ایک زمانہ تھا وہ
ہم جوراہگیر تھے
زندگی کی ڈگرپر جو نہی چل پڑے
یوں اچانک جد ا راستے مل گئے
اور لگا تیری منزل مری بھی تو ہے
کچھ سمجھتے بنا
بات کرتے بنا
ساتھ یوں چل پڑے
جیسے یہ آشنائی زمانوں کی تھی
دن گزرتے گئے
پاس آتے گئے
ایک دوجے کے ہم ہمنوا بن گئے
کچھ سمجھتے بنا
بات کرتے بنا
ساتھ یوں چل پڑے
تھی خبر دھوپ کی
پیاس کی بھوک کی
نہ رُتوں کی خبر
اپنی دھن میں مگن یو نہی چلتے رہے
پر سفر تھی طویل
راہ بھی پیچ وخم
ہم بھی بچھڑے کبھی
تُو تھا پیچھے کبھی میں کبھی رہ گیا
وقت گھٹتا گیا فاصلے بڑھ گئے
پھر رتوں کی طبیعت ہوئی مہربان
فاصلے مٹ گئے
ایک دوجے کہ ہم ہمنوا بن گئے
کچھ سمجھتے بنا
بات کرتے بنا
ساتھ پھر چل پڑے
بس یہی سلسلہ
یونہی چلتا رہا
وقت گزرتا گیا
منزلیں پاگئے
آج پھر ہیں وہی موڑ پر ہم کھڑے
تیرا رستہ الگ
میرا رستہ الگ
اے میرے ہم نشین!۔
الوداع ، الوداع!۔
الوداع ، الوداع!۔