دانیال طریر!۔
تمھاری یادیں گنتے گنتے
ہم سڑک کے بے نشان مین ہول کا حصہ بن چکے ہیں
آگے _یا_ پیچھے کوئی نہیں
جو ہاتھ تھامے قیام گاہ کا راستہ دکھائے
اور تم بے فکری سے ٹہلتے ہو
آسمان کی چھت پر
تم خدا کو نظم سنا ناچاہتے ہو
جو پرانے شہر کی بلند سیڑھیوں پر لکھی
ارے دانی!
خدا کے پاس نظم سننے کے لیے وقت نہیں
وہ کائنات کے گورکھ دھندے میں مصروف ہے
تم ہمارے بغیر اکیلے ہو
قدم قدم پر تنہائی ہے
سنو!
اور لوٹ آؤ
زمین تمھاری نظم سننے کے لیے بے قرار ہے