اسے روغدیہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔اس کے دکھ سکھ کی ساتھی،کڑے وقتوں میں جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے روغدیہ نے اس کا ساتھ نبھایا۔روکھی سوکھی کھا کر خوش باش رہی ۔کبھی شکوہ شکایت زبان پر نہیں لائی ۔۔۔وہ کیسے اس کے احسانات بھول سکتا تھا ۔۔۔جب اسے ناکردہ جرم کے تحت جیل ہوئی ۔فرد جرم عائد کرنے کے بعد اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔وہ تو اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا۔اس کے ایسے بہت سارے ساتھی جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ان کی بیویوں نے خلع کے پیپرز تھمائے ۔۔۔تمھیں تو اب ساری عمر جیل کاٹنی ہے ۔ہمارا کیا قصور ؟۔لہذا بہتر یہی ہے کہ ہمیں آزاد کردیا جائے۔۔۔اور یوں انہوں نے دکھی دل کے ساتھ پیپرز سائن کیے۔اس نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کر لیا ۔۔۔آخر روغدیہ بھی تو جوان ہے یقیناًوہ بھی دل میں ایسی ہی خواہش رکھتی ہوگی ۔۔۔سب عورتیں ایک ہی جیسی تو ہوتی ہیں۔شاید اس کی زبان سے خلع کی درخواست سننے کی تاب مجھ میں نہ ہو ۔۔۔بہتر یہی ہے کہ میں خود ہی اسے آزاد کردوں۔۔۔اگر اس نے اس خواہش کے اظہار میں پہل کردی تو شاید یہ بچی کھچی زندگی کاٹنی اور دشوار ہو!!! ۔
وہ کتنی دیر سے جیل کی سلاخوں پر سر ٹکائے بلک رہی تھی ۔اس نے حوصلہ مجتمع کرنے کے بعد مخلصانہ مشورہ دیا!۔
’’میری زندگی کے بقیہ دن اب جیل میں ہی کٹیں گے۔۔۔تم ابھی جوان ہو ۔۔۔صحت مند ہو۔۔۔‘‘اسے یہ کہتے ہوئے سینے میں شدید ٹیس سی محسوس ہوئی۔۔۔مگر اس نے اپنی کمزوری کو اس کے سامنے ظاہر کرنے سے گریز کیا ۔۔۔اور ایک مرتبہ پھر گفتگو کا سلسلہ جوڑا ۔۔۔’’میرا کوئی ولی وارث نہیں ہے ۔۔۔جو ان سخت حالات میں گھراور بچوں کی ذمہ داری اٹھا سکے ۔۔۔بس میرے بچوں کا خیال رکھنا ۔۔۔‘‘اس نے رندھی آواز میں کہا اور سر جھکا لیا تاکہ وہ اس کے آنسو نہ دیکھ سکے۔ ’’تنہا اتنی لمبی پہاڑ جیسی زندگی کاٹنے کے لیے مرد کی ضرورت ہوتی ہے۔میں تم پر کوئی جبر نہیں کرنا چاہتا بلکہ خوشی سے تمھیں آزاد کرتا ہوں اپنی زندگی پر حق حاصل ہے تمھیں۔۔۔تاکہ مجھ سے طلاق لینے کے بعد تم اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار سکو میرا ہونا اب تمھارے لیے نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔ ۔
روغدیہ جیسے تڑپ اٹھی ۔۔۔نہیں اللہ نہ کرے کس قسم کی فضول بات کی آپ نے ۔آئند ہ ایسی منحوس باتیں زبان سے نہیں نکالیں گے آپ۔۔۔ میں بھلا آپ سے کیونکر جدا ہو سکتی ہوں ۔ مجھے اللہ پر مکمل بھروسہ ہے ۔ آپ بے گناہ ہیں ۔کوئی قتل نہیں کیا آپ نے ۔۔۔پھنسایا گیا ہے آپ کو ۔ایک دن سب کو آپ کی بے گناہی کا یقین آئے گا انشااللہ ! اس نے پختہ یقین سے کہا ۔’’ میں نے صرف تمھارے نام کی چادر سر پر ڈالی ہے ۔کبھی کسی اور کا تصور بھی گناہ سمجھتی ہوں ۔آپ نے ایسی بات سوچ کیسے لی ؟ ۔
ایک اطمینا ن اور سرشاری اس کے رگ و پے میں سرائیت کرگئی ۔ساری عورتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں ۔۔۔اس نے سکون سے آنکھیں بند کرکے ابھرنے والے خدشات کو مسترد کردیا۔اس کے تما م ساتھی جنہوں نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے اپنی بیویوں کو طلاق دی تھی اس کی خوش قسمتی پر رشک کرنے لگے۔
پھر چند برسوں کے بعد سازش کا عقدہ کھل گیا جس کے تحت اسے پھنسایا گیاتھا اوروہ جیل سے رہا ہو کر گھر آیا۔اسے یقین نہیں آتا تھا کہ دوبارہ گھر کا راحت اور سکون نصیب ہو سکے گا۔
روغدیہ نے ایک بھیڑ اپنی بہن سے نیم سودی لے رکھی تھی ۔اس سودے بازی میں دونوں بہن کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ بھیڑ کی مالک مکمل طور پر اس کی بہن ہوگی ۔تاہم دیکھ بھال ،گھاس دانے کے عوض بھیڑ کی بڑھنے والی نسل میں دونوں برابر کی شریک ہوں گی۔دودھ کی مالک بھی روغدیہ ہو گی۔بھیڑ نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا۔روغدیہ نے اس کا نام احسان رکھا۔وہ اس کا حد سے زیادہ خیال رکھتی ۔اس نے اپنی بہن سے یہ طے کر لیا کہ وہ اس کے حصے کی رقم ادا کردے گی اور احسان مکمل طور پر اس کا ہو جائے گا۔۔۔اگر رقم کی ادائیگی میں کسی قسم کی بھی کوتاہی ہوئی تو بھیڑ کا اگلا بچہ مکمل طور پر بہن کا ہوگا۔ احسان کا مکمل طور پر اختیار پانے کے بعدوہ اس کا حد درجہ خیال رکھنے لگی ۔۔۔اسے یوں محسوس ہوتا جیسے یہ اس کی اولاد ہو۔۔۔وہ اس کے ساتھ باتیں کرتی ،نہلاتی دہلاتی،عید قریب آنے پر مہندی سے اس کے سفید برف جیسی اون پر بیل بوٹے بناتی ،موٹے دندانے والے کنگھے سے اس کے بال سلجھاتی۔۔۔مزمل اس کے لاڈوپیار کے ان نظاروں سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ چھیڑتا !’’ مجھے تمھاری احسان کے ساتھ اتنی لگاوٹ سے رقابت محسوس ہوتی ہے۔‘‘ مگر اس کی طرف سے بڑا پرسکون سا جواب موصول ہوتا’’ ہوتی رہے رقابت۔ اس کی اپنی جگہ اور آپ کی اپنی جگہ !!! میں بھلا آپ کی سوچ کا کیا کر سکتی ہوں ۔کم سے کم اس بے زبان جانور کے ساتھ تو خود کا موازنہ مت کریں۔وہ لاجواب ہوجاتا۔اس کی اچھی صحت دیکھتے ہوئے کتنے بہی خواہوں نے لاندی کا مشورہ دیا مگر روغدیہ کو اس بات پر بڑا طیش آتا ۔۔۔یہ کچھ اور وقت گزار لے میرے ساتھ پھر میں اسے اللہ کی راہ میں خیرات کروں گی!
کچھ دنوں سے اسے سخت بخار رہنے لگا تھا۔کھانے پینے سے بھی دل اچاٹ ہو گیا۔ سینے میں شدید تکلیف رہنے لگی تھی ۔۔۔تمام گھریلوٹوٹکے بے اثر ہو گئے ۔۔۔مزمل نے بچوں اور احسان کو سالی کے پاس چھوڑا اسے ہسپتال لے آیا۔۔۔ضروری ٹسٹوں کے بعد اس کے مرض کی تشخیص ہوئی اسے جگر کا کینسر لاحق تھا ۔۔۔جواب آخری سٹیج پر آپہنچا۔۔۔ڈاکٹروں نے مزمل کو آپریشن کی ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ مریضہ کو خوش رکھنے کی بھی تلقین کی ۔۔
’’اس مرض میں مبتلا ہم نے ایسے مریض بھی دیکھے ہیں جو ہمت و حوصلے سے کام لیں یا جن کے اند ر جینے کی امنگ ہو وہ فورتھ اسٹیج پر ہونے کے باوجود کینسر کو شکست دیتے ہیں ۔حالاں کہ ہم یہ تک بتا دیتے ہیں کہ مریض کے پاس اب کتنے دن باقی بچے ہیں مگر وہ کافی سال جی لیتے ہیں اور ایسے بھی مریض دیکھے ہیں جن کا کینسر ابتدائی اسٹیج پر ہوتا ہے مگر موت کا خوف انہیں وقت سے پہلے مار دیتا ہے ۔۔۔بہر حال آپ مریضہ کو حوصلہ دیں ممکن ہے اسے بھی چند سال اور کی مہلت مل جائے۔‘‘روغدیہ سے اس کی بیماری چھپائی گئی ۔عیادت پر آنے والی خواتین میں سے ایک کی زبان سے بے ساختہ پھسلتا جملہ اس کی سماعت سے ٹکرایا ۔۔۔اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہونے کا سننے کے بعد جینے کی آس جیسے ختم سی ہوگئی ،اس کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں سلب ہو گئیں۔مزمل کو ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کرنے کا وقت ہی نہیں مل سکا ۔۔۔وہ اس کا بے جان جسم لے آیا۔
اسے گھر کے کونے کونے سے روغدیہ کی مہک محسوس ہوتی تھی ۔۔۔خاص کر احسان کو دیکھنے کے بعد اسے روغدیہ کی ساری سرگرمیاں یاد آتیں تو خود پر قابو پانا محال سا ہو جاتا ۔۔۔احسان جس کی لاندی بنانے کی تجویز پر وہ سخت خفا ہوتی ۔۔۔اس نے اسے اللہ کی راہ میں خیرات کرنے کا سوچا تھا ۔۔۔’’یہ روغدیہ کا ہے اس کی امانت وہی اس کی اصل حق دار ہے۔اس نے اسے پالا پوسا بڑا کیا ۔۔۔میں اسے روغدیہ کے چہلم پر حلال کروں گا ‘‘ اس نے مصمم ارادے کے ساتھ خود کے ساتھ عہد کیا ۔’’پتہ نہیں میں اس کے بغیر زندہ رہ بھی سکوں گا‘‘ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
اس کی بڑی بیٹی اب چودہ سال کی تھی ماں کے بعد گھر کی تما م ذمہ داری اس نے سنبھال لی تھی مگر اس کی بہن اسے احساس دلاتی ۔مرنے والی مر گئی کب تک اس کا ماتم کرو گے مرد بنو مرد کیا عورتوں کی طرح آنسو بہاتے رہتے ہو ۔تیری جگہ کوئی بھی ہوتا دوسری شادی کا سوچتا ۔یہ کو ئی جرم نہیں ہے ۔حق ہے زندگی پر تمھارا بھی ۔۔۔’’ مگر ابھی تو بچوں کی عمر شادی کو آپہنچی ہے ‘‘ اس نے جواز پیش کیا ’’ ہوتی رہی گی ان کی شادی بھی ،پہلے وقت تو آنے دو ۔ بس میں نے تیرے لیے لڑکی دیکھ رکھی ہے بلکہ بات بھی کر لی ہے ۔سادگی سے دو چار لوگوں کے درمیان تیرا نکاح پڑھوانا ہے ۔وہ لوگ بھی راضی ہیں ،اگلا جمعہ ٹھیک رہے گا‘‘ بہن نے حتمی فیصلہ سنا دیا ۔
’’ مگر ابھی تو روغدیہ کا چہلم بھی نہیں آیا ۔آخر لوگ کیا کہیں گے اتنی عجلت کیوں ؟ ‘‘
’’ اگر مگر اور لوگوں کے کہنے کو چھوڑو بس اپنی فکر کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو لڑکی ہاتھ سے نکل جائے ابھی تو راضی ہیں۔ مگر دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں کسی نے سن لیا تو فتنہ پروروں کا کچھ پتہ نہیں چلتا گڑبڑ نہ ہوجائے۔ ویسے بھی خیر کے کام میں تاخیر کیسی؟نئی بیوی آئے گی تو چہلم کے انتظامات بھی بحسن و خوبی سنبھالے گی۔‘‘
وہ قائل ہو گیا۔آج اس کا نکاح تھا ۔بس چند ہی لوگ مدعو تھے ۔نکاح کے بعد اچھے سالن اور پلاؤ کا انتظام بھی کرنا تھا ۔مرنے والی کے چہلم سے زیادہ ضروری یہ مختصر سی ولیمے کی دعوت تھی اس نے وسیع صحن میں بندھے احسان کو دیکھتے ہو ئے چھری تیزکی!!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے