بلوچوں اور بلوچستان کی تاریخ میں دوشخصیتوں کا ذکر ہمیشہ ہوا کرے گا اور انکی خدمات کو سراہا جائے گا ۔ یہ شخصیتیں ان دوبھائیوں کی ہیں جنہیں ہم محمد حسن نظامی اور محمد حسین عنقا کے نام سے جانتے ہیں اور یہ شخصیات اب ہم میں موجود نہیں۔
محمد حسن نظامی بڑے بھائی تھے او ر اُس کی یاد میں آج کی تقریب منعقد ہوئی ہے ۔ نظامی صاحب سے پہلی مرتبہ 1938میں ملاقات ہوئی۔ ہم نوشکی سے آٹھویں کا امتحان دینے کے لیے کوئٹہ آئے تھے۔ ہمارا قیام بلوچی سٹریٹ میں میر شہباز خان نوشیروانی کی بیٹھک میں تھا۔ میر صاحب کی خان عبدالصمد خان اچکزئی سے بڑی گہری دوستی تھی اور خان مرحوم نے پرنس روڈ پر عزیز پریس جس کا بعد میں نام بدل کر بلوچستان پریس رکھا گیا‘قائم کردیا تھا۔ اس پریس میں بلوچستان کا پہلا اور مشہور ہفت روزہ استقلال چھپتا تھا۔ میر شہباز خان کے ہمراہ بلوچستان پریس جانا پڑا اور وہاں نظامی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ استقلال کے ایڈیٹر تھے۔
اس ملاقات کے بعد برسوں تک نظامی صاحب کو اس پریس میں دیکھاکرتا ۔ جب کبھی پریس جاناہوتا تو نظامی صاحب کو اکثر پریس میں مصروف پاتا۔ وہ نہ صرف اخبار کا پیٹ بھراکرتے تھے بلکہ اخبار ی کام کی ذمہ داروں کے علاوہ پریس کے تمام کاروبار کے نگر ان بھی تھے۔ استقلال اور بلوچستان پریس سے ہی پہلی مرتبہ مجھے پریس اور اخبار کی اہمیت کاپتہ چلا۔
استقلال اپنے دور کا مقبول ترین اخبار تھا۔ اس کی شہرت اسباب اخبار کی عوامی پالیسی کے علاوہ محمد حسن نظامی کی ذہنی پختگی اور زور قلم میں مضمر تھے۔ میرا خیال ہے کہ استقلال کے سب سے پہلے ایڈیٹر اگر محمد حسن نظامی نہ بھی ہوں تو سب سے اہم ایڈیٹر ضرور ہونگے۔اور استقلال کی زندگی میں سب سے زیادہ عرصہ محمد حسن نظامی ہی کو میں نے استقلال سے منسلک پایا۔
محمد حسن نظامی اور ان کے خاندانی زندگی کے بارے میں اگر چہ مجھے زیادہ معلومات نہیں کیونکہ ان کا تعلق بلوچستان کے دانشوروں کے ابتدائی دورسے تھا اوروہ ہر لحاظ سے ہمارے بزرگ تھے مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ برسوں پہلے جب بلوچستان میں مچ کے مضافات میں ، کوئلہ کی کان کنی کی ابتداء ہوئی تو یہ خاندان پنجگور سے روزگار کی تلاش میں مچ پہنچا اور اس صنعت میں انہیں روز گار میسر ہوا۔
مچ ہی میں ان بھائیوں نے اپنے دور اندیش محترم والد کی سرپرستی میں تربیت اور تعلیم حاصل کی ۔یہ بھی معلوم ہے کہ تعلیم کے بعد محمد حسن نظامی نے تدریس کا بینہ اختیار کیا اور کئی برس سکول ٹیچر رہے اور ڈیرہ بگٹی میں پڑھاتے رہے ۔
اس طرح اس محنت کش خاندان میں بلوچستان کے ان ابتدائی دانشوروں نے جنم لیا تھا۔ انکا محنت کش خاندان دانشوروں کے خاندان میں بدلا ۔ حسن نظامی نے کب سرکاری ملازمت سے علیحدگی اختیار کی اور کیونکرصحافت سے وابستگی ان کی ہوئی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ البتہ اس قدر ضرورمعلوم ہے کہ محمد حسن نظامی کو صحافیانہ زندگی بہت راس آگئی تھی اور انہوں نے اس سے بڑی دلچسپی اور انجام کار بلوچستان کے مقتدر صحافیوں میں انکا شمارہوا۔
استقلال کے بعد محمد حسن کی ہفت روزہ تنظیم سے وابستگی کا علم ہوا ۔ یہ اخبار مرحوم میر جعفر خان جمالی کا تھا۔ جس کی ادارت نظامی سے پہلے نسیم حجازی صاحب کیا کرتے تھے۔ہفت روزہ تنظیم کی حیثیت اگرچہ استقلال جیسی نہ تھی۔ مگر محمد حسن نظامی نے فن صحافت میں اس قدر اونچامقام حاصل کیا تھا۔ اور شہرت پائی تھی کہ تنظیم نظامی صاحب کی وجہ سے مشہور ہوا۔
۔1950سے جب میں کوئٹہ میں رہنے لگا تو محمد حسن نظامی صاحب سے زیادہ آشنائی ہوئی اور جب میرا تعلق بھی صحافت سے ہوا تو نظامی صاحب کی اہمیت کا مجھے بہ خوبی احساس اور علم ہوا۔
ان دنوں نظامی صاحب میر احمد خان روڈپر اپنے چھوٹے بنگلہ میں رہا کرتے تھے۔، جو انہوں نے ایک پلاٹ حاصل کر کے بنوایا تھا۔ میں اور میرے دوست عبدالواحد کرد اکثر ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ انہیں اپنے پھولوں کی آب یاری اور قطع وبرید میں مسحور پاتے تھے۔وہ ان گلاب کے پھولوں میں بہت ہی دلچسپی لیتے تھے جنہیں انہوں نے بہت ہی ذوق شوق سے لگایاتھا ۔نظامی صاحب بہت ہی باذوق انسان تھے ۔ ان کی گفتگو ان کی تحریر کی طرح بہت ہی دلچسپ ہوا کرتی تھی۔ وہ پر مزاح انسان تھے ۔ مسکراتے مسکراتے بہت کچھ کہہ جاتے ۔ ان کا چہرہ ہی سے ان کے تدبر کا اندازہ ہوسکتا تھا۔
جب بھی نظامی صاحب کو صحافیوں کے حلقے میں د یکھتا تو ان کی بزرگی مدانش مندی اور وقار کااندازہ ہوتا ۔ ایسے ہی انہیں سرکاری پریس کانفرنسوں میں پاتا ۔ہر جگہ لوگ ان کا احترام کرتے وہ صاحب رائے تھے اور ہر مسئلہ میں صحافی اور ارباب بست وکشاان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کرتے۔ میر جعفر جمالی نے بہت پہلے ہفت روزہ تنظیم کو مکمل طور پر نظامی صاحب کے حوالہ کردیا تھا۔ نظامی صاحب تنظیم کے مالک مدیرتھے۔ اور آخر دم تک انہیں شائع کرتے رہے۔
نظامی صاحب نے جہاں تک مجھے معلوم ہے کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت نہیں کی ۔ مگر ا سکے باوجود بلوچستان کے نامی گرامی سیاست مدار ان کے پاس جاتے ۔میر جعفر خان جمالی، میر عبدالعزیز کرد ،عبدالصمد خان اچکزئی ، شہزادہ عبدالرحیم ،عبدالرحیم خواجہ خیل ، میر گل خان نصیر، میر غوث بخش بزنجو، میر عبدالقادر شاہوانی، میر شہباز نوشیروانی، میر محمد خان باروزئی وغیرہ اکثر ان کے یہاں آتے جاتے ۔ہر اہم مسئلہ پر اور سیاست کے ہر موڈ پر محمد حسن نظامی کی رائے معلوم کی جاتی ۔ اور اکثر حضرات ان کا مشورہ طلب کرتے ۔ گویا سیاسی لیڈر نہ ہوتے ہوئے بھی محمد حسن نظامی بلوچستان کی سیاست سے گہرا تعلق رہا ہے ۔
سرکاری حلقے بھی سیاسی حلقوں کی طرح نظامی صاحب سے مشورہ کیا کرتے اور ہر مسئلہ پر ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کرتے۔
سیاسی بحث ومباحثوں میں اکثر محمد حسن نظامی کی رائے کا تذکرہ ہوتا اور ان کے حوالے دیے جاتے۔
محترم محمد حسن نظامی سے آخری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ مہلک حادثہ کا شکار ہو کر سول ہسپتال میں زیر علاج تھے ۔ میں اور جناب نادر کمبرانی صاحب ان کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے تھے ۔ وہ بے ہوشی کے عالم میں تھے ۔ ان کے فرزندِار جمند ظہور الحسن صاحب نے ہمارے منع کر نے کے باوجود ہمارے نام لے کر اپنے قابل احترام والد کو ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ ہمیں دیکھا اور مسکرا دیئے اور بس۔ پھر بے ہوشی کی کیفیت ان پر طاری ہوئی۔
یہ تھی میری ان سے آخری ملاقات۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے