’’نادرات تحقیق ‘‘کرن داؤد کے چودہ مقالات پر مشتمل تصنیف ہے۔یہ کتاب2017ع میں بیکن بکس ملتان ۔لاہور سے شایع ہوئی۔
بلوچستان میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ نصاب کے تحت ایم فل ،پی ایچ ڈی کی نصابی کتب کی دستیابی جوئے شیرلانے کے برابر ہے۔کرن داؤد اس اعتبار سے خوش قسمت محقق ہیں کہ ’’نادرات تحقیق ‘‘ جیسی کتاب تخلیق کرکے ایم فل ،پی ایچ ڈی کے طلباء کے لیے مواد کا اچھا خاصاذخیر ہ فراہم کر کے آنے والے محققین کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔’’نادرات تحقیق ‘‘میں شامل مختصر مقالات ان کے وسیع مطالعے اور وسعت نظر کے غماز ہیں۔اہل علم کے ہاں تحقیق ،تلاش،بازیافت،مباحث ، ضرورت،اہمیت ،افادیت ،طریقہ کار ،تحقیق کی اقسام پر، آنے والے محققین کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان امور سے متعلق سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔تاہم گیان چند جین کی تحقیق کا فن سے لے کر معین الدین عقیل کی’’اردو تحقیق صورت حال اور تقاضے‘‘ ،عطش درانی کی جدید رسمیات تحقیق تک تمام محققین نے تحقیق کی نوعیت کے لحاظ سے بڑی اور اہم اقسام پر چند سطروں سے زیادہ نہیں لکھا،بلکہ کیفیتی و کمیتی تحقیق کی درجہ بندی کرتے ہوئے ادبی تحقیق میں کمیتی یا مقداری تحقیق کی کم یابی کا رونا رویا گیا ہے۔ کرن داؤدنے’’ نادرات تحقیق‘‘ میں ’’اردو کی ادبی تحقیق میں کمیتی تحقیق کے نمایاں پہلو‘‘کے عنوان سے جو مقالہ لکھا ہے ،اس میں مسئلے کی پیدائش،موضوع کا انتخاب،مواد کی جمع آوری کے لیے معتبر ذرائع ،مواد کی چھان پھٹک،تحقیقی خاکے کے ضمن میں ابواب بندی،تحدید ،ابتدا،وسط اور اختتام کی منطقی تقسیم،مفروضہ،مفروضے سے متعلق سوالات،حقائق کی تصدیق کے لیے سابقہ ادبیات کا مطالعہ،مقالے کی ظاہر ی و باطنی ہیت ،متنی خصائص یہ سب کے سب اتنے ہی مقداری ہیں کہ ان کی کسی سائنٹفیکٹ کلیے یا فارمولے کی طرح سند دی جاسکتی ہے۔اقتباسات ،حوالے و کتابیات یہ وہ نکات ہیں جنہیں کرن داؤدنے انتہائی باریک بینی سے پرتیں کھول کر ٹھوس،مدلل و منضبط طریقے سے وضاحت کرکے ثبوت کے ساتھ واضح کیا کہ اردو کی ادبی تحقیق جدید طریقہ روش کو بہت پہلے سے اپنائے ہوئی ہے اور ادب کے لیے نئی شے نہیں ہے۔اس لیے اس طریق تحقیق کی کم مائیگی کا گلہ بے فائدہ ہے۔
’’ نادرات تحقیق ‘‘میں شامل مقالات کے موضوع سے انصاف کیا گیا ہے۔قدیم متون کی ترتیب و تدوین میں رشید حسن خان،ڈاکٹر حنیف نقوی،ڈاکٹر نسیم احمد کے اہم تدوینی کارناموں پر مدلل انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ان محققین نے اردو میں تدوین کے وہ اصول راسخ کیے جن پر تدوین کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ان اصولوں کی بہ دولت تدوین کرنے والوں کو تدوین کے اصولوں سے آشنائی ہوئی۔کرن داؤدنے ’’نادرات تحقیق‘‘ میں رشید حسن خان اور ڈاکٹر نسیم احمد کے فن تدوین جیسے اہم اور دقیق کارناموں ،جدید تدوین کی بنیاد ڈالنے،روایت شکنی اور آنے والے تدوین کاروں کے لیے فراہم کردہ نمونوں کی باریکیوں،ضرورت اور تقاضوں کو واضح کیاہے۔مالک رام، غالب شناس و ماہر غالبیات کے ضمن میں مالک رام کی تحقیقی اورقابل ذکر تصانیف کا فردا فردا اور تفصیلی مطالعہ پیش کیا۔اس حوالے سے مالک رام نے جو قابل قدرتحقیقی خدمات انجام دیں انہیں ضبط تحریر میں لایا گیا۔’’تنقیدِ شعر العجم پر ایک نظر‘‘ حافظ محمود شیرانی کی تحقیق شناسی، ا شار یہ اور اشاریہ سازی کے تحت اشخاص،مقامات اور کتاب کے اشاریے پر بحث کی گئی ہے، جو اردو کے اولین اشاریوں میں شمار ہوتا ہے ۔اس طرح انہوں نے نہ صرف مطلوبہ معلومات کی فراہمی خالص تحقیقی انداز میں کی ہے بلکہ جدید تحقیقی رجحانات کا ثبوت بھی فراہم کیاہے۔شیرانی نے شبلی نعمانی کے مشہور تذکرے ’’شعرالعجم‘‘ کے بیانات پر تاریخی انداز میں نقد و نظر کر کے غلطیوں کی نہ صرف نشان دہی کی تھی بلکہ تحقیقی طریقے سے درستی بھی کی تھی ۔شیرانی کی ’’تنقیدِ شعرالعجم ‘‘ میں مذکورہ معلومات وضاحت سے پیش کرتے ہوئے کرن داؤدنے شیرانی کے وہ تحقیقی اصول بھی اختصار سے واضح کیے جو آنے والے محققین کے لیے مشعل راہ ہیں۔
’’ اردو زبان کے آغاز و ارتقاپر لسانی عوامل کے اثرات‘‘،’’اردو زبان کی صوتی خصوصیات‘‘،’’اردو زبان کا فروغ اور اس کے تقاضے‘‘،گیان چند جین کی متنازعہ کتاب’’ ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب ‘‘ پر تحقیق و تجزیہ’’ ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب؛ مباحث و حقائق‘‘،’’اردو تحقیق کی معیار بندی‘‘،تقابلی مطالعہ:دیوان درؔ د نسیم اور نسخہ سوسائٹی لاہور‘‘،’’برٹرینڈرسل کا مختصرمطالعہ احوال اور فکری ارتقا‘‘،ہسٹر ی آف ویسٹرن فلاسفی کے اردو ترجمہ کی تنظیم و ترتیب کا مطالعہ‘‘، ’’کوئٹہ کے کشمیریوں کی اردو بول چال‘‘جیسے مقالات تحریر کر کے اردو میں کیے گئے تحقیقی و تدوینی کاموں کا جائزہ،تحقیقی اصول و ضوابط،اس کے میعارات،اردو زبان سے وابستہ اہم لسانی مسائل،تہذیب و ثقافت،تمدنی اور سماجی عوامل کے ساتھ متنوع لسانی محرکات کی اثراندازی،اردو زبان کا فروغ اور اس کے تقاضے ‘‘کے ضمن میں مصمتے،فونیمیات میں اختلاف و مطابقت کے پہلو،صوتیات کا لسانیات سے تعلق ،لسانیات کی شاخیں ان امور پر اظہار خیال کرتے ہوئے زبان اور زبان سے متعلق مختلف امور کو لسانیاتی امور کو خالص محققانہ طریقے سے واضح کیا ہے۔کرن داؤدنے ’’نادرات تحقیق ‘‘کے مقالات میں مباحث و افادیت کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی اردو تحقیق میں نئے سوالات اور موضوعات کو فروغ دیا۔اردو کے عظیم و معتبر محققین ،رشید حسن خا ن نے باغ و بہار ،میرامن دہلوی مرتبہ رشید حسن خان کا انتساب اپنے استاد امتیاز علی خان عرشی کے نام،ڈاکٹر نسیم احمد نے دیوان درد مرتب کردہ نسیم احمد کا انتساب اپنے استادڈاکٹر حنیف نقوی کے نام منسوب کیا ہے۔ کرن داؤدنے بھی ان عظیم محققین کی روش پر چلتے ہوئے ’’نادرات تحقیق‘‘ کا انتساب اپنے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الرحمن کے نام منسوب کرکے اس راویت کو فروغ دیا ہے،جن کی پر خلوص کاوشوں اور ان تھک محنت سے بلو چستان میں اردو کی ادبی تحقیق کا نیا دور شروع ہوا۔’’نادارت تحقیق‘‘ اپنے نادر موضوعات کی بدولت علمی و ادبی حلقوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے ۔یہ تحقیقی کتاب نئے محققین کے لیے سمت نما ہے جن سے وہ استفادہ کرسکیں گے۔