برصغیر کے سیاسی میدان میں جو سیاسی اور سماجی شخصتیں ابھر کر سامنے آئیں اور اپنی صلاحتیوں اور جرائتمندی کے سبب سارے سندھ بلکہ برصغیر کے آسمان پہ روشنی کے مینار بن کر چمکے، ان میں محمد امین کھوسہ بھی نمایاں طور پر شمار ہوتاہے۔
۔11دسمبر1913میں ٹُھل کے چھوٹے گاؤں عزیز آباد میں جنم لینے والا یہ شخص مٹی کا کچھ اس طرح بنا ہوا تھا جو ایک ہی وقت میں مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا مودودی، علامہ اقبال اور شہید اللہ بخش سو مرو کا مداح اور محبتی تھا۔
وہ جیکب آباد کے ان انگلیوں پہ گنتی جتنے مسلمانوں میں ایک تھا جو علی گڑھ پہنچا۔ وہاں سے اس نے B.Aکی ڈگری تو حاصل کر لی مگر LLBکے دوسرے سال میں اپنے سخت گیر طبیعت اور سیاسی خیالات کے سبب ریسٹکیٹ کیا گیا ۔ وہاں سے واپسی کے بعد مولانا محمد علی جوہر کی زندگی اور جدوجہدپر کتاب لکھ کر سیاست کی میدان میں کود پڑا۔ مولانا محمد علی جوہر وہ پہلا شخص تھا جس نے محمد امین کھوسہ کو متاثر کیا۔ جو ہر کو اپنی زبان پر قابو نہیں تھا۔ اس لیے وہ برصغیر میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکا جس کا وہ مستحق تھا۔ مگر جناح کو سمجھا کر راضی کر کے مسلم لیگ کا ستون بنانے والا کارنامہ بھی مولانا جوہر کے زندگی کے کتاب کا حصہ ہے ۔ ایسا مشورہ تو اس نے قبیلے کے سردار سے چھین کر سعودی عرب کا فرما نروابننے والے سعود کو بھی دیا تھاکہ وہ تمام مسلمانوں کی سربراہی کرے۔دین اسلام کی خد مت کرے مگر اس مشورے پر بے رخی سے تلوار کی طرف اشارے کر کے کہا یہ سلطنت میں نے تلوار کی زور پر حاصل کی ہے۔
اب آؤ ہم دونوں دو دو ہاتھ کریں پھر جوبچے وہ اپنی پالیسیاں لاگو کرے۔ ایسے لہجے پر وہ خاموشی سے سعود کے کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
محمد امین کھوسہ کا زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ جیکب آباد کے کئی بلوچ قبائل کے سردار ، انگریزوں کے بھروسے کے آدمی اور دولت کے دھنی سردار شیر محمد بجارانی کو 1937کے الیکشن میں شکست دنیا تھا۔ وہ ایسا ہی کارنامہ تھا جیسے اسی سال الیکشن میں لاڑکانہ میں سرشاہ نواز بھٹو کو شیخ عبدالمجید کے ہاتھوں عبرتناک شکست کھانی پڑی۔ میر زین الدین سُندرانی کی وفات کے سبب ضمنی انتخاب ہوا جس میں سردار شیر محمد بجارانی امیدوار بنا۔ اس کے مقابلے میں علی گڑھ سے فارغ التحصیل کا نگریسی نوجوان محمد امین کھوسہ آیا ۔ اس زمانے میں شیر محمد بجارانی جس کو انگریزی کے طرف سے مجسٹریٹ کے اختیارات تھے۔ اس کے دبدبے کا یہ حال تھا کہ جو پیر علی محمد شاہ راشدی نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ انگریزوں کے قافلے پر حملہ ہوا مگر ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے بڑی تلاش کے بعد بھی پکڑے نہ جاسکے۔ انگریز نے اپنا دبدبہ برقرار رکھنے کے لیے سوچا کہ علاقے کے ایسے مُعتبر حشمت اور دبدبے والے شخص کو گرفتار کرکے کچھ وقت کیلئے قید رکھا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ انگریز ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے تین مہینوں کے لیے سردار شیر محمد بجارانی کو جیل بھیج دیا۔ ایسے قد آور شخصیت سے محمد امین کھوسہ نے مقابلہ کیا۔ اور سیاسی میدان مارلیا ۔ سارے سندھ میں واہ واہ ہوگیا ۔ اور علاقے کے لوگ حیران رہ گئے۔ سردار شیر محمد بجارانی شکست کا صدمہ سہہ نہ سکا اور جلد ہی مالکِ حقیقی سے جاملا۔
محمد امین خان کھوسہ نے اپنے شاگردی کے زمانے میں جب وہ علی گڑھ میں پڑھتاتھااور علی گڑھ سر سید احمد خان کی ذہن کی پیداوار اور مسلم لیگی فکر کا گڑھ تھا۔ وہاں جواہر لال نہرو کو بُلایا اور اس کے استقبال کا سہرا اپنے سرلیا۔ اس کا ذکر اس نے سائیں جی ایم سید کو لکھے ایک خط میں کہا۔
’’میں عمر بھر تھرڈ کلاس چیز سے متاثر نہیں ہواہوں ۔ جن کو دل دیا ان میں کوئی خوبی ضرور ہوگی۔ پنڈٹ جواہر لال نہرو سے شاگردی کے دور سے واقفیت تھی۔1933-34میں جو طُلباء اُسے زبردستی علی گڑھ لائے۔ ان میں ایک میں بھی تھا۔ جواہر لال نہرو نے آنا قبول کیا نہیں تو کسی دوسرے میں ہمت نہیں تھی‘‘۔
ایسا ہی واسطہ کانگریس کے دوسرے چوٹی کے لیڈر سبھاش چندر بوس سے بھی تھا۔ ان تعلقات کا ذکر وہ اس طرح کرتا ہے ۔’’ سبھاش بابو سے تو بالکل قریبی ناطہ تھا۔ جن خاص آدمیوں نے دہلی میں اسے دوبارہ کانگریس کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا ان لوگوں میں ایک میں بھی تھا‘‘۔ جس شخص کے الیکشن ورک کے لیے ہزاروں میل سفر کر کے نہروخود جیکب آباد آئے۔ وہ کوئی رواجی ہستی تو نہیں تھی!۔
پندرہ سال پہلے جب محمد امین کھوسہ کے چھوٹے بھائی عبدالعزیز کھوسہ کی دعوت پر اس کے گوٹھ عزیز آباد گیا تو اس نے مجھے انکشاف کے انداز میں بتایا کہ سبھاش بابو کو افغان کے راستے جاپان بھیجنے کے کام میں بھی محمد امین کاہاتھ تھا۔ اگر چہ اس کے دلیل میں کوئی بھی حوالہ نہیں ملتا مگر محمد امین کی شخصیت ایسے ارادوں سے لبریز تھی کہ ایسا کام ایسے دیوانہ ہی کرسکتے ہیں۔
شہید اللہ بخش سومرو کی وزارت کے وقت کا نگریس سندھ میں دوحصوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک حصہ کی نمائندگی سائیں جی ایم سید نے کی جو جلدی اصلاحات کے حق میں تھا اور دوسرا دھڑا شہید اللہ بخش کی تھی اور محمد امین کھوسہ اس کا دوست اور حمایتی تھا۔ تاریخ کے اس گزر کو ہٹا کر بھی سید کوئی فیصلہ نہیں دیتا ہے کہ کون درست تھا۔ مگر اِن کانگریسی اختلافات سے مسلم لیگ سندھ میں مضبوط ہوئی۔ اور باقی رہی سہی کسربھر چونڈی کے پیروں اور سادہ بیلے کے پنڈت نے پورا کردیا۔ جن کی کوتاہ نظری اور تعصب کانتیجہ مسجد منزل گاہ کے واقعہ اور بھگت کنور رام کی شہادت کی صورت میں نکلا اور سندھ پونے صدی سے یہ درد سہہ رہا ہے۔
اردو کے نامور شعراء مخدوم معین الدین اور اسرار الحق مجاز کا دوست اور مولانا محمد علی جوہر کا شاگرد ایک سخی دِل کا مالک تھا۔ جو سال دو سال بعد کسی بڑے شہر کراچی یا لاہور آکر، شاہ خرچیاں ،پریس کانفرنسیں کر کے اور دعوتیں اڑا کر پھر غائب ہوجاتا تھا۔ کراچی کا سندھ زمیندار ہوٹل تو اس کی مستقل رہائش گاہ تھا۔ کا مریڈ سوبھو گیا ن چندانڑیں پر جب سُرخے ،قوم پرست مفکر حشو کیول رامانی سے قربت کی وجہ سے ناراض ہوئے تو ان سے اس معاملے پر کچھری کرنے کے لیے امین کھوسہ اور قادر بخش نظامانی نے اسے ہوٹل میں بُلا کر محفل مچائی تھی جس کا دلچسپ انداز میں کامریڈ نے خود بھی ذکر کر لیا ہے ۔
محمد امین کھوسہ اپنے لباس کی وجہ سے اس دور کا چوٹی کا کانگریسی مسلمان رہنما لگتا تھا۔ لمبی شیروانی کوٹ، سفید سوتی شلوار اور بلوچی ٹوپی پہنتا تھا۔ شعلہ بیان مقرر امین کھوسہ شہید اللہ بخش کی شہادت کے بعد کافی دل شکستہ اور ملول ہوگیا۔ اس کی تنہائی اور اجنبیت میں زیادہ شدت آگئی تھی۔ اگر چہ راشدی لکھتا ہے ۔ ’’شہید اللہ بخش اس کے ووٹ سے تو مُستفید ہوتا تھا مگر خیالات سے نہیں‘‘۔ مگر راشدی کے بارے میں کتاب۔’’واجٹ ویراگین جا‘‘ جلد والے خطوط میں جو اظہارکھوسہ صاحب نے کیا ہے ۔ وہ بھی دلچسپی سے سرشار ہے ۔ یہ خطوط محمد امین کھوسہ نے سائیں جی ایم سید کو لکھے تھے جو تعداد میں ہزار سے زیادہ وزن میں من کے قریب ہوں گے ان میں منتخب خطوط بھی ہزار صفحات جتنے ہونگے۔
مذکورہ خطوط کے بڑے بنڈل کو دیکھ کر حیدر بخش جتوئی نے دلچسپ تجسُس او رنصیحت کے انداز میں سائیں جی ایم سید کو کہاتھا۔’’میں نے سمجھا تھا ساڑھے سات سالہ نظر بندی کے عرصے میں کیے گئے مطالعے ، غور وفکر کے بعد عقل آئی ہوگا مگر دیکھنے میں آرہا ہے تجھے کوئی بھی عقل نہیں آئی ہے۔ ایسی خرافات کے طویل خطوط پڑھنے خلافِ عقل اور شیخ چلی جیسی باتوں کی طرف توجہ کرنے سے تجھے آخر کیا فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے پہلے مبہم خیالات اور غلط جذبات کی بنیاد پر کچھ ایسے کام کیے جس کی سزا (نتیجہ) ہم بُھگت رہے ہیں۔ ویسے دوسری مرتبہ ایسی غلطی کرنہ بیٹھو!‘‘۔
’’انجان جاننے والا اور بے سمجھ سمجھنے والا‘‘ والے اس دور کے سندھ میں سید جس کرب اور روحانی تنہائی کا شکار تھا۔اِن خطوط نے سید کو نیا جوش اور جذبہ بخشا تھا۔ در دِ دل کی یہ کہانی سید نے اپنے کتاب ’’جنب گزاریم جن سین‘‘ میں انتہائی کرب اور دکھ بھرے انداز میں بیان کی ہے ۔ ایک خط میں ایوب کی سیاست اور سندھ کے موقع پرست وڈیروں پر طنز کرتے ہوئے لکھتا ہے’’سندھ کے وڈیرے جس طرح ایوب کی خوشامد اور چمچہ گیری میں مصروف ہیں۔ ۔۔ اچھی بات ہے صدر ایوب کو شکار کا شوق ہے پٹھانوں والا شوق نہیں۔۔۔‘‘‘
سائیں جی ایم سید کے بقول’’ ریش دراز، عابد، صاحبِ دل ، بلند ہمت، معاملہ فہم، نصف گوشہ نشیں ، مخلص قومی کارکن تھا۔ جس کا حال اور قال، فکر ، سیاسی نظریہ اور عمل اس قدر معلوماتی اور معنی سے بھر پور تھا ۔ ایسے بلند کردار اور ہرکسی کو منہ پر سیدھا بات کہنے والی ہستی کا ذکر تو پیر حسام الدین راشدی نے بھی کتاب ۔ گالھیون گوت وٹن جون میں کیا ہے۔یاد گیریوں پر مشتمل اس کتاب کو پڑھنے کے سوائے کوئی بھی محقق سندھ کے سیاسی سماجی اور معاشی تاریخ نہیں لکھ سکے گا۔
محمد امین کھوسہ۔ راشدی کے پاس سکھر والے پریس میں ایک مہینہ آکر رُکاتھا۔ ان دنوں میں راشدی برادران ابھی تک دولت اور شہرت کی کے بلندیوں تک نہیں پہنچے تھے ۔ اور بمبئی کی زبان میں ان کے ’’کڑکی‘‘ (مفلسی) کے دن تھے۔ راشدی نے نہایت فراخ دِلی سے لکھا ہے کہ وہ سارا مہینہ ہم اپنے نوکر کو مندر بھیجتے رہے۔ جہاں وہ خود سیر ہوکر کھا کر پھر ہمارے لیے بھی کھانا لے کر آتا تھا جوصرف پتلی دال ہی ہوتی تھی۔ پورا مہینہ دستر خوان پر سجا ہوا یہ دال کھا کر بھی شریف النفس نے کبھی بھی اس طعام کے متعلق نہ پوچھا کہ ایسی نایاب چیز بھلا روز کہاں سے آتی ہے ۔
بیسویں صدی کے سندھ کا وہ بہادر کردار جو کا نگریس کا سندھ اسمبلی میں پہلا اور آخری ممبر تھا۔ جس نے قیام پاکستان کے بعد اپنے خیالات میں تبدیلی لاکر پاکستان کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور خان غفار خان کی طرح اس کی خدمت کرنے اور مشورے دینے کے لیے سرگرم تھا۔ مگر پاکستان کے پنجابی پناہگیر مستقل مفادوالے گروہ کوایسے سچے موتیوں کی کیا قدر؟۔ ان کو مذہب کی خود ساختہ تشریح کی تلاش تھی۔ جس سے ان کو لوٹ مار کی قانونی جوا زملے۔1949میں لیاقت علی خان کی لائی ہوئی قرار داد مقاصد بھی نہ صرف جناح والے سیکولر پاکستان کا آخری خاتمہ تھا۔بلکہ لوٹ مار گروہ کا سوچا سمجھا منصوبہ بھی تھا۔ جو کام محمد امین کھوسہ جیسے صاحب کردار ، صاحبِ گفتار اور اِسلام کے صحیح روح کو سمجھنے والے سامنے نہیں کرسکے۔ایسی ہستی کو سندھ کے بوڑھے جوگی اور ایک صدی کی تاریخ کے آنکھوں دیکھا شاہد کامریڈ سوبھو گیانچندانڑیں نے خراچ پیش کرتے ہوئے کہا ’’ سندھ نے محمد امین کھوسہ جیسے ہمہ درویش صفت بالکل کم پیدا کئے ہیں، وہ ایک ایسا جنس نایاب تھا، جن سے اختلات نہیں ہوسکا مگر ان سے محبت کرنے پہ ہم سب مجبور تھے کیوں کہ وہ ان سب چیزوں اور تحریکوں کا دیوانہ تھا جن سے ہماری دلچسپی تھی‘‘۔کھوسہ کے لیے دیوانہ تو ہمارا ایک دلبرداشتہ دوست بھی ہوا تھا جس نے جب’’ واجٹ ویراگین جا‘‘ کی دونوں جلدیں پڑھیں تھیں ۔ سینٹرل جیل حیدر آباد کے بڑے دیواروں کے پیچھے قید اور قبر جیسی تاریک کھولی سے واپس آئے اس دوست نے ایک دفعہ محفل کے عروج پر پہنچتے رات کے 4بجے کے قریب بچوں جیسی معصومیت سے مجھے کہا کہ۔’’ حمید مجھے صرف ایک مرتبہ امین کھوسہ کی آخری آرام گاہ پہ لے چل ، اُسے ہم نے کیسے بُھلا دیا ہے ؟‘‘۔
سندھ کے اس محبت انسان کے بارے میں یہ خبر شاید تمام کم لوگوں کو ہو کہ ایک تقریب میں(اوستہ محمد جلسہ مترجم) جس کی صدارت خان غفار خان کررہا تھا ، کسی قاتل نے کلہاڑی سے سٹیج پر بیٹھے سرحدی گاندھی پر حملہ کر دیا۔ اس دوران چھلانگ لگا کر محمد امین کھوسہ نے خان غفار خان کو بچا لیا۔ اور قاتل کا وار اپنے سر پر روک کر لہو لہان ہوگیا۔ (نوٹ ۔ ایک امین شناس استاد محمد عالم کھوسہ کے بقول غفار خان اس جلسہ میں موجود نہیں تھے ۔ مترجم)
1973میں ہم سے بچھڑ کر جنت کے جھروکوں سے سندھ کا نظارہ کرنے والی اس ہستی کو سندھ کے نوجوان کبھی کبھار کیوں یاد کرتے ہیں؟ آج جب کردار اور قربانی کے قحط کا زمانہ ہے اس وقت اگر سندھ کو حقیقی مثالی کرداروں کی ضرورت ہے تو اس وقت بھر چونڈی پیر کے اس مرید اور عبیداللہ سندھی کے پیروکار کی تصویر بھلاکیوں نہ اپنے روح اور ضمیر کے آئینے میں رکھ چھوڑ یں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے