کپٹلزم میں جب صنعتی انقلاب ہوا تو اس نے سیکرلرزم اور جمہوریت کو جنم دیا ۔قبل ازیں وہاں پر جاگیرداری، رجعت پسندی اورعقیدے کا غلبہ تھا ۔ جبکہ سیاسی نظام بادشاہت تھا۔ صنعت کاری اور بورژوازی نے جمہوریت پیدا کی اور جمہوریت کی فضا میں سیکولرزم اور روشن خیالی نے پرورش پائی۔ روشن خیالی یا لیبرل ازم کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے عقائد کا بلا کسی خوف اور جبر کے اپنے ضمیر کے مطابق اظہار کر سکے ۔ر یاست کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ فرد کے عقائد کا احتساب کرے ۔ ریاست صرف اُس وقت مداخلت کرے گی ۔جب کسی فرد ، فرقہ ، یا مذہب کا عمل فساد کا باعث ہو۔
کپٹلزم کے لوگ فرسودہ اخلاقی ، قانونی اور سماجی روایات سے انحراف کرتے ہیں۔ نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق نئی اخلاقیات اور نئی روایات واقدار جنم لیتی ہیں ۔ رجعت پسندوں کے خیال میں عورت کو پردے میں رکھنا ضروری ہے جب کہ سرمایہ داری والے کے نزدیک پردہ ایک غیرفطری چیز ہے اور عورت کو پردے میں قید رکھنا سراسر زیادتی ہے۔ رجعت پسندوں کے نزدیک عورت اور مرد کا آزادانہ میل جول گناہ ہے ۔ جب کہ صنعتی سماج کے لوگوں کے نزدیک مخلوط تعلیم اور دیگر مقامات پر عورت اور مرد کا میل جول نہ صرف یہ کہ معیوب نہیں ہے بلکہ معاشرے کی ترقی کے لیے ایسا ہونا سود مند اور ضروری ہے۔
قرون وسطیٰ میں یورپ میں چرچ کا مکمل غلبہ تھا۔ سائنس فنونِ لطیفہ اور ہر قسم کے عقلی علوم کے دباؤ میں تھے ۔ مگر صنعت کاری، بورژوازی اور سرمایہ داری نظام کے ظہور میں آنے سے تحریک احیائے علوم اور روشن خیالی نے جنم لیا ۔ مفکرین اور سائنس دانوں نے آہستہ آہستہ زبان کھولنا شروع کی ۔اُ ن کے خیال میں جو درست تھا ‘تقریر وتحریر میں بیان کرنا شروع کیا۔ سائنس دانوں میں گیلیلیو کی مثال بہت واضح ہے ۔ سیاسی مفکرین اور فلسفیوں نے ایسے نظریات اور فلسفوں کو پیش کیا جو اُن کے دل کی آواز تھا اور جو اُن کے خیال میں عوام کی فلاح کے لیے ضروری تھا خواہ وہ ریاستی اور مذہبی فکر سے متصادم تھا۔
روشن خیال لوگوں نے انسان کے متعلق فرسودہ تصورات کی اصلاح کی ۔ روشن خیالوں نے کہا کہ انسان فطرتاً نیک ہے۔اور اس کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ انسان خوب سے خوب تر کی طرف گامزن ہے۔ وہ تجربات کرتا ہوا غلطیاں کرتا ہوا‘ اور غلطیوں سے سبق سیکھتا ہوا نا مکمل کی طرف محوسفر ہے ۔ روشن خیالی کی رہنمائی عقل ہے ۔ علم اور تجربات کو بنیاد بنا کر انسانوں کو ادنیٰ سے علیٰ کی طرف لیے جارہی ہے۔عملاً دنیا کی ترقی اسی انداز میں ہوئی ہے۔ روشن خیالی اس بات کو مد نظر رکھتی ہے کہ جو کچھ بھی کسی کو سچ نظر آتا ہے ، اس کا برملا اظہار کر دیا جائے اور وہ راستہ اور وہ نظام اختیار کیا جائے جو انسانوں کی بھلائی کے لیے ہو، چاہے وہ عقیدے کے مطابق نہ ہو۔
ترقی یافتہ ممالک نے تو روشن خیالی اور ترقی پسندی کو مکمل طور پر اپنا لیا ہے ۔ اب ترقی پذیر ممالک کے دانش وروں کا کام ہے کہ وہ ایسے طریقے سوچیں کہ اپنی اپنی قوم اور معاشرے کو روشن خیال بنا سکیں۔ کیونکہ اسی میں ان کی نجات ہے ۔ جمہوری اور بردبار معاشرہ ہی پر امن اور ہموار طریقے سے ترقی کرسکتا ہے ۔ انسانی حقوق اور آزادیوں سے مالا مال معاشرے نہ صرف مادی ومعاشی ترقی میں نہایت تیز رفتار ہیں بلکہ ان کی اخلاقیات کا معیار بھی نہایت اعلیٰ ہے۔ بشرطیکہ اخلاقیات کو شراب اور ننگی ٹانگوں تک نہ محدود کردیا جائے۔ترقی یافتہ معاشرے تہذیت یافتہ بھی ہیں ان میں رواداری اور تحمل بھی ہے ۔وہ مصنوعات اعلیٰ اور پائیدار بناتے ہیں۔ ہر قسم کی ملاوٹ سے پرہیز کرتے ہیں۔ خواہ مخواہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتے وہاں فرقہ ورانہ سر پھٹول نہیں ہے ۔ ساس نے بہو کو سولی پر نہیں لٹکایا ہوا ہے ۔ وہاں قومی سطح پر صحت کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ ڈرگ مافیا اور ادویات میں ملاوٹ کرنے والوں کے لیے انتہائی سخت سزائیں ہیں۔ رشوت کی لعنت بہت کم ہے ۔ حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ، وہ آنے والی نسلوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات کا خیال کرتے ہیں ۔ قدامت پسند معاشروں میں صورت حالات بالکل مختلف ہے ۔ ہر قسم کا عیب اور برائی ان میں موجود ہے۔ یورپ اور امریکہ کی ترقی کاراز جاننے کے باوجود افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ قدامت پسندوں کی طرف سے لوگوں میں یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے ۔ اور ان کے ذہنوں میں یہ بات سختی سے بٹھائی جارہی ہے کہ ان کی پسماندگی کی وجہ قدیم اخلاقیات روایات اورقوانین اپنانے سے دوری ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جن ممالک نے ترقی کی ہے ۔ انہوں نے اپنے ماضی سے ہٹ کر سوچ اپنانے سے ہی ترقی کی ہے ۔ اگر وہ بھی ماضی پرست رہتے تو ترقی نہ کرسکتے۔
علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے چند سال پہلے ایک حیران کن انکشاف کیا کہ علامہ اقبال کے بعض خطبات جو علامہ اقبال کی فکر کا نچوڑ ہیں اس لیے شائع نہ ہوسکے کہ انہیں مولویوں کے فتوؤں کا ڈر تھا۔ اس کے باوجود علامہ اقبال صاحب نے کچھ باتیں ایسی کی ہیں جو روایات سے بغاوت کا مظہر ہیں اور بعض فتوے اُن کے خلاف جاری بھی ہوئے۔ جب یہ ایک انتہائی محترم شخصیت کا حال ہے توایک عام دانش ور کے خوف کاہم خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ آزادی اظہار پر نا جائز پابندیوں سے آپ صرف مرید ہی پیدا کرسکتے ہیں جن میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ پابندیوں والے حال اور مستقبل کی ضرورتوں سے نا آشنا ہیں۔ آج نئے قوانین کی ضرورت ہے جن پر جمہوری چھاپ ہو ۔
آج ہر نئی بات ،طریقہ ، دریافت ، اور نظام فوراً ایک ملک سے نکل کر پوری دنیامیں پھیل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں بردباری اور تحمل کی فضا پیدا ہورہی ہے۔ وہاں پر ہر طبقہ اور قوم دوسرے طبقے اور قوم کی بات کو تحمل سے سُنتی ہے اور اگر اُسے اس میں کوئی اچھائی نظر آئے تو فوراً قبول کر لیتی ہے ۔ آج قدیم انداز میں کوئی قوم زبردستی اپنے نظریات دوسروں پر نہیں ٹھونس سکتی ہے۔ چنانچہ اگر اچھائی نظر آئے تو فوراًقبول کر لیتی ہے۔
ضروری نہیں کہ کوئی قوم ٹھو کریں اور زمانے کے تھپیڑے کھاتی ہوئی ہی آگے بڑھے ۔ عقلمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ زمانے کے مطابق چلا جائے قدامت پسندی کو ترک کیا جائے۔ اور ترقی یافتہ عوام کی تقلید کی جائے۔ اس سے ٹھو کریں بھی کم لگیں گی اور جو ترقی حالات کے تھپیڑے کھا کھا کر کسی قوم نے ایک صدی میں کرنی ہے ایسا کرنے سے وہ ترقی پچاس سالوں میں بھی ہوسکتی ہے۔
جدید علوم وفنون تو لازمی ہیں ہی۔ چاہئے کہ انگریزی کی اہمیت کو ہر گز نظر انداز نہ کریں، بلکہ انگریزی زبان پہلی جماعت سے لازمی قرار دینی چاہئے۔
تاریخ معاشرتی علوم کے نصاب پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم اپنی نسلوں کو تنگ نظر، متعصب اور جنگجو بنا رہے ہیں۔ معاشرے میں تشدد عدم رواداری اور نفرت کو فروغ دینے میں ہمارے نصاب کا دخل بھی ہے۔ یہ زہر معاشرے میں سرائیت کر چکا ہے ۔ جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے ۔ اس کا علاج یہی ہے کہ تلافی کے طور پر حکومت تاریخ کے روا دار اور روشن خیال پہلوؤں کو نمایاں کرے۔ نصاب تعلیم میں ایسے ہیروز یا شخصیات کو شامل کیا جائے جو جمہوریت پسند ترقی پسند اور روشن خیال تھے ۔
ہمارا نظام تعلیم طلبہ کو بذریعہ رٹا علم دینے کا کام تو کرتا رہا ہے ۔ لیکن سائنسی رویئے کی ترویج میں ناکام رہا ہے ۔ سائنس پڑھنے والے اکثر طلبہ بھی حصول تعلیم کے بعد تنگ نظر اور بنیاد پرست ہی بن جاتے ہیں۔ سائنسی رویہ توتحقیق وجستجو کی طرف مائل کرتا ہے۔ عقل اور دلیل کے ساتھ بات کرنے اور سننے کی طرف مائل کرتا ہے ۔ لیکن یہاں طلبہ کو ایک حد سے آگے سوچنے نہیں دیا جاتا ۔ زیادہ توجہ ڈگری کے حصول پر مرکوز رکھی جاتی ہے ۔