دسمبر2017ء

عید ٹرین کا تو سنا ہی تھا لیکن اس دفعہ تو شال میں سنگت اسپیشل ٹرین بھی چلی جسے بنایا سنوارا قندیل بدر نے تھا اور اس ٹرین کی پینٹنگ تمثیل حفظہ نے کی۔یہ خوبصورت رنگین ٹرین پچھلے بیس سال سے شال کی گھاٹیوں ، وادیوں میں رواں دواں ہے۔ٹرین فاطمہ جناح روڈ پر پہنچی تو شاہ محمد مری صاحب، عطاء اللہ بزنجو، وحید زہیر، ثبینہ رفعت، منیر رئیسانڑیں، آمنہ ابڑو، افشین سمیت بہت سی سواریوں نے ٹرین کے 112 ڈبوں میں سوار ہو کر اپنی اپنی سیٹ سنبھالی۔عشق کے گنوخ تو لاعلاج ہوتے ہی ہیں لہذا وہ اپنے کتاب پچار کے ڈبے سے نکل کر دوسرے ڈبوں میں تانکا جھانکی کر تے رہے۔
شونگال کے ڈبے میں ’ بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس، جیکب آباد‘ کی سواری تھی جس کی 82 ویں سالگرہ تھی۔باتوں سے گنوخ کو پتہ چلا کہ یہ بلوچوں کی سب سے پہلی ہمہ گیر کانفرنس تھی۔ کانفرنس میں بلوچ اور پشتون رہنماؤں کو بلوچستان کی اصلاحات، بلوچستان سے محبت نے ایک جگہ ایک ساتھ بٹھایا۔ یہ کانفرنسیں جیکب آباد اور حیدر آبادمیں ہوئیں ۔
گنوخ کو دوسری سیٹ پر بھی کچھ باتوں کی آوازیں آرہی تھیں وہ ان کی طرف متوجہ ہواجو کہہ رہے تھے کہ بورژوازی ، بورژوا نظام کے علاوہ کسی کو نہیں مانتی اور اسرائیل بنیاد پرست ملک ماضی کو ہی برتر سمجھ کر واپس لانا چاہتا ہے۔ یہ بنیاد پرست ایک گٹر کی مانندہے جو ٹیکنالوجی، سائنس کو خود میں جذب نہیں کرتی۔جسے حال اور مستقبل سے غرض نہیں بس ماضی کو چاٹتی رہتی ہے، یوں شاونزم، کیپٹلزم کو تقویت دیتی ہے۔قدیم سوشلزم، غلام داری اور جاگیرداری کا تسلسل سرمایہ داری ہے اور وقت ضرورت کے مطابق کیپٹلزم کی یہ زنجیریں ٹوٹ جائیں گی لیکن صرف صحیح سمت میں سیاست کرنے سے۔
پوہ زانت کے ڈبے میں سواریاں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔چلتے چلتے عشق کے گنوخ ڈاکٹر شاہ محمد صاحب کے پاس جا کھڑ ا ہواجن کی تحریر کانام تو تھا ’’کیا ‘‘لکھنا لیکن وہ بتا بہت کچھ رہی تھی کہ دانش ور وادیب کا کام معاشرے کی کمزوریوں کو Highlight کرنے کے ذمہ دار، سچ کے علمبردارہونا چاہئے، سرمایہ داری نظام کے پٹھو ادیبوں کی بیماری کیPrevention خیالات و نظریات کے مارشل لاء کے خلاف قلم کی تلوار ، محنتی عوام کو کھوکھلے نعروں سے بچانا، سائنس اور ٹکنالوجی کا بول بالا کرنا اور سچ لکھناہے۔
عشق کے گنوخ ’ حوامدگی‘ کی سواری کی جانب بڑھنا ہی چاہ رہاتھا کہ ایک سیٹ پرافشین ’ پینڈورا باکس‘ لیئے بیٹھی تھی ۔اس سے مل کر تو اسے بے پناہ خوشی ہوئی کہ اس مسافرسے امید ہی امید ٹپک رہی تھی اور امید اور اچھے وقت کے یقین سے اس کا اپنا چہرہ دمک رہا تھا۔امید کی روشنی وصول کرتے ہوئے گنوخ جاوید حیات کی سیٹ تک پہنچ گیا جو ’ حوامدگی‘ لیے ہوئے تھے کسی خوبصورت کہانی، کسی دل موہ لینے والے افسانے جیسی خوبصورتی تھی اس مضمون میں ۔خوشی ہوئی اس سے مل کر۔ ’ آج کا دن کیسا دن تھا‘ آواز لگاتے ایک مسافرنورمحمد شیخ آیا کہ ’ آج تم نے کچھ لکھا نہیں ، کچھ پڑھا نہیں‘ ۔۔۔! وہیں کہیں ڈاکٹر فاطمہ صاحبہ کی ’ امید کی شہزادی ‘ بھی نکل آئی تھی جو امیدتمام سواریوں میں بانٹ رہی تھی اور آج نا لکھنے نا پڑھنے کے درد کو بھی کم کر رہی تھی۔
چائے لے لو ۔۔۔ چائے۔۔۔بھئی گرم گرم ناشتہ۔۔۔! چائے والا آوازیں دے رہا تھا ۔ گنوخ گرم چائے لے کر امید اور خوشی سمیٹتے ہوئے کچھ دیر کے لئے اپنے ڈبے ’ کتاب پچار‘ میں واپس آگیا کہ اپنے ڈبے کے باقی دو ہمسفروں سے بات ہی نہیں کی تھی جہاں اسامہ امیر ’ دل جہاں دریا ہوا‘ اورعابدہ رحمان عشق کے گنوخ اور’سنگت کے بکھرے موتی ‘ بکھیرے بیٹھے تھے ۔ گنوخ نے معذرت کی کہ تعارف کئے بنا ہی دوسرے ڈبوں کا رخ کیا۔ عابدہ نے بتایا کہ شاہ عنایت عاشقِ انسانیت تھے۔ ظلم ونا انصافی، جبرو استحصال کے نا صرف خلاف تھے بلکہ عملی طور پر اس کے خلاف آواز اٹھائی ۔زمین کوتمام انسانوں کا حق بتایا اور اس جرم کی پاداش میں شہید کر دئے گئے۔دونوں ہمسفر آبدیدہ ہوئے۔
گنوخ نے چائے کا گھونٹ بھرا اور بات بدل کر ’ سنگت کے بکھرے موتی‘ سے جو بات کی تو اس کی مختلف زبان اور لہجے پر پہلے تو مسکرایا اور پھربھرپور قہقہہ لگایا کہ یہ زبان اور لہجہ شال کی خوبصورتی ہے اور وہ بھی کبھی بلوچستان آکر یہ سن چکا ہے۔ ہنستے ہنستے آنکھوں سے گرتا پانی پونچھتے ہوئے وہ اسامہ امیر کی طرف متوجہ ہوا جو ’ دل جہاں دریا ہوا‘ ایک نئے شاعر نوید فدا ستی کے بارے میں بات کر رہا تھا اور اس کی شاعری سنا رہا تھا جو بہت اچھی شاعری تھی۔گپ شپ لگا کے اور چائے کا کپ چائے والے کو تھماتے ہوئے گنوخ واپس پوہ زانت کے ڈبے کی جانب چلا تو راستے میں کوئی غبارے والا غبارے بیچ رہا تھا۔ گنوخ نے کہا ارے بھائی یہاں کوئی بچہ نہیں ہے جس کے لئے غبارے لئے جائیں لیکن پاس سے ہی ایک مسافررحمان راجہ کی آواز آئی؛ جی کی گھٹن غباروں میں بھر کے،روانہ کرو ایسی منزل کی جانب، وہ جس سے ملے ہوئے تمھیں صدیاں ہوئی ہیں ! ۔گنوخ نے مسکرا کر مڑ کر اس مسافر پر نظر ڈالی اور اگلے ڈبے میں جو داخل ہواتو نظر ’ طویل کہانی کا بریک اپ‘ پر چلی گئی جس میں وحید زہیرصاحب بڑے مزے سے سنگت کے بیس سال کی کہانی کے ساتھ دھیرے دھیرے پاکستان کے چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر، اس کے وجوہات اور حل پر بولتے گئے اور یہ بھی تنبیہہ کی کہ اگر حل سے روگردانی کی گئی توحالات مزید خراب ہوتے چلے جائیں گے۔وہیں اسی ڈبے میں ڈاکٹر عطا ء اللہ بزنجو صاحب بیٹھے تھے جو یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ جو سنگت نہیں ہوتے وہی اصل میں سنگت ہوتے ہیں بلکہ وہ سنگتوں کی سنگتی کے بیس سالوں پر بات کر رہے تھے۔اورنگ زیب مسافرکے ساتھ سیٹ پر ’ مٹیلریلزم‘نامی کوئی تحریر تھی جو کہہ رہی تھی کہ انسان تہذیب و تمدن کی کہانی مٹیرکے ارتقاء کی کہانی ہے۔اور یہ کہ مٹیریل ترقی ہی کی وجہ سے سوپر پاور ، سوپر پاور ہے اور بہترین انسان پیدا کرنا اور ایک فلاحی معاشرہ قائم کرنا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مٹیریل خوشحالی نہ ہو۔
اورنگزیب صاحب کے ساتھ والی سیٹ پر شان گل بیٹھے تھے جن کے ہاتھ میں اپنی تحریر ’ اسلم ریڈیو‘ تھی ۔ گنوخ بھی مسکراہٹ لبوں پر لئے اسلم ریڈیو کی باتیں سننے لگا۔اسلم ریڈیو کی زندگی کسی بھی زبردست انقلابی کامریڈ کے طور پر گزری تھی۔بہت کم عمری میں ہی وہ ریلوے ورکرز ٹریڈ یونین کا ممبر بنا تھا اور ایک کامیاب ہڑتال کا حصہ رہا۔1948 میں کمیونسٹ پارٹی کا ممبر اور بعد میں1954 میں سی آر اسلم کی سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوا اور پارٹی اخبار ’ عوامی جمہوریت‘ کے لئے شدید محنت کی۔اسلم ریڈیو کی آواز بات کرتے ہوئے کبھی بہت دھیمی ہو جاتی اور کبھی جوش میں آکر نہایت اونچی ہو جاتی کہ آس پاس کے مسافر بھی آکر کھڑے ہو جاتے۔ تاہم لگ رہا تھا کہ گنوخ کو بھی اس کی باتوں میں مزا آرہا تھا۔شان گل کے پاس رکھے ریڈیو کے بٹن کو گنوخ کا ہاتھ لگ گیا تو ’ انقلابی کے نام‘ آمنہ ابڑو صاحبہ کی نظم بج رہی تھی ۔۔۔ ’ تمھارے قدموں میں اپنی عقیدتوں کے دیئے جلاؤں؟ اور پیار کے کچھ گیت ارپن کر دوں ‘ نظم گونجتی رہی اور عشق کا گنوخ اٹھ کر ٹرین کی اگلی سیٹوں کی جانب چلا ۔کھڑکی کی جانب رخ کئے کوئی خاتون تھیں ۔ گنوخ نے پوچھا کہ یہ کون ہے تو ’سائیں کمال خان شیرانی ‘ کے لکھاری اسحق صاحب نے کہا یہ سینیٹر یا کوئی اور ٹَر نہیں ہے بلکہ ’ جدوجہدِ آزادی ، کراچی کی خواتین‘ کے مصنف اسلم خواجہ صاحب ہیں جنھوں نے خواتین کی جدوجہد ، کانفرنسوں، سرگرمیوں کے بارے میں بہت اچھا مضمون لکھا۔اور یہ ہیں ’ ہمارے گاؤ ں کا کامریڈ‘ کی لکھاری آمنہ ابڑو صاحبہ۔اپنا نام سن کر وہ مسکراتے ہوئے مڑیں اور کہا کہ زیادتی اور نا انصافی پر آواز بلند کرنا بہت ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں ہمیشہ مار کھاناپڑے گی۔ ہم ہل چلاتے ہیں ، ہم اناج بوتے ہیں اس لئے روٹی کے نوالے پر پہلا حق بھی ہمارا ہے۔ ایک اطمنان بھری مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ کھڑکی سے باہر جانے کیا تلاش کر رہی تھیں۔ان کے ساتھ عابدہ اپنی تحریر’ عبداللہ جان ،علم و عمل کا تسلسل ‘ لیے ہوئے تھی ،کہنے لگی بابا عبداللہ جان اچھے انسانوں کی شجر کاری کرتے رہے۔ انسان سے محبت کرنے والے انسان اگاتے رہے، ان کی آبیاری کرتے رہے ، انکے ٹھنڈے میٹھے سائے کا مزہ لیتے رہے۔ ایک اور مسافر اویس صاحب بھی اپنی تحریر ’ بلوچستانی تنقید کا منظر نامہ‘ سنا رہے تھے جس پر گنوخ نے پوچھا اویس صاحب کیا یہ ضروری ہے کہ ہر تخلیق ، تنقید کی راہ سے گزرے اور یہ کہ میں تو سمجھتا ہوں کہ چاہے جہاں کا بھی ادب ہو وہ عالمی بڑے واقعات کے اثر سے بچ نہیں سکتا ۔ اب پتہ نہیں اسے چھاپ کہیں گے کہ نہیں۔اور کیا نائن الیون سے پہلے ایسا کوئی اور بڑا واقعہ نہیں ہوا تھا؟
کھانا لے لو ۔۔۔ بھئی گرم گرم کھانا ۔۔۔ ٹرین شاید کسی سٹیشن پر رکی تھی کہ پھیری والوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ ٹھنڈی بوتلیں ۔۔۔فانٹا ، سیون اپ۔۔۔کوکا کولا۔۔۔ کھانا بھئی کھانا۔۔۔! ہر طرف کھانے کی خوشبو پھیل گئی۔
اسحاق شاہ اور آمنہ صاحبہ کے سامنے والی سیٹ پر ثبینہ رفعت صاحبہ اپنی تحریر’ فرشی بستر پر ایک شام‘ کے ساتھ تھیں۔جو بڑے سُر اور لے والا انداز لئے ہوئے تھا کہ گنوخ تو مزید گنوخ ہوگیا اورٹرینی بستر پر جیسے گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔ ثبینہ صاحبہ کی آواز آئی ’ کیا کوئی گھنٹی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کرجگا سکتی ہے؟؟ کیا فرشی بستر پر سونے سے اتنی ہی بے سدھ نیند آتی ہے ؟؟مگر فرشی بستر کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف درویشوں کو برداشت کرتا ہے۔باقیوں کے لئے تو یہ کانٹوں جیسا ہوتا ہے‘ بڑی مشکل سرور سے نکل کر گنوخ نے جو اگلے ڈبے میں قدم رکھا تو دیکھا کہ’ کمال خان شیرانی‘ کے لکھار ی عبدالغفار شیرانی بھی بیٹھے تھے ، کہا کہ ’ فتوے لگانے کا خاص طبقہ ہے۔ ویسے یہ طبقہ بڑا مخلص طبقہ ہے انھوں نے تو اپنے مولانا سندھی اور مولانا شیرانی پر بھی فتوے دیئے اور فرمایا کہ مفکر آپکو چاہئے کہ قطعا کافر مت بنو مگر بڑا آدمی بندہ تب بنتا ہے جب اس پر فتوی لگ جاتا ہے ۔ عبدالغفار صاحب کے پاس کوئی پرانا سا ریڈیو رکھا ہوا تھا جو انھوں نے اٹھا کر لگایا تو تمثیل حفصہ کی آواز میں کسی نظم کے آخری الفاظ گونج رہے تھے؛ ’سنو! مجھے کوئی تار بھیجو کہ مجھ کو میرا یقین آئے۔۔۔گھڑی کی نبضیں بھی رک سی جائیں!! نظم ختم ہونے پر چینل بدلاگیا تو اس پر بھی کوئی اپنا کلام سنا رہا تھا؛ جسے مزہ نہیں معلوم میری پشتو کا ،کوئی بھی ہو وہ مجھے بے زبان لگتا ہے۔۔۔!
ان دونوں مسافروں کے سامنے والی سیٹ پر ستار بھٹی/ عبدالسلام کھوسہ’ ‘ اور اختر علی اپنی تحریروں’ کامریڈ حیدر بخش جتوئی اورمیر شیر علی خان بنگلزئی ‘ لیے بیٹھے تھے۔گنوخ نے سنا کہ حیدر بخش صاحب کسان کمیٹی کے ممبر رہے، ہاری حقدار اخبار جاری کیا۔بہت کسان کانفرسیں کروائیں ۔ اس کے علاوہ ون یونٹ کے خلاف کانفرنسیں بھی کروائیں۔جیلیں کاٹیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صحافت اور شاعری میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔میر شیر علی خان کے بارے میں گفتگوبڑے آپ جناب والے انداز میں لیکن بہت مختصر کی اختر علی صاحب نے ،لیکن شاعری بے تحاشا سنائی۔شام کی چائے کے لئے آوازیں آنے لگیں ۔۔۔ چائے لے لو چائے بھئی چائے گر م گرم چائے۔ ’ چائے والا ادھر سلیمانی چائے کا کپ لاؤ‘ چائے سلیمانی کے لفظ پر سارے مسافروں کے چہرے دیکھنے لگا تو سب ہنس پڑے اور ایک مسافر نے کہا ’ ارے بابا بغیر دودھ کی چائے لاؤ‘
’ ایک نازنین ماہ جبیں جس کے رخسارِ حسن سے پھولِ چمنستان مرجھا گئے تھے۔ میرا دلربا کے حسن سے ایک جام لا کر آگِ فراق پر ڈال دوکہ مجھے آرام ہو‘ عشق کاگنوخ تو مزید گنوخ ہو ہو بیٹھا ، کانوں میں جو یہ فقرے پڑے تو گرتا پڑتا لڑکھڑاتا آواز کی اور اگلی سیٹ کے پاس جا کھڑا ہوا جہاں عبدالقادر رند صاحب ’ ملا عیسی لنگ ‘ نامی اپنی تحریرکے خوبصورت موتی پرو رہے تھے۔ گنوخ گُنگ دیکھتا اور سنتا رہا ’ البتہ شیفتہِ دل کا عالم بے قرار ہو کر آویز زلفِ عنبرین کو یاد کر کے تڑپا کرتی ہے‘ ۔ یہ سب سن ہی رہا تھا کہ ’ جوگی‘ خلاؤں میں گُم بول پڑا ’ اج کی ہویا اے مائے، مینوں پتہ نہں ہائے‘ گنوخ نے بڑی مشکل سے اس پُر سرور ڈبے سے دامن چھڑایا کہ باقی سواریوں سے بھی ملنے کا دل تھا۔ دور سے بلال اسود کی آواز آ رہی تھی ؛ آنکھوں سے زیادہ ہونٹوں سے بات کرو،پیار کھلا اعلان ، ہوس خاموشی ہے! ٹرین ویرانے میں کسی پہاڑی سلسلے سے گزر رہی تھی اور کوئی مسافرنوشین اپنی بانسری جیسی سریلی آواز میں گا رہی تھیں ؛ یوں تیرے راستوں میں گھل جاؤں ، جیسے صحرا میں پیاس مرتی ہے!
شام کے دھندلکے بڑھ رہے تھے ٹرین کی سیٹی وادی میں گونج رہی تھی۔ عشق کا گنوخ حیران تھا کہ مسلسل شاعری پڑھنے کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں ۔ وہ آگے بڑھا تو دیکھااگلا شاعری کا ڈبہ تھاجہاں کچھ شاعر بھی ان کے ہمسفر تھے۔گنوخ بھی سیٹ پر ایک چھوٹی سی جگہ پر ٹِک گیا۔ ’ ثبینہ رفعت صاحبہ نے گھٹنوں پر رکھا سراٹھایا اور بولی؛ آج کی رات بہت بھاری ہے، آج کی رات تم میرے پاس ہی ٹھرو نا! اور واپس سر گھٹنوں پر رکھ دیا۔ کھڑکی کے پاس بیٹھے تیزی سے گزرتے اندھیرے میں ان دیکھے منزل کو تکتے ہوئے منیر رئیسانڑیں بولے ؛ تیرا نام اس کو دو جہاں سے بڑھ کر، تیرا مست پاگل گنگنائے شب بھر، ’ سمو تئی وشیں کندغ وٹوکاں‘! واہ واہ کااک شور اٹھا تو دوسری کھڑکی کے پاس بیٹھی انجیل صحیفہ بولی ؛ گول گھومتی ہوئی وہ پٹڑی جو دوسری سمت جا رہی ہو، کبھی کبھی اس کا دکھ بھی لگ جایا کرتا ہے! اور کھڑکی کھولتے ہوئے واپس سر ٹکا دیا۔ ٹھنڈی ہو اکی جو لہر اندر آئی تو برتھ پر لیٹے ہوئے افضل صاحب نے چادر منہ سے ہٹائی ؛ ایسے موسم میں کہاں بادِ نسیم۔۔۔!۱ایسے موسم میں کہاں ، حرفِ مراد۔۔۔!! تو دوسری برتھ پر لیٹی انیس ہارون بکھرے بال لئے اٹھ بیٹھیں؛ ’ درسگاہیں بنیں قتل گاہیں ، قلم تلوار ہوئے، حکم آیاپھونک دو افکارِ تازہ کی روشنی کو، جو ایک جہانِ نو کی نوید دیتی ہے!! ارے سنو یارو۔۔۔کونے کی نسبتا اندھیری سیٹ پر بیٹھے وحید نور صاحب کی آواز آئی؛ کب تک ہماری سوچ پہ پہرے بٹھاؤگے؟پھیلے گی ، چاندنی کو نہیں کر سکوگے قید!۔ اس کے سامنے والی سیٹ پرایوب بلوچ صاحب اپنا انگریزی مضمون لئے ہوئے تھے ’ عطا شاد The poet anthropologist‘ سب کی شاعری پر واہ واہ کرتے ہوئے خودایوب صاحب بھی عطا شاد صاحب کی بلوچی ثقافت، بلوچی ضرب المثل اور کلاسیکل بلوچی شاعری کے بارے میں بتاتے رہے، ڈرامے میں شاعری اور شاعری میں ڈرامہ پرونے کی داستان سناتے رہے۔ داد وصول کرتے رہے۔
رات کے کھانے کا غلغلہ اٹھا ہر طرف ایک شور ایک ہا ہو کار مچ گئی، کھانے کی خوشبو پھیل گئی۔ کھانا لے لو کھانا ۔۔۔بھئی کھانا۔۔۔صاحب کھانا لاؤں ؟ ایک نے تو گنوخ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ کھاناکھایا جاتا رہا شاعری کا دور چلتا رہا۔ رات ڈھل رہی تھی ٹرین چھک چھک کرتی اونچی نیچی گھاٹیوں پر رواں دواں تھی۔ سارے مسافر وں کی آنکھیں نیند سے سرخ ہو رہی تھیں ۔ گنوخ آخری ’قصہ‘ ڈبے کی جانب بڑھا تو وہاں امیبا کی نوکری، ہتک اور خوشبو کے لکھاری محوِ گفتگو تھے۔ شاہ محمد مری صاحب سوویت انقلاب کے پس منظر میں قصہ’ہتک‘ بڑی خوبصورتی سے سنا رہے تھے جس میں آج کے دور اور آنے والے دورکے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کا بیان تھا۔کہا کہ زندہ قوم اور آزاد روح کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا ، فتح کو کوئی مات نہیں دے سکتا‘۔ اختررند صاحب ’خوشبو ‘ سنا رہے تھے۔ ان کے انداز میں گو کہ کمزوری تھی مثلا خوشبو باپ کا سنکر ذرا بھی نہ چونکی نا ہی حویلی جا کر باپ کے رویئے پر اس کے جذبات کی عکاسی ہو رہی تھی لیکن پھر بھی خوشبو وہ کہانی سنا ئی جارہی تھی جس پر عام طور پر کوئی نہیں بولتا۔ کہانی ختم ہوئی تو ’ امیبا کی نوکری‘ کی لکھاری نجیبہ عارف گویا ہوئیں اور معاشرے کے ایک اور ناسور یعنی خوشامد، چاپلوسی کے ذریعے جو نالائق لوگ اہم عہدوں تک پہنچ کر ماحول کو تعفن زدہ کر کے ہر طرف سڑاند بھر دیتے ہیں ۔ کھوکھلے لوگ کھوکھلے نظام کو تقویت دے رہے ہیں۔ اچھی کہانی سنائی اس مسافر نے ۔
رات یوں ہی ڈھل گئی ۔ سورج کی کرنوں سے شال کی وادی نہائی ہوئی تھی۔ سپیشل سنگت ٹرین امید ، حوصلے، جستجو، جدوجہد کے رنگ لئے شال کے سٹیشن پرکچھ دیر سستانے کے لیئے رک گئی کہ اسے پھر سے اپنی منزل کی تلاش میں چلنا تھا۔ مسافر اترتے جا رہے تھے ۔۔۔ اور پھر کہیں سے ایک اور آواز آئی، یہ وصاف تھا ؛ سفر کا شور تھمے رک کے اک نظر دیکھوں، میں منظروں میں کبھی دھند اور شجر دیکھوں ۔۔۔!! دور سے اسامہ امیر کی آواز آ رہی تھی ؛ با وضو ہو کے اگر ہاتھ میں بھر لوں مٹی، کون کہتا ہے چمک دار نہیں ہو سکتی۔۔۔!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے