تمہارے بازؤں کے گھیروں میں آجانے کے بعد
مجھے ایسا کیوں لگتا ہے
جیسے سردیوں میں گھاس کی لمبی لمبی ڈالیاں
ہوا میں پلکو رے لینے لگی ہوں
جسے سمندر کی سطح پر ہوائیں پانی کے ساتھ
کوئی کھیل کھیلنے لگی ہوں
جسے آسماں پر قوس و قزح کا رنگدار دائروی جھولا ڈال کر
کائنات پینگیں لے رہی ہوں
جسے کوئی سبز ڈال اپنے آخری سرے پہ
پھولوں کی بے خوابی سمیٹ کر
اپنے حسن کے زعم میں لچکا رہی ہوں
تمھارے گھیروں میں آجانے کے بعد مجھے ایسا کیوں لگتا ہے
جیسے پوری کائنات مجھ میں سما رہی ہو