ناقابل قبول، ناقابلِ معافی
مکران میں پچھلے دنوں بے گناہ بلوچ عوام پر رجعتیوں کی طرف سے جس بہیمانہ اور فسطائی انداز میں حملہ کیا گیا وہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی ہماری صوبائی حکومت کے لئے ایک بد نما داغ اور ایک بہت بڑی بد نامی ہے۔ اس لئے کہ حکومت کے اولین فرائض میں سے ایک اہم فریضہ امن و امان کاقیام ہے جس میں وہ بری طرح سے ناکام ہوئی ہے ۔
پاکستان کے آئین میں موجود ہے کہ عقیدے اور مذہب کے انتخاب اور بجا آوری کی ہر پاکستانی کو آزادی ہے۔ جو شہری جس بھی چاہے عقیدے کو اپنا سکتا ہے، اس پر عمل کر سکتا ہے ۔ اُسے اس بات کی ریاستی آئینی ضمانت حاصل ہے اور یہ ضمانت حکومت اُسے فراہم کرتی ہے ۔
مگر ملاؤں کی ایک ٹولی فساد و فتنہ پھیلانے کی غرض سے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر بلوچوں کے مکران ڈویژن پر حملہ آور ہوئی جس کا سرکار کو اچھی طرح پتہ تھا ۔ ان لوگوں نے وہاں جلسہ کر نے کے بہانے لشکر کشی کر کے ایک مذہبی فرقے کے لوگوں پر یلغار کر دی جو اپنے مذہبی تہوار پہ جمع تھے ۔ نتیجتاً نصف درجن بلوچ ہلاک ہو گئے ۔
بلوچوں کے وطن میں بلوچی روایت کا مذاق اس طرح اڑایا گیا کہ خواتین تک کو (جو ہر طرح کی عزت و تکریم اور تقدس کی حامل ہیں ) قتل کر دیا گیا جن پر کہ بلوچ ہاتھ اٹھانا بھی جرم تصور کرتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مولویوں کی جس ٹولی نے کشت و خون کا یہ ڈرامہ رچایا تھا ان ہی کا ایک بازو حکومت میں وزارت و مشاورت کی کرسیوں پر براجمان ہے ۔
لوگوں کے خون پر دکھاوے کی اشک شوئی کے لئے جب کچھ قاتلوں کو پکڑا گیا تو اسی سرکار کے ایک بڑے ’’کھمبے ‘‘ نے بہ نفس نفیس جا کر انہیں رہا کروا دیا ۔ حالانکہ بہت سے خوش فہم لوگوں کا تو یہ خیال تھا کہ اکیسویں صدی کے اس روشن خیال دوراہے پرعقیدے کی بناء پر بلوچوں کے قتلِ عام پر کابینہ استعفیٰ دے گی۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ بلوچستان میں معمولی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور طلباء تنظیمیں ، ٹریڈ یونینیں اور دیگر عوامی انجمنیں اس رجعتی ، فسطائی اور انسان کش ٹولی کی پارٹی پر پابندی لگانے ، مظلوم بلوچوں کے قاتلوں کو عبرتناک سزا دلوانے اور مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے والوں کو بے نقاب کرنے کے لئے جلسے کریں گی، جلوس نکالیں گی اور ایک بھر پور تحریک چلائیں گی ۔ مگر انہیں تو اپنے گروہی مفادات زیادہ عزیز لگتے ہیں، اجتماعی ہلاکت کے بارے میں فکر کی شاید کسی کو بھی فرصت نہیں ۔
ہم اپنے انسانی شرف اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس درندگی کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہم ہر عقیدے اور مسلک کے ماننے والے بلوچوں کو اپنا بھائی کہتے ہیں ۔ ہم ذکر یوں کو اپنی طرح انسان سمجھتے ہیں ۔ وہ کسی سے بھی اچھے بلوچ ہیں اور پاکستان کے اسی طرح شہری ہیں جس طرح کہ نمازی ، شیعہ ، سنی ،عیسائی ، ہندو ، پارسی ، قادیانی اور اسماعیلی ہیں ۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی انسانی اور اسلامی اصولوں کے مطابق شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرے ۔ فسادیوں اور قاتلوں کو قانون سے کھیلنے کی اجازت نہ دے ۔ تربت میں مارے جانے والوں کے لواحقین کا خون بہا ادا کرے اور ان کے قاتلوں کی جماعت پر پابندی لگا دے ۔