کیا کہوں ان سے
جی تو چاہتا ہے کہ بہت کچھ کہوں
کچھ اپنی کہوں
کچھ ان کی سنوں
اتنا تو دل کو ہے یقیں
وہ اپنی کہے گا تو ان کا دل ہمہ تن گوش رہے گا
پر وہ ان کی آواز سن نہ پائے گا
کیونکہ
وہ کچھ کہہ ہی نہ پائیں گے
میرا منتظر دل منتظر ہی رہے گا
اور میرا تخیل ان کی آواز کا پیکر تراشے گا
شاید اسی طرح میرے گوشِ سماعت کو
آواز کی غذا ملے گی
میری محبت کی امر بیل منڈھے چڑھے گی
شاید اسی طرح محبت کی کہانی امر ہوگی
دسمبر آ گیا ہے
’’ اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘‘
ہمیشہ کی طرح زندگی کے بیتے کئی برسوں کی طرح
یہ دسمبر بھی تنہا ہی گزرے گا
اس تنہائی کے سنگ
جو ہماری ازلی اور اصلی رفیق ہے
اس کی جدائی میں ہم
اسی سے دل بہلاتے ہیں
اسی سے جی لگاتے ہیں
ہماری ہمدمِ دیرینہ ہے
اسے کہنا اس دسمبر میں بھی
وہ ہی ہماری ہم نشین و ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے
اسے کہنا
اب اس کی جدائی
ہمیں مضطرب نہیں کرتی
تنہا نہیں کرتی
اسے کہنا
یہ دسمبر بھی تنہائی کے سنگ بہت رنگین ہو گا
میں اور میری تنہائی
دسمبر کی یخ راتوں میں ہم کلام ہوں گے
وہ اپنی سنائے گی اور میں اپنی
یوں ہم دونوں کا دسمبر
حسیں ہو گا
رنگیں ہو گا
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے