور کمٹ منٹ کا مجسم نمونہیوسف عزیز تو سارا کام دھند ہ چھوڑ چکا تھا ۔ اس کا تو اٹھنا بیٹھنا یہی کانفرنس بن چکا تھا۔ اِدھر دوڑ اُدھر بھاگ ۔ دعوتیں، ٹیلیگرام ، خطوط ، اخباری بیان ۔۔۔وہ اپنے دوست محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں بتاتا ہے کہ : ’’ آج کل نواب محمد جمال خان ایم۔ ایل۔سی لغاری اور ڈیرہ غازی خان کے دیگر بلوچ سردار یہاں آئے ہوئے ہیں اور کانفرنس کے بارے میں ہر ایک اپنی ہمدردی دکھارہاہے‘‘۔
اس نے کسی کوبھی چین سے رہنے نہ دیا۔سب کو قائل کر ڈالا کہ وہ اس کانفرنس کی ملکیت لے ،اُسے ownکرے ، اور علی الاعلان اُس سے اپنی وابستگی کا اظہار کرے۔اسی دُھن اور لگن میں اُس نے 20 اکتوبر1932 کو سردار جمال خان لیغاری، نواب مشتاق احمد گرمانڑیں اور غلام رسول خان کورائی سے مل کر یہ مشترکہ بیان جاری کیا:
’’ یہ فیصلہ کیا گیا کہ دسمبر میں جیکب آباد کے مقام پر ’’ بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘‘ منعقد کی جائے۔ بلوچ جمہوری اصولوں سے اچھی طرح شناسا ہیں مگر ہماری قوم بیرونی اثرات سے بے پناہ طور پر متاثر ہورہی ہے ۔ نتیجتاً ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے ،سوائے اِس کے کہ ہم خود کو اتحاد اور اتفاق سے منظم کردیں۔ بصورت دیگر ہم دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے ۔ ہمارے مقاصد میں اہم یہ ہیں : بلوچوں کا اتحاد، لازمی تعلیم، حقوق کی حفاظت، مذہبی تعلیم، اور آئینی اصلاحات۔ ہمیںیقین ہے کہ ہماری قوم کے لوگ اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں کوئی موقع ضائع نہ کریں گے‘‘۔(3)
یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ تعلیم لازمی کرنے کا بلوچ کا مطالبہ ابھی کا نہیں ہے ۔ ہم سو سال قبل بھی یونیورسل ایجوکیشن کی بات کررہے تھے۔
اسی سلسلے میں میر یوسف عزیز مگسی ملتان گیا تو وہاں پہ اس نے بلوچوں کے ایک اجلاس کا انعقاد کیا تھا جس میں اس نے عبدالصمد اچکزئی کو بھی مدعو کیا تھا ۔ وہ شریک تونہ ہوسکا البتہ ایک خط عزیز مگسی کو لکھ کر اپنی مکمل تائید اُسے دے دی ۔ اس اجلاس میں بلوچستان کے دیگر جاگے ہوئے نوجوانوں کے علاوہ بگٹی کا نواب میر محراب خان بھی شامل تھا ۔ ملتان کے اس اجلاس میں بھی اس نے اسی معاملے پہ بحث مباحثہ کرایا اور دسمبر1932کے اواخر میں جیکب آبادمیں تمام ہندوستان کے بلوچوں کی ایک کانفرنس کے انعقاد کا اعلان اور اعادہ کیا گیا۔
ہم نے بتایاناں کہ سلام پیغام ، خط ، اخبار جو بھی ذرائع ہاتھ آئے اس کانفرنس کے انعقاد اور کامیابی کے لیے استعمال کیے گئے۔ آئیے اخبارات کا رخ کریں۔واضح رہے کہ کراچی کا’’البلوچ‘‘ جو کہ میر عبدالعزیز کرد کے انجمن اتحاد بلوچاں سمجھو ترجمان اخبار تھا ، وہ رفتہ رفتہ اُس کاروان کا ترجمان بنتا گیا جسے ہم مارکسسٹ نیشنلسٹ کاروان کہتے ہیں۔ یہی ’’البلوچ ‘‘ اب مکمل طور پر سمجھو آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد کا ترجمان اخباربن چکا تھا۔ یوسف عزیز مگسی نے ساری توجہ اس اخبار کی بقا کے لیے وقف کر دی ۔ اسی طرح اخبار نے بھی آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے ایک ایک لمحے کی خبر دینے کے لیے اپنے صفحے ریزرو کر دیے۔سچی بات یہ ہے کہ اگر ’’البلوچ‘‘ اخبار نہ ہوتا تو ہم اس کانفرنس کے بارے میں تفصیلات صرف دشمن انگریز کی جاسوسی رپورٹوں سے حاصل کر پاتے اور ’’بلوچ ورژن‘‘ نہ جان پاتے۔اخبار البلوچ (23 اکتوبر1932)میں ایک اشتہاریوں کہتا ہے :
انجمن اتحاد بلوچاں وبلوچستان کے اجلاس منعقد 27ستمبر1932
’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا اجلاس جیکب آباد (سندھ) میں بموقعہ میلہ اسپان ماہ دسمبر1932میں منعقد ہوگا۔ کانفرنس کی استقبالیہ کمیٹی کی ممبری کی فیس۔۔( پڑھا نہیں جاتا۔۔ش م) روپیہ ، ڈیلیگیٹ ٹکٹ کی قیمت دو روپیہ اور وزٹرٹکٹ ایک روپیہ مقرر کی گئی ہے ۔ تاریخِ اجلاس کے متعلق بعد میں اعلان کیا جائے گا ۔ اپنی قوم بلوچ کے بہی خواہوں کی خدمت میں التماس ہے کہ اپنی قوم کو جہالت وافلاس کے بحرِبے کنارسے نکالنے کے لیے ہر صورت کانفرنس میں شرکت فرما کر کانفرنس کو کامیاب بنائیں۔
دریافت طلب امور کیلئے مندرجہ ذیل کے پتے پر خط وکتابت کریں:
غلام سرور خان خلف خان بہادر رسول بخش خان۔ سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد (سندھ)‘‘
جب آپ کی برملا کہی گئی برحق بات ایک بار عوام کی سمجھ میں آجائے اور وہ اپنے بہبود سے متعلق آپ کے عزائم کو سچا اور سُچا سمجھ لینے لگیں تو وہ نہ صرف آپ کے ساتھ ہوتے ہیں بلکہ بڑھ بڑھ کر اپنی تجاویز، رہنمائی، مالی معاونت اور محنت سے آپ کے کام آسان بنا لیتے ہیں۔ یہی صورت اِس کانفرنس کی ہورہی تھی۔ اس کانفرنس کی پبلسٹی میں ایک استقلال ، ایک مستقل مزاجی موجود تھی، اس کے’’ بشر دوست دلائل‘‘شفاف اور واضح تھے اور اس کے اغراض ومقاصد کے قاصد کردار و گفتار میں اعلیٰ تھے ۔رفتہ رفتہ عوام کی طرف سے اس میں گر م جوش شرکت کا اظہارہونے لگا۔جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں ۔۔۔۔۔۔ اور میرے نزدیک1920سے لے کر 1932کے جیکب آباد کانفرنس تک اور پھر وہاں سے 1935میں یوسف عزیز مگسی کے انتقال تک کا یہ دورانیہ بلوچ عوامی تاریخ کا اہم ترین دور تھا ۔ معروض اور موضوع دونوں بہانوں کو آگ میں جھونک کر اُن مٹھی بھر لوگوں نے بلوچ سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ جن باتوں پہ ہم اِس اکیسویں صدی میں بات کرتے ہوئے دس دس بار ’’احتیاط خان‘‘ بن جاتے ہیں، وہ بر حق باتیں یہ بہادر سیاسی ورکرز سوسال پہلے، بلند آواز میں دُھرارہے تھے۔ آپ اگلا پیراگراف پڑھیں اور بس، دل کی گہرائیوں سے اِن اکابرین کو آفرین کہیں۔13نومبر1932 کے ’’البلوچ‘‘میںیہ دلچسپ اعلان شائع ہوا تھا:
’’میدا نِ عمل میں بلوچ خواتین کا قابلِ تحسین قدم‘‘
’’بلوچ خواتین جیکب آباد کی طرف سے ورکنگ کمیٹی کو درخواست پہنچی ۔ جس میں انہوں نے اپنی آرزووں کا اظہار کرتے ہوئے شمولیت آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد کے لیے استدعا کی کہ انہیں بغیر کسی فیس داخلہ کے شامل کیا جائے اور پردہ کاانتظام کیا جائے۔
’’چنانچہ ورکنگ کمیٹی نے اپنی محترم ہمشیر گانِ وطن کی درخواست کا خیر مقدم کرتے ہوئے نہایت خوشی سے اُن کی استدعا کو منظور کرلیا۔اورمستورات کے لیے باقاعدہ پردہ کا انتظام کیا جائے اور بغیر فیس داخلہ کے شامل کیا جاوے ۔ ہم اپنی محترم خواتین کی خدمت میں التجا کرتے ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کو جو عموماً تعلیم سے بے بہرہ اور مردوں سے کئی گنا زیادہ جہالت میں ہیں، بیدار کریں اور اپنی جیکب آباد کی بہنوں کی تقلید کرتے ہوئے کانفرنس میں شمولیت فرماویں۔ اور دیگر بہنوں کوبھی اغراض و مقاصد سے واقف کرتے ہوئے مستقبل کے روشن پہلو سے آگاہ کریں۔
جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد ،سندھ‘‘۔
عورتوں کے حقوق کے بارے میں بلوچ کے ارفع شعور کے متعلق میں صرف اتنا کہوں گا کہ مندرجہ بالا اعلان آج کا نہیں بلکہتقریباً ایک صدی قبل 1932کا ہے۔