قبر کی سیاہ تاریکی نے
دن کی روشنی کو قتل کر دیا
چوہے بلوں سے نکل کر
دستاویز
کے ساتھ وہ قلم بھی
کتر گئے
جن سے کبھی سچائی
سنہرے لفظ لکھتی تھی
انصاف کی دیوی نے
مفاد کی چربی اندھی آنکھوں پر باندھی
تو مردہ انگلیوں نے وکٹری کا نشان بنایا
انسانیت کی مسخ لاش سے
خوں ٹپکنے لگا
ماں اور بہنیں چیختی رہیں
قصاص !!!۔
جواں لہو کا
مگر باپ نے
عصمتوں کی دھجیوں کی سلائی
کی خاطر
اسٹامپ پیپر ماتھے پر سجا لیا
جس پر سونے کی تاروں سے
صلح لکھا تھا
آنکھوں سے اب پانی نہیں
زر انگار سکوں کی تھیلیاں ہر سمت میں
برستی ہیں
دلوں سے کوئی دعا اوپر نہیں اٹھتی
مایوسی کی کثیف دلدل کی
لجلجی بانہوں میں لپٹی پڑی ہے
گلی کے بوڑھے برگد نے سورج کو فریاد بھیجی

ہچکیاں لیتے منتظر ہیں
شائد کبھی اسے جلال آئے
اور
گھور اندھیرے کو پھانسی پر چڑھا دے
نہ جانے کب سے
بیا ض پر میں
ادا س لفظوں کو
بے دلی سے ادھرِ،ادْھر کررہی ہوں
بے ربط سے خیالوں کو
بے یقینی کی شا خساروں پہ دھر رہی ہوں
ملول سوچوں کی کاء سی
تہہ بہ تہہ لہومیں اتر رہی ہے
وہ بے یقینی
وہ بے دلی ہے
کہ زندگی ہاتھ مل رہی ہے
وہ شاد ماں راستے جو
اپنی مراد منزل کی دھن میں دھت تھے
ٹھٹھک کے ، ایک موڑ پرکھڑے ہیں
جوباد باں دل میں کھْل رہے تھے
سوال بنکے وہ موجۂ خوں سے
لمحہ لمحہ الجھ رہے ہیں
میں دا ئیں دیکھوں تو
ایک لشکر!۔
عمامہ وجبہ وقبا میں
ہماری سوچوں، ہمارے لفظوں، ہمارے ہونٹوں پہ
اپنے فتووں کی ننگی تلوارسونت کے
ریوڑوں کی صورت میں
غول درغول سارے خوابوں کو ہانکتا
قبل تاریخ کے حوالوں کی اندھی غاروں

میں دھکے دیتا، ڈھکیلتا
آگے بڑھ رہا ہے
میں بائیں دیکھوں تو
استعماروں کی دلد لیں ہیں
جوپوری دنیا سمیٹ لینے کے
فیصلوں سے ابل رہی ہے
زمیں کا نقشہ نگل رہی ہیں
تو دوست میرے !! ۔
نہ جانے کب سے بیاض پرمیں
اداس لفظوں کوبے دلی سے
ادھر، ادھرکررہی ہوں
بے ربط سے خیالوں کو
نظم کرنے سے ڈر رہی ہوں
یہ دو جو چکی کے پاٹ ہیں
ان میں پستی سوچوں سے
وہ جوتاکید ہے تمہا ری کہ کوء
سرسبز نظم لکھو
تو کیسے لکھوں ؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے