آؤ کچھ دیر چلیں درد کی دنیا سے اُدھر
خود قریبی کے چمن زار میں صحرا سے ادھر

ایک عالم ہو کہ ہونے کی نفی ہو جس میں
ایک منظر ہو کہ ہو چشمِ تماشا سے ادھر

نہ ’’سبکساریِ ساحل‘‘ہو نہ گِرداب کا غم
ساعتِ خوش سے پرے ، وحشت دریا سے ادھر

یاد کا شہر ہو جادو ئے فراموشی میں
ہر تعلق سے ورا، عہد شناسا سے ادھر

آؤ تعمیر کریں قریہِ بے نام ونشاں
شہرِ موجود کے اِس خوابِ سراپا سے اُدھر

آج کچھ دیر ٹہر جائے ذرا دم لے لے
شدتِ کرب کا لشکر دلِ تنہا سے اُدھر

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے