ماہنامہ سنگت دسمبر2017کا شمارہ عام شماروں کی نسبت ضخیم ہے ۔دوسری تبدیلی یہ ہے کہ یہ سارا رسالہ ایک خاتون ، قندیل بدر نے مرتب کیا ہے ۔ مجھے اس بات سے خصوصی طور پر خوشی ہوئی۔عورتوں کو آگے آنا ہی چاہیے!!۔
اگر چہ سارا میگزین معلوماتی ، ولولہ انگیز اور دلچسپ ہے لیکن میں یہاں اُن چند تحریروں کی طرف ہی توجہ مرکوز کروں گا جنہوں نے مجھے بہت زیادہ اپنی طرف کھینچا ہے ۔ 1932میں منعقد ہونے والی بلوچ کا نفرنس جیکب آباد کے حالات وواقعات بہت دلچسپ میں جن میں نواب یوسف علی عزیز مگسی ، عبدالعزیز کرد اور عبدالصمد اچکزئی کا کردار نمایاں تھا۔ کچھ اور بزرگوں کا ذکر بھی موجود ہے ۔اپنے وطن کے لیے فکر کرنے والے اولین لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ایک بہت ہی لائقِ ستائش کام ہے ۔ مضمون ابھی جاری ہے ۔ روئیداد کا اگلا حصہ پڑھنے کا انتظار رہے گا۔
رسالہ سنگت کے 20سال مکمل ہونے پر ڈاکٹر عطااللہ بزنجو نے اپنے مضمون میں اس رسالہ اور سنگت اکیڈمی کی خدمات کو خوبصورت انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔ اس میں ترقی پسندی اور ترقی پسندوں کو حوصلہ دینے اور پروموٹ کرنے میں یقیناًشاہ محمد مری کا بڑا حصہ ہے جس کا اعتراف عطا ء اللہ بزنجو صاحب نے بھی کیا ہے ۔ آپ اس کامیابی پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایک اور ترقی پسند دوست سانگھڑ کے حسن عسکری صاحب نے بھی اپنے خط میں آپ ( شاہ محمد مری) سے لمبی سیاسی رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے ماہنامہ سنگت اور آپ کو بجا طور پر بہت اچھے الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔
عابد میر صاحب نے بھی سنگت سے اپنی دِلی وابستگی کی کہانی لکھی ہے ۔ اپنے والہانہ لگاؤ کی وجہ سے بالآخر وہ سنگت سے مستقل طور پر وابستہ ہو کر، سنگت کے ذمہ داروں کے حلقے میں شامل ہوگئے۔
اسلم خواجہ صاحب نے کراچی یا سندھ کی دو خواتین جیٹھی ملانی اور شانثا بخاری کے ترقی پسند سیاست میں کردار یا جدوجہد کو اجاگر کیا ہے ۔ یقیناًان خواتین کا کردار (جدوجہد) متاثر کن ہے اور قاری کے دل میں ان کے لیے قدر اور احترام کے جذبات پیدا کرتا ہے۔انہوں نے تن آسانی کا راستہ چھوڑ کر ، دوسروں کی فلاح کی خاطر ، کانٹے دار راستہ چنا، قید وبند اور ریاستی جبر برداشت کیے۔ اُن کی جدوجہد کو سلام۔
حیدر بخش جتوئی کو میں ترقی پسند کسان لیڈر کے طور پر جانتا تھا لیکن اتنی تفصیل سے معلومات نہ تھیں۔ ایک دل کش سرکاری عہدے سے استعفیٰ دے کر مزدور کسان سیاست کے خارزار کو منتخب کرنا ایک مہان شخص کا کام ہی ہوسکتا ہے ۔ ’’عشاق کے قافلے‘‘ میں بھی حیدر بخش جتوئی کا نام موجود ہے ۔ ایسے لوگوں کا حال پڑھ کر لوگوں کو جدوجہد کا حوصلہ ملتا ہے ۔ اور اس راہ پر چلنے والے دیگر لوگ یہ کہہ کر خود کو مضبوط کرتے ہیں کہ ہم صحیح راہ پر گامزن ہیں۔
ایسے لوگوں کو باربار خراجِ تحسین پیش کرتے رہنا چاہیے جنہوں نے اپنی زندگی اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے ، تکالیف ومصائب میں گزار دی۔
کامریڈ اسلم ریڈیو ایک قابل قدر ورکر ہے ۔ اس قسم کے ور کر کامریڈوں کو یاد کرنا بہت ہی مستحسن اقدام ہے ۔ جو ساری زندگی ترقی پسندی کی کٹھن راہوں پر چل کر گزار دیتے ہیں۔ اسلم نے دولت کمانے اور کیرئیر بنانے کی بجائے صرف گزارا الاؤنس پر پوری زندگی ایک صالح اور نیک کام کے لیے وقف کردی۔
’’وفا داری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے ‘‘
آپ کے حسن بیان نے کم از کم میرے ذہن میں اُس کا ایک Legendکا imageپیدا کیا ہے ۔ ایسا آدمی جسے کسی ستائش کی تمنانہیں ، بس اپنا کام کیے جارہا ہے ۔ اور یہ ایک بہت ہی اچھا اور عمدہ کام ہے کہ آپ عشاق کے قافلے میں شامل لوگوں کی جدوجہد ،کام اور خدمات کو کاغذوں میں محفوظ کر رہے ہیں۔ آپ کی اور ماہنامہ سنگت کی اور سنگت اکیڈمی کی یہ خدمت نا قابل فراموش ہے ۔
’’ ہتک‘‘ ایک بوڑھے سائنس دان کی کہانی ہے ۔ یہ کہانی سوویت انقلاب کے دو سال بعد کی ہے جب کہ ابھی انقلاب نے سوویت دھرتی پر پورے طور پر قدم نہیں جمائے تھے ۔ انقلاب ایک عبوری دور سے گزررہا تھا جب ابھی بدنظمی اور افراتفری ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس بدنظمی کا بھرپور مظاہرہ کھچا کھچ بھری ہوئی لیٹ آنے والی ٹرین سے ہوتا ہے جہاں بوڑھے سائنس دان سمیت بہت سے دیگر لوگوں کے لیے ٹرین میں داخل ہونے کی بھی گنجائش نہیں ہے ۔ ابھی تک عوام کا شعور بیدار نہیں ہوااور لوگ سائنس دان کی قدر وقیمت سے نا آشنا ہیں۔ جہاں سائنس دان سے زیادہ باورچی کی اہمیت ہے ۔ اور سائنسی آلات کی بجائے مچھلیاں زیادہ اہم ہیں۔ بہر حال سائنس دان کسی نہ کسی طرح ٹرین میں سوار ہوجاتا ہے اور وہاں کھڑا ہونے کی جگہ بھی مل جاتی ہے۔ پورے سفر کے دوران ، وہ اپنی نا قدری کی وجہ سے سُبکی محسوس کرتا ہے ۔ سفر کے شروع میں بھی اور ٹرین کے اندر بھی اُس سے نارواسلوک کیا جاتا ہے۔ وہ غم اور غصہ میں کڑھ رہا ہے کہ جس شخص نے اپنے وطن کی خاطر ساری زندگی کٹھنائیوں میں گزار دی اُسے ذلیل کیا جارہا ہے ۔ بالآخر جب اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو وہ وہاں بیٹھے ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے پرولتار یوں میں ایک ولولہ انگیز تقریر کے ذریعے اُن کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر اُن کے شعور کو بیدار کردیتا ہے ۔ اُس نے معاشرے میں سائنس کی اہمیت اجاگر کر کے اپنے سامعین میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اور اُن کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ انہی میں سے کچھ لوگ اُسی وقت اس کی قدر کرنے لگے ۔اُن مخدوش حالات میں اُسے سٹیشن سے گھر تک بحفاظت چھوڑ کر آئے ۔وہ یہاں تک متاثر ہوئے کہ اُن میں سے ایک نے سائنس دان کے دوران سفر لوٹے گئے مائکروسکوپ کو لیٹروں سے واپس لیتے ہوئے اپنی جاں قربان کردی۔ اور اُن میں سے دوپرولتاری بعدازاں سائنسی تحقیق کے بڑے عہدوں پر متعین ہوئے ۔ اس کہانی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر قیادت صحیح ہوتو عام آدمیوں کی دانش اور لیاقت پر بھی بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ بھی کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ بناوٹ ، تکنیک اور تاثر کے لحاظ سے یہ ایک بہترین افسانہ ہے ۔
’’خوشبو‘‘ بھی ایک اچھا افسانہ ہے ۔ سرداری نظام یا فیوڈل ازم میں پائی جانے والی ایک سوچ کے لحاظ سے یہ ایک مثالی افسانہ ہے ۔
اِس کہانی میں ایک سردار کی عادت اور نفسیات کی بالکل صحیح عکاسی کی گئی ہے ۔ اردو ادب میں پہلے بھی اس قسم کی کہانیاں موجود ہیں ۔ناول نگار مرزاہادی رسوا کی امراؤ جان بھی خوشبو کی طرح ایک طوائف کی بیٹی جو لکھنؤکے ایک نواب کے نطفے سے تھی۔ انجام دونوں جگہ المیہ ہی ہے ۔ سب کرداروں نے اپنی اپنی جگہ اپنی سوچ اور حالت کے مطابق پر فارم کیا ہے ۔ خوشبو نے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا کہ اُس کا سردار باپکھلے عام اُسے اپنی بیٹی تسلیم کرے اور اُس کا جائز مقام اُسے دے ۔ اور سردار لشکر خان کی ایک قبائلی سماج والی مثالی سوچ ہے کہ اپنی غیرت کو محفوظ کرنا ہے خواہ اپنی بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار کر کرے۔