اولیانوف خاندان اس قصبے کے بدصورت اور بے کشش علاقے ،جسے Old Crownکہا جاتا تھا، میں سٹیریلتسکایا گلی میں ایک کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔یہ علاقہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا،جوان غریبوں کی پسندیدہ پکنک منانے کی جگہ تھی،جو نیچے دریا ئے والگاکے کنارے آباد تھے۔وہ لوگ ہر اتوار یہاں آکر پکنک مناتے تھے اوراپنے پیچھے گھروں میں تنکوں کا ڈھیر باقی ہفتے کے لیے جلانے کے لیے چھوڑ آتے تھے۔اسی گھر میں لینن نے جنم لیا۔اولیانوف خاندان کے افراد کے لیے یہ گھر ایک ایسے قید خانے کی ماند تھا،جس کی سلاخوں کے پیچھے سے وہ قیدیوں کی طرح پکنک منانے والے ہجوم کو جھانک کر دیکھتے تھے۔تین سال کی مدت میں اولیانوف خاندان نے کئی ایک کرائے کے گھر تبدیل کیے۔آخرکاردس سالوں کی تگ ودوکے بعد ایلیا نے ماسکو گلی میں ایک کشادہ اور آرام دہ گھر خریدلیا،جس میں ایک با غ بھی تھااور اولیانوف خاندان کے افراداس گھرمیں سمبرسک کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے تک رہے۔ اولیانوف خاندان کے افراد نے اس قصبے میں ابتدائی سال انتہائی تنہائی کے عالم میں گزارے۔کیوں کہ یہ قصبہ طبقاتی تفریق کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ دریائے والگا کے دونوں کناروں پر غریبوں کے خستہ حالت اور غلیظ گھر وندے تھے۔تاجروں کے گھر بھی انہی کناروں پر واقع تھے۔ان کی آبادی کے علاقے کو New Crownکہا جاتا تھا،جس کے گھر وں کی بلند دیواریں اور فصیلیں اشرافیہ طبقے کے بڑے بڑے گھروں اور حویلیوں کی نشاندہی کرتی تھیں۔آبادی کا یہ علاقہ Old Crownسے جدا ہوتا تھا،جہاں نچلے اور درمیانے درجے کے سرکاری ملازموں کے گھر واقع تھے۔
سمبرسک والگا کے کئی شہروں کی نسبت زیادہ پرانا نہیں تھا۔یہ سترہویں صدی میں قائم ہواتھا۔یہاں پر سٹینکا رازان کی زیرِ قیادت ایک بہت بڑی کسان بغاوت نے جنم لیا۔اس بغاوت کو زار نے بری طرح کچل دیا تھااور اس کے رہنماؤں کو پھانسی دے دی تھی۔پھر کئی نسلوں کے بعدیہاں پگاچوف کی زیرِ قیادت ایک اور کسان بغاوت نے سر اٹھایا،جس کا انجام بھی اول الذکر بغاوت سے کچھ مختلف نہیں ہواتھا۔زار نے اسے بھی بری طرح تشدد کے ذریعے ختم کردیا اور اس میں حصہ لینے والے بہت سے کسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اولیانوف خاندان سمبرسک کی مقامی سماجی تشکیل میں زیادہ خوش نہیں تھا۔ایلیااپنے نئے عہدے کے باوجود سماج میں کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا تھا۔کیوں کہ وہ روسی نسل سے نہیں تھا۔اس کی غربت نے اسے ایک انتہائی گھٹیا اور سستے سے گھر کو کرائے پر لینے پر مجبور کیا۔اس کیچہرے کے کالموک خدوخال کی وجہ سے سب اس کے خلاف طرح طرح باتیں کرتے تھے۔کیوں کہ تاتار، کالموک اور شیواش قوموں کو یہاں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا،جو بہت کم تعداد میں یہاں رہائش پذیر تھیں۔ان کا درجہ سماج میں انتہائی پست اورگھٹیا تھا۔ایلیا نے ان تمام چیزوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا۔وہ اپنے کام میں اس قدر مصروف رہتا تھا کہ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ مقامی لوگوں سے کسی قسم کے سماجی تعلقات استوار کر سکتا۔لہذااس نے Potemkinسکولوں کا جائزہ لیا،جو سرکاری رجسٹروں میں تو درج تھے۔ لیکن ان کا کہیں بھی کوئی وجود نہیں تھا۔اس کے برعکس بہت کم علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں جاری تھیں۔ ایلیا کا مقصدمفلس کسانوں کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا تھا۔گبرنیا میں کچھ جاگیردار اپنی جاگیروں کو جدید خطوط پر استوار کررہے تھے۔وہ صنعت اور کارخانوں میں سرمایہ کاری کررہے تھے،جو پڑھے لکھے مزدوروں کی ضرورت کا تقاضا کرتی تھی۔لیکن سمبرسک میں ایسا کچھ نہیں ہورہا تھا۔یہاں ابھی تک جاگیردارقدامت پسند اور انتہائی پس ماندہ تھے اور جدید صنعت،مشین اور کارخانوں کو جاگیرداری کے لیے خطرناک تصور کرتے تھے۔ ماریا اس ماحول میں خود کو انتہائی تنہا محسوس کرتی تھی۔وہ جب اپنی ہمسائی دائی سے ملتی تھی تو اسے تنہائی سے نجات پانے کا احساس ہوتا تھا اور وہ کچھ لمحے پر مسرت محسوس کرتی تھی۔وہ اس کیفیت سے فرار پانے کے لیے خود کو گھریلو کا م کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رکھتی تھی۔اب اولیانوف خاندان بھی عددی لحاظ سے بڑھ رہا تھا۔دو سال بعدایک لڑکی اولگا (اولیا)کی ولادت ہوئی اور1874ء میں ایک لڑکے ڈمٹری متیاکی پیدائش ہوئی ۔
سمبرسک گبرینا میں چند سال کام کرنے کے بعد ایلیا کو سینٹ ولیدیمیر کے Orderسے نوازا گیا اور وہ سرکاری ریاستی کونسلر کا لقب پا کراشرافیہ طبقے میں شامل ہوگیا۔علا وہ ازیں وہ انسپکٹر سے ڈائریکٹرکے عہدے پر ترقی بھی کر گیا۔اس کی نئی سرکاری حیثیت جنرل کے عہدے کے برابر تھی۔وہ سونے سے کشیدہ کاری کی ہوئی نیلی وردی پہنتا تھااور لوگ اسے جنابِ عالی کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔اس وقت وہ چالیس برس کا تھا۔اس نے زار کے خلاف کبھی بھی بغاوت کے رحجان کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔وہ کبھی بھی انقلابی حلقوں کے قریب نہیں گیاتھا۔وہ زارحکومت کا وفادار ملازم اورعقیدے کے لحاظ سے پکا یونانی آرتھوڈکس تھا۔وہ بہت محنت سے اس مقام پر پہنچا تھا۔اس کو یقین تھا کہ دوسرے لوگ بھی یہ سب کچھ محنت سے حاصل کرسکتے ہیں۔
ایلیا ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کرتا تھا،جو زارشاہی کی بیخ کنی کرنا چاہتے تھے اور وسیع پیمانے پر ہمہ گیر اصلاحات یا انقلاب لانا چاہتے تھے۔وہ اس قسم کی باتوں کو زار شاہی کے خلاف نافرمانی پر محمول کرتا تھا۔اس کے نزدیک یہ سب ریاست اور کلیسا کے خلاف گستاخی اور گناہ ہیں۔اسے اس بات کا بالکل بھی ادراک نہیں تھا کہ مظلوم صرف نافرمانی اور انقلاب کے ذریعے ہی اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔اس کے ذہن میں جوانی کی یادوں میں دسمبرسٹ بغاوت کی بیخ کنی ابھی تک تازہ تھی۔پھر اس کے ذہن میں وہ دہشت اور خوف بھی تازہ تھا، جو پیٹراشی وسکی کے حلقے کی تباہی کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ 1848ء کے بعد تمام یورپ میں انقلابیوں کی بہت بڑی شکست نمودار ہوئی۔زار نے روس میں ہر ایک بغاوت کوظلم و تشدد سے کچل دیا۔اس صورتِ حال نے انقلابیوں کو ناامیداور مایوس کردیاتھا۔نکولس اول کے دورِ اقتدار کے آخری سالوں میں،جب ایلیا کازان یونی ورسٹی میں پڑھ رہا تھاتو طالب علموں اور اساتذہ پرسرکاری جاسوس کڑی نگرانی رکھتے تھے۔ ایلیانے نکولس او ل کے ہولناک جبر کے زمانے میں پرورش پائی۔اس وقت یونی ورسٹیوں میں طلبا خفیہ طور پر اکٹھے ہوکر دسمبرسٹ شاعر رائیلئیف کے نغمات گاتے تھے۔ایلیا نیکولائی ایچ بعض اوقات ا ن نغموں کو اپنے بچوں کو سنایا کرتا تھا،جب وہ جنگل کی سیرکے دوران قصبے سے باہر محفوظ فاصلے پرہوتے تھے۔(4)ان جبر وتشدد کے دنوں میں اگر کوئی تھوڑا سا بھی زار کے خلاف بغاوت کا جزبہ رکھتا تھا تو اسے کڑی سے کڑی سزا دی جاتی تھی۔ان سب باتوں نے ایلیا کو قدامت پسند بنا دیا تھا۔
ایلیا ایک شریف،ایمان دار اور خوددار آدمی تھا۔اس نے کبھی بھی اپنے افسروں کی خوشامد کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔اسے مفلس کسانوں کی درماندہ اور پس ماندہ زندگی کا گہرا احساس تھا۔وہ حقیقت میں مفلس کسانوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا۔اس کے نزدیک ان کی بہتر زندگی کاراز تعلیم میں پوشیدہ تھا۔وہ ان کے لیے مزید سکول کھولنا چاہتا تھا۔اسے کسانوں کی سخت اور جفاکش زندگی اور ناگفتہ بہ حالات پر بہت افسوس ہوتا تھا۔وہ تعلیم کے ذریعے ان کی حالت سدہارنا چاہتا تھا۔لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایلیا لوگوں کی خستہ حالت اور پریشانی سے بے خبر تھا۔بلکہ وہ ان سے بخوبی واقف بھی تھا اوربے حدحساس بھی ۔اس کے تمام معاصرین نے اسے انسان دوست کے طور پیش کیا ہے۔اس نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں وقف کی تھی۔وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ روس تبدیلی کے راستے پر جارہا ہے۔اس کا خیال تھا کہ رعیتی غلاموں کی نجات ہونی چاہیے ،انہیں تعلیم یافتہ ہونا چاہیے اور انہیں ان کی محنت کاثمر ملنا چاہیے۔وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوتِ نجات سے بھی بخوبی باخبر تھا۔اگرچہ وہ آرتھوڈکس کلیسا کا پرجوش رکن تھا۔لیکن وہ سلاوفلز کی طرح انتہا پسندبھی نہیں تھا،جو قوم کی روحانی برتری میں یقین رکھتے تھے اور صنعت اور مشین کے سخت محالف تھے۔اسے زار سے تبدیلی، ترقی اور اوپر سے اصلاحات کی توقع تھی۔جب الیگزینڈر دوم نے رجعت پسند جاگیرداروں کی اصلاحات کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے رعیتی غلاموں کی نجات ،انتظامیہ،عدلیہ اور تعلیم میں اصلاحات کا عمل شروع کیاتو ایلیا کے نزدیک اس کے یہ اقدام شان دار حیثیت کے حامل تھے۔اس نے اس عمل کو بہ نظرِ تحسین دیکھا۔
ا یلیا اس بات سے بھی با خبر تھا کہ کچھ انقلابیوں نے زار کی آزاد خیالی کو محض ایک ریاکاری اور اصلاحات کے عمل کو فریب قرار دیاتھا۔انہوں نے کہا تھاکہ رعیتی غلاموں کی نجات انہیں زمینوں سے محروم کردے گی اور انہیں ان کے سابقہ آقاؤں کا دوبارہ محتاج اور غلام بنادے گی۔ اس قسم کی تنقید کی وجہ سے دوسال بعد چرنی شوفسکی کو پیٹر اور پال قلعے میں قید کردیا گیاتھا۔لیکن اصلاحات کے بارے میں ایلیا کے کوئی بھی ایسے خیالات نہیں تھے۔بلکہ وہ انہیں روس کی ترقی اورخوشحالی پر محمول کرتا تھا۔اصلاحات کے سلسلے میں جب حکومت نے تعلیم کے بارے میں نئی حکمتِ عملی وضع کی اور ایلیا کو سمبرسک میں نئے عہدے پر تعینات کیا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔اس نے نژنی۔نوگوروڈ کی پرسکون زندگی کو چھوڑ کر پسماندہ اور درماندہ سمبرسک کی اکتا دینے والی زندگی کو منتخب کیا۔اس نے رعیتی غلاموں اور ان کے بچوں کو تعلیم دینا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔اس نے تعلیم کو روسی سماج کی برائیوں کا علاج اور روس میں ہونے والی اصلاحات کو لاحق خطرات کے تدارک کا ذریعہ تصور کیا۔اس مفہوم میں ایلیا انقلابی ہرگزنہیں تھا۔بلکہ وہ اصلاح پسند تھا،کیوں کہ وہ تعلیم کے ذریعے سماج کی اصلاح اور بہتری کرنا چاہتا تھا۔لیکن اسے شائد یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ تعلیم کی فصل تو بہت سست روی سے پکتی ہے۔اس نے روسی اقلیتوں شیواش اور ماردوف قوموں کے بچوں کی تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا۔کیوں کہ یہ اقلیتیں زارِ روس میں تعلیم کی نعمتوں سے بے بہرہ تھیں۔اس نے ان کے لیے سکول کھولے اور انہیں پڑھانے کے لیے اساتذہ کو تربیت دی۔ان اساتذہ میں سے ایک بعد میں شیواش ٹیچرز انسٹیٹیوٹ کا ڈائریکٹر بن گیااور ایلیا کاتا حیات دوست رہا۔یہ زمانہ یعنی 1873ء کا تھا،جب دانشور اصلاحات کے فریب اور طبقاتی کردارکے بارے میں کسانوں کی آنکھیں کھولنے اور انہیں نئی غلامی کے خلاف بیدار کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔جنہیں نرودونک پسند (عوام دوست)کہا جاتا تھا۔سمبرسک گبرینا میں یہ نرودونک کے پرچارک اپنی تمام ترتوجہ کسانوں پر مرکوز کیے ہوئے تھے۔پیٹرسبرگ اور ماسکو سے دہقانوں میں جاکر نرودونک دانشور کسانوں کو اصلاحات کے فریب کے بارے میں بتاتے تھے ۔اس کے برعکس ایلیا بھی کسانوں کے پاس جاکر انہیں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بتانے کی کوشش کررہا تھا۔لیکن ایلیا اور نرودونک کے راستے الگ الگ تھے۔یہی دونوں راستے بعد میں اصلاحات اور انقلاب کے نظریات میں جا کر منتج ہوئے۔
1874ء میں نرودونک پسندمہم جوئی کا خاتمہ ہوگیا اور بہت سے نرودونک قید کردیے گئے۔ایلیا نے اس قسم کے دانشوروں سے کنارہ کشی کیے رکھی۔نرودونک پسندبری طرح مایوس ہوئے۔کیوں کہ جاگیردار زار کو نجات دہندہ تصور کرتے تھے۔ایلیا کو1884ء میں وزارتِ تعلیم نے انتباہ کیا تھا کہ وہ ایک برس بعد اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے والا ہے۔وہ اس وقت ترپن برس کا ہوچکا تھا۔اسے امید تھی کہ وہ ساٹھ برس کی عمر تک اپنی خدمات بخوبی انجام دے سکتا ہے۔لیکن اب وزارتِ تعلیم الیگزیندردوم کے عہد میں جاری ہونے والی نیم آزاد خیال تعلیمی حکمتِ کو ختم کرنے والی تھی۔نئے زار نے اب فیصلہ کیا تھا کہ نچلے طبقات نے بہت تعلیم حاصل کرلی ہے، جوزار شاہی سے وفاداررہنے کے لیے کافی ہے ۔لہذا اب روس میں ،مزید پرائمری سکول کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے موجود سکولوں کی نگرانی کی ذمہ داری روشن خیال اساتذہ سے اب پادریوں کے ہاتھوں منتقل ہوگئی تھی،جو1861ء کی اصلاحات سے پہلے ان سکولوں کی نگرانی کرتے تھے۔اب کسان بچوں کی تعلیم کے مواقع تقریباََ ختم ہوچکے تھے۔یہ ردِ اصلاحات کوششیں دراصل نیم آزادخیال زمانے کے خلاف ردِ عمل کا حصہ تھیں۔جاگیردار اشرافیہ میں قدامت پسند عناصر کسانوں پر اپنا مکمل غلبہ قائم رکھنا چاہتے تھے اور یورپی اثرات اور یورپی یلغار کوروکنا چاہتے تھے،جس نے ربع صدی سے روس کو چاروں اطراف سے محصور کررکھا تھا۔اس سلسلے میں نیا زار ان کی ہرقسمی مدد کررہا تھا۔کیوں کہ اس کا خیال تھاکہ اس کا والد یعنی سابقہ زار الیگزینڈر دوم اپنے آزاد خیال نظریات اور جدت پسندی کا شکار ہوا تھا۔یقیناً اب رعیتی غلامی کی بحالی ناممکن تھی۔کیوں کہ سرمایہ داری کی تاسیس کے ساتھ ساتھ کسانوں کی بغاوت کاخطرہ بھی پورے روس پر منڈلارہاتھا۔لیکن اشرافیہ اور زار نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ ایسا ہوجائے۔زار کے گورنروں اور پولیس نے عدلیہ پر بھی اپنی پوری گرفت قائم کرنے کی کوشش کی۔یونی ورسٹیوں کو خودمختاری سے محروم کردیاگیا۔کیوں کہ وزارتِ تعلیم ان کے پرنسپلوں اور پروفیسروں کو تعینات کرتی تھی۔طلبا تنظیموں پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔انقلابی ادب تو کیا انتہائی معتدل قسم کے روسی آزادخیال ادیبوں کی کتابوں کو بھی لائبریریوں سے نکال باہر پھینک دیا گیا۔اس صورتِ حال میں دانشور آرتھوڈکس کلیسا،عظیم روسی شاونزم،پان سلاوازم اور زار شاہی کے سامنے جھک گئے۔
ایلیا کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا،جن پر اس کے کام اور زندگی کا دارومدار تھا۔اس سے اس کے اس تصور کو بھی بہت بڑا دہچکا لگا،جس کے تحت وہ زار حکومت اور روسی عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔وہ جانتاتھا کہ جس کام کے لیے اس نے اپنی تمام ترتوانیاں صرف کردی تھیں،اب نقش بر آب ہوگیا تھا۔علاوہ بریں اس کی کچھ ذاتی پریشانیاں بھی تھیں۔ملازمت سے سبک دوش ہونے کی پریشانی اور خاندان کے عدمِ تحفظ کا احساس بھی اسے لاحق تھا۔اس کے پاس کوئی جمع پونجی بھی نہیں تھی۔نیزدوسرا کوئی ذریعہِ آمدنی بھی نہیں تھااور جو پنشن اسے اپنے عہدے سے سبک دوشی کے بعدملنے والی تھی،اس قدرنا کافی تھی کہ اس سے اس کے خاندان کا گزر بسر ہونا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ایلیا کے دوست کوشش کررہے تھے کہ اس کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہوجائے۔ آخرکار وزارتِ تعلیم نے اس کی مدتِ ملازمت میں پانچ سالوں کی توسیع کردی۔اس سے اس کی پریشانیوں کی کسی حد تک تلافی توہوگئی۔لیکن اس کے لیے نئے نصاب کے مطابق کام کرنا انتہائی مشکل تھا،جسے وہ لغو تصور کرتا تھا۔کیوں کہ نئی تعلیمی حکمتِ عملی ایلیا ایسے آزاد خیال ماہرینِ تعلیم کے لیے بے کار اور بے معنی تھی۔اس حکمتِ عملی اور تعلیمی نصاب نے اس کی برسہابرس کی محنت اور سخت کوشی سے مستحکم ہونے والے سکولوں کے تعلیمی ماحول کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ ایلیا نے یہ سب پریشانیاں اپنے بیوی بچوں سے چھپانے کی بہت کوشش کی اور انہیں کبھی بھی اپنے گھر میں زیرِ بحث نہ لایا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے