ہمارا ادب نشوو نما کے ایک فیصلہ کن مرحلے سے گزررہا ہے۔ ملک میں ایک نئی زندگی ڈھل رہی ہے اور ہمارا ادب اس زندگی کے اظہار کے طریقوں کو سیکھ رہا ہے ۔جو غیر واضح اور غیر مستحکم ہے ۔ وہ لازمی طور پر نظم ونسق (نظام مملکت ) کی مزید بلند سطح کے مسائل بالخصوص تعمیرِ جدید کے اخلاقی اثرات سے بھی روشناس ہوگا۔
اگر چہ ہمارا ملک انفرادی اور طبقاتی لحاظ سے دوسروں ملکوں سے متضاد صورتحال رکھتا ہے ۔پھر بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تمام تر غیر طبقاتی ملک ہے۔کسان اور پرولتاری ادب کے مابین ناگزیر اختلاف کے رجحان کو سمجھے بغیر ،بات صاف ہے کہ اس ملک میں ایسے عناصر موجو دہیں جنہوں نے پرولتاری ڈکٹیٹر شپ کو قبول نہیں کیا ہے ، یا ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ مزدور طبقہ کے ہاتھوں سوشل ازم کی تعمیر کے بنیادی رحجانات کو قبول کرسکیں۔
قدیم اور جدید کے مابین تصادم جاری ہے۔ یورپ کے اثرات گزشتہ دوار کے اثرات، پرانے حکمران طبقہ کی باقیات اور نئے بورژوا طبقہ کے اثرات جونئی اقتصادی پالیسی کی وجہ سے پھل پھول رہا ہے یہ تمام اثرات اپنا رنگ دکھارہے ہیں۔ یہ انفرادی گروہوں یا لوگوں میں ہی نہیں دکھائی دیتے ہر قسم کے معجونِ مرکب پر اثر انداز ہیں۔ یہ بات کہ براہِ راست اور ارادتاً بورژازی کے مخالفانہ رحجانات کے علاوہ ایک اور عنصر بھی ہے جونہایت خطرناک ہے اور جسے شکست دینا مشکل کام ہے ۔ یہ روزمرہ کے پٹی بورژواعناصر ہیں جن کے اثرات مزدور طبقہ (پرولتاریہ)اور بعض کمیونسٹوں تک میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ کیڑے مکوڑے گہرے سرایت کر گئے ہیں ۔ یہ وجہ ہے جس کے سبب طبقاتی جدوجہد،ایسی طبقاتی جدوجہد جو اس زندگی کی تعمیر کیلئے کی جائے جس پر پرولتاریہ کے سوشلسٹ جذبات کی چھاپ ہو، نہ صرف دھیمی پڑ رہی ہے بلکہ پہلی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت باریک اور پیچیدہ مخلصانہ صورت اختیار کر رہی ہے ۔ اسی صورت کے سبب آرٹ بالخصوص ادب کے ہتھیار سے کام لینا نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ پرولتاری ادب یا اس سے ملتے جلتے ادب کے ساتھ مخالف ادب بھی سامنے آرہا ہے ۔ میرے یہ کہنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ محض مخالفین کا مخصوص شعوری عمل ہے بلکہ ان عناصر میں غیر شعوری مخالف عناصر بھی ہیں جن کی مخالفت ان کے جمود ان کی انفرادیت قنوطیت، تعصبات اور تحریف وغیرہ کی صورت میں ہے ۔
2
اس صورتحال میں ادب کو نہایت اہم فریضہ ادا کرنا ہے۔ اس ضمن میں مارکسی تنقید پر بڑی ذمہ داری ہے۔ ادب کے ساتھ ساتھ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ نئے آدمی اور نئی طورزندگی کے ڈھالنے کے عمل میں پوری پوری سرگرمی سے حصہ لے۔
3
مارکسی تنقید دوسرے تمام ادب سے ایک تو اس حقیقت کے سبب ممیز ہے کہ اس کی فطرت بہ لحاظ اس کی روح کے سماجی ہے بیشک وہ صرف مارکسی یعنی سماجی فلسفہ پر مبنی ہے اور کسی فلسفہ پر نہیں۔
بعض اوقات ادبی تنقید نگار اور ادبی مورخ کے درمیان فرق برتاجاتاہے ۔یہ فرق ماضی اورحال کے تجزیئے کے سبب اکثر نہیں ہوتا کیونکہ ادبی مورخ تنقید کے معروضی اسباب کا تجزیہ کرتا ہے اور تخلیق کے سماجی تانے بانے میں اس کا مقام اور سماجی زندگی میں اس کے اثرات کی وضاحت کرتا ہے ۔اس کے برعکس ادبی ناقد کاجہاں تک تعلق ہے وہ خالصتاً ظاہری سماجی خوبیوں یاغلطیوں کے نقطہِ نظر کی بنیاد پر تخلیق کی جانچ پڑتال کرتا ہے ۔
مارکسی ناقد کے لیے یہ تمیز کوئی جواز نہیں رکھتی۔ اگرچہ تنقید کے مخصوص لفظی لحاظ سے یہ لازمی ہے کہ تنقید مارکسی تنقید کا حصہ ہو اور سماجی تجزیہ اس تنقید کا بنیادی عنصرہو۔
4
مارکسی ناقد کو یہ سماجی تجزیہ کس طرح کرنا چاہیے ؟ ۔مارکس ازم سماجی زندگی کو بطور کُل کے پیش نظر رکھتا ہے جس کے علیحدہ علیحدہ حصے ہیں جو ایک دوسرے پر انحصار رکھتے ہیں اور اس میں نہایت فیصلہ کن رول مادی اور اقتصادی رشتے اور ان سب کے اوپر انسانی محنت کرتے ہیں ۔ مثلاً مارکسی نا قد کو ایک عہدکے عمومی تجزیے میں اس عہد کے تمام سماجی ارتقا کی تصویر کھینچنی چاہیے۔ جب کسی ادیب یا کسی تخلیق پر بحث کی جارہی ہو تو اس وقت بنیادی اقتصادی صورت حال کے تجزیے کی ضرورت نہیں کیونکہ درست اصول جو پلیخانوف اصول کہلاتا ہے بطور خود سامنے آجاتا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ کسی سماج میں ادبی تخلیق کا انحصار اس کی محض تخلیقی نوعیت کی حد تک غیر اہم ہے بلکہ اس کا انحصار سماج کے طبقاتی ڈھانچے اور اس نفسیاتی رابطے پر ہے جو طبقاتی مفاد کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ شعوری ہو کہ غیر شعوری ہر ادبی تخلیق ہمیشہ اس طبقے کی نفسیات کی عکاسی کرتی ہے جس کی ادیب نمائندگی کرتا ہے ۔ بات یہ ہو یا جیسا اکثر ہوتا ہے کہ ادبی تخلیق مختلف عناصر کی بات کرتی ہو جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ متعدد طبقات کے اثرات رکھتی ہے اس کا پورے غور وفکر سے تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
5
ایک ہی طبقے کے گروہوں کی نفسیات سے ہرادبی تخلیق کے رشتوں اور روابط کو تخلیق کی مافیہ سے ہی جانا جاسکتا ہے ۔ ادب، الفاظ کا آرٹ ہے جو سب سے زیادہ تخیل سے قریب ہے ۔ ادب آرٹ کی دوسری فارموں ، اپنے مافیہ کی فارم سے مطابقت کے سبب الگ نظر آتا ہے ۔ ادب کے لیے یہ امربدیہی ہے کہ اس کا مافیہ فنکارانہ درجہ رکھتا ہو اور اس میں خیال کی روانی ہو اور احساسات کی صحیح تصور کشی کی گئی ہو جو ادبی تخلیق کا حقیقی حصہ ہے۔ تخلیق کا مافیہ از خود مخصوص فارم کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فارم وہی اچھی ہے جو مافیہ سے مطابقت رکھتی ہو۔ زیادہ یاکم ادیب اپنے خیال اور احساسات کی وضاحت اور اظہار کے لیے ایسے پیرائے اختیار کرسکتا ہے جس سے اس کے قارئین بخوبی سمجھ سکیں اور متاثر ہوسکیں۔
مارکسی نقاد جب کسی ادبی تخلیق کا تجزیہ کرتا ہے تو وہ پہلے اس تخلیق کے مافیہ کا تجزیہ کرتا ہے،جو اس تخلیق کی سماجی روح میں ہوتی ہے ۔وہ ان سماجی گروہوں کا تعین کرتا ہے جن کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے اور تخلیق کے اظہار کے اس زوربیان کا اندازہ لگاتا ہے جو سماجی زندگی کو متاثر کرتا ہے ۔ اور اس کے بعد وہ تخلیق کی فارم پر نظر ڈالتا ہے اور جانچتا ہے کہ کس طرح وہ فارم تخلیق کے بنیادی عناصر سے ہم آہنگ ہے یعنی اس فارم میں ادیب کی اثر اندازی کو کس حد تک پورا کیا گیا ہے ۔
6
ادب کی مختلف فارموں کے تجزیے کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور مارکسی نقاد کو اس کی طرف سے آنکھ نہ بند کر لینی چاہیے کس ادبی تخلیق کی فارم محض اس کے مافیہ سے متاثر نہیں ہوتی کچھ اور عناصر بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ کسی طبقے کے لوگوں کی بول چال ، ان کی نفسیات، ان کا طرز فکر ، رہنے سہنے کے انداز، ان کی مادی تہذیب کی ترقی کی سطح، اور ان کے پڑوسیوں کے ان پر تہذیبی اثراتِ ماضی ، جمود اور اس کو بدلنے کی کاوشیں جو زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ سب فارم کو متاثر کرسکتی ہیں۔بسا اوقات فارم کا تعلق کسی مخصوص تخلیق کی حد تک نہیں ہوتا ۔بلکہ یہ پورے سکول اور ادبی تخلیقات کے عہد پر محیط ہوتا ہے ۔ فارم مافیہ کو بگاڑنے اور نقصان پہنچانے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور بعض دفعہ یہ مافیہ سے اس درجہ الگ ہوجاتا ہے کہ وہ مستقلاً جدا گا نہ حیثیت کر لیتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ادبی کارنامے ان طبقاتی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں اور جو حقیقی زندگی سے خوف کھاتے ہیں اور جو زندگی کو الفاظ کی جادو گری اور پر شکوہ جملوں سے چھپاتے ہیں۔ ان تمام عناصر کا مارکسی نقادوں کو تجزیہ کرنا چاہیے ۔ قاری نے دیکھ لیا ہوگا کہ یہ تمام رسمی عناصر زندگی کا حصہ ہیں اور انہیں سماج کے لحاظ سے ہی بیان کرنا ہوگا اور یہ سب اس کلیّے سے براہ راست ابھرتے ہیں کہ ہر عظیم ادبی تخلیق کی فارم اس کے مافیہ سے ہی متعین ہوتی ہے اور ہر ادبی تخلیق عظیم کارنامہ بننے کی امنگ رکھتی ہے۔
7
اب تک ہم نے زیادہ توجہ مارکسی تنقید پر دی ہے جو مارکسی ادیبوں کا کام ہے ۔ مارکسی ادب کو اب تک ایسے سائنسدان کی حیثیت سے پیش کیا ہے جو ادب کا مارکسی طریقے سے تجزیہ کرتا ہے ۔ مارکسی تنقید کے بانی پلیخانوف نے اس پر خصوصیت سے زور دیا ہے کہ ایک مارکسی کا حقیقی فریضہ یہی ہے۔ اس نے مارکسسٹوں اور روشن خیالوں کے مابین تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روشن خیال ادیب ادب کے ذمے خاص فرائض سونپتا ہے اور خاص تقاضوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے لیکن ادب کی جانچ کرتے وقت وہ خیال پرستی کی نگاہ سے کام لیتا ہے ۔ اس کے برعکس مارکسی ادیب کسی ادبی تخلیق کے ان اسباب کی وضاحت کرتا ہے جنہوں نے اسے جنم دیا۔
جب پلیخانوف نے درست طور پر مارکسسٹوں کے معروضی اور سائنسی طریقہِ تنقید کا قدیم موضوعی طریقہِ تنقید سے مقابلہ کیا اور اس نے عظیم خدمت انجام دی اور آنے والی مارکسی تنقید کے لیے سچا راستہ بنادیا۔
یہ خیال نہ کرلینا چاہیے کہ پرولتاریہ کی خصوصیت محض خارجی اسباب کو دیکھنااور تجزیہ کرنا ہی ہے۔ کیونکہ مارکس ازم صرف سماجی نظریہ نہیں جو خارجی اسباب کی وضاحت کرتا ہو، بلکہ وہ تعمیر کا عملی پروگرام بھی ہے ۔ اسباب اور واقعات کو چھانے پھٹکے بغیر تعمیر کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کوئی مارکسی اپنے گرووپیش کے مظاہر کی معروضی پہچان نہیں کرتا تو وہ مارکسسٹ نہیں ہے لیکن ہم ایک سچے مارکسسٹ سے اس سے زیادہ مطالبہ کرتے ہیں ۔اس کا کام اپنے ماحول پرپوری طرح اثر ڈالنا بھی ہے ۔
مارکسی تنقید نگار ادبی ستارہ شناس یا منجم نہیں جو ہر بڑی چھوٹی ادبی تحریک کے ناگزیر قوانین حرکت کی وضاحت کرتا رہے۔ اس کا کام اس سے زیادہ ہے۔ وہ مجاہد بھی ہے اور معمار بھی ۔اس لحاظ سے عہد حاضر کی مارکسی تنقید کا اہم اور بلند پہلو چھان پھٹک ہے۔
8
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادبی شخصیات کی چھان پھٹک کا معیار کیا ہو؟۔ آئیے پہلے مافیہ کے نقطہ نظر سے اس پر غور کریں۔ یہاں ہر بات واضح ہے۔کیونکہ اس میں بنیادی معیاری پرولتاری نقطہ نگاہ ہے یعنی ہر وہ شے جو پرولتاریہ کی ترقی اور کامیابی میں مدد کرتی ہے خوب ہے اورہر وہ شے جو اس کی ترقی اور کامیابی کے راستے کاروڑا بنتی ہے نا خوب اور بدتر ہے۔
مارکسی نقاد کو ہر ادبی تخلیق کے بنیادی رجحان کو معلوم کر نا چاہیے کہ وہ کدھر لے جانا چاہتا ہے اور اس بنیادی سماجی متحرک خیال کو جو اس ادبی تخلیق میں سے اپنے تجزیے کی بنیاد بنانا چاہیے ۔ ادبی تخلیق کے سماجی مافیہ کی چھان پھٹک آسان کام نہیں ہے۔ مارکسی نقاد کو بہت حساس اور ماہر ہونے کی ضرورت ہے۔ اسے صرف مارکسی نظریات اور انداز فکر کی تربیت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں ادبی ذہانت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر تنقید کا کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ ایک صحیح عظیم ادبی تخلیق کو مختلف پہلوؤں سے تولنا اور جانچنا ہوگا اور اس کے لیے کوئی تراز ویا تھر مامیٹر مقرر کر کے استعمال کرنا مشکل ہے۔ اس کے لیے سماجی لحاظ سے ذکی الحس ہونا ضروری ہے ۔مارکسی تنقید نگار کو ایسی ادبی تخلیقات کی ستائش تک اپنے کو محدود نہ رکھنا چاہیے جو عصری مسائل سے متعلق ہیں۔ اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایسی ادبی تخلیقات کی جو درپیش مسائل سے متعلق ہوں بڑی اہمیت ہے۔ لیکن ایسی تخلیقات کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے جو بادی النظر میں درپیش مسائل اور ابھرے ہوئے سوالات سے دور کارشتہ تو رکھتی ہوں لیکن جب اُن کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو کہ وہ سماجی زندگی کو متاثر بھی کر رہی ہیں ۔ اس بات کو اس طرح سمجھاجاسکتا ہے کہ جس طرح سائنس سے مطالبہ کرنا کہ وہ صرف درپیش عملی کاموں کی تکمیل میں ہی مدد کرے ایک بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب سائنس بعض مجرد مسائل حل کرے تو وہ بہتثمر آور ثابت ہوتی ہے ۔ یہی صورت بعض ادبی تخلیقات کی بھی ہے۔
جب ایک ادیب یا شاعراگر وہ پرولتاری نقطہ نگاہ رکھتا ہے درپیش مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتا ہے یا کلچر مبادیات کی چھان پھٹک کرتا ہے تو ایک نقاد آسانی سے اُلجھ سکتا ہے کیونکہ ایسی صورتوں میں جانچنے کے لیے ابھی تک کوئی درست معیار ہمارے پاس نہیں۔ اور دوسرے ایک جرات مندانہ بات بھی ہے کہ ہم ابھی تک مسائل کے قطعی حل کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ سوالات اٹھا کر ان کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ کسی حد تک ہم ایسی ادبی تخلیقات کا ذکر کر رہے ہیں۔ جس کا موضوع عصری مسائل ہیں۔ کوئی فنکار جو اپنی تخلیقات میں ہمارے پروگرام کی مکھی پرمکھی مار دیتا ہے وہ گھٹیا فنکار ہے ۔وہی فنکار قابل قدر ہے جو نئی راہیں تلاش کرتا ہے اور جو ایسی فضا میں اڑتا ہے جہاں منطق اور اعداودشمار ابھی تک نہیں پہنچ سکے ہیں ۔ یہ جانچنا کہ کسی فنکار نے حقیقت اور کمیونزم کی بنیادی امنگوں کو کس حد تک درست طور پر ملایا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہاں بھی درست نتیجہ قارئین اور نقادوں کی آراء کیٹکراؤ سے ہی برآمد ہوسکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نقاد کا کام غیر ضروری یا غیر اہم ہے اور کسی فنکار کو جانچنے کا کام کہ وہ درست ہے یا نادرست ،قارئین پر ہی چھوڑ دیا جائے۔
کسی ادبی تخلیق کے سماجی مافیہ کا اندازہ کرنے میں اس تخلیق کادوبارہ پرکھنا بہت اہم ہے جو پہلے تجزیے میں ایک ایسے موضوع سے تعلق رکھتا نظر آیا جو معاندانہ تھا ۔ یہ بہت اہم اور ضروری بات ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کے رویے کو جانیں اور ایسے عینی گواہوں کے بیانوں کوجو مختلف سماجی پس منظر رکھتے ہیں کام میں لائیں۔ ان سے نتائج نکالنے میں مدد مل سکتی ہے ۔زندگی کے مختلف مسائل کی جانکاری ہمارے علم میں اضافہ کرسکتی ہے۔ وہ مارکسی نقاد جو کسی فنکاریا اس کی تخلیق کو مثال کے طور پر اپنی تنقید میں پیٹی بورژوا قرار دے، اس فنکار یا اس کی تخلیق کو ٹھکرانہ دینا چاہیے۔ اس سے بھی استعفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مارکسی نقاد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کی دوبارہ چھان پھٹک کرے۔ مگر اس لیے نہیں کہ وہ تخلیق کیوں وجود میںآئی اور اس کے کیا کیا رجحانات ہیں بلکہ اس لیے کہ اپنے تعمیری کاموں میں اسے کام میں لایا جائے۔ میں نے جو کچھ پہلے کہا ہے اس کی وضاحت کرناچاہتا ہوں کہ معاندانہ ادب اگر اس کی کچھ افادیت بھی ہو لیکن وہ نقصان رساں اور مسموم اثرات بھی چھوڑسکتا ہے اور انقلاب دشمن پروپگنڈے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔لیکن یہ بات سنسر شپ والوں کے سوچنے کی ہے نہ کہ مارکسی نقادوں کے لیے۔
(جاری ہے۔)