حلقہ ، دار و رسن کے درمیاں
پیار ہے دل کے وطن کے درمیاں
رہ گیا اک ہاتھ بھر کا فاصلہ
اب ہمارے سنگ زن کے درمیاں
جانتے ہیں آپ خوشبو ہے سبب
پھول کلیوں اور چمن کے درمیاں
ان میں تیری یاد کی پرچھائیاں
اک سکوں کوہ و دمن کے درمیاں
جو ہمیں لے جاتا ہے تیری طرف
راستہ ہے ایک بن کے درمیاں
خوشبوؤں کی ایک بستی ہو جہاں
ایک سندیسہ پیراہن کے درمیاں
اپنے مولا کے حسیں شاہکار کو
دیکھ لیتا ہوں کفن کے درمیاں
یہ مرے حالات کی تعبیرہے
بے کلی سی ہے سخن کے درمیاں
جانے کب ہم نے گزاری تھی مرادؔ
زندگی اک بانکپن کے درمیاں