دادی ہر وقت کو ستی رہتی ہے کہ ’’میں سارادن یک وتنہا ، چڑیل کی طرح اپنے کمرے میں بیٹھی رہتی ہوں ۔ حرام ہے اگر کوئی میری طرف آئے اورجھانک کربھی دیکھے کہ میں مر گئی ہوں یا زندہ ہوں ۔ بس روٹی کا ٹکڑا لا کر میرے سامنے پھینک دیتے ہیں ۔ وہ گھر میں بندھے ہوئے کتے کے سامنے بھی اسی طرح روٹی کا ٹکڑا پھینک دیتے ہیں‘‘۔
ایک روز بیٹے کو ماں پہ بہت پیار آیا ۔ اس نے مجھے ایک ریڈیو لا کر دیا،اور کہا ’’ اماں تنہا بیٹھی رہتی ہو۔ یہ ریڈیو سنا کرو۔ بہت میٹھے بلوچی گیت اور نغمے بجاتا ہے ، بلوچی خبریں سناتا ہے۔ تمہارا وقت اچھا گزرے گا ‘‘۔ میں نے کہا ’’ریڈیو کے نغموں اور گانوں کے بجائے گھڑی بھر تم لوگوں کو دیکھ لینا مجھے لاکھ درجہ اچھا لگتا ہے ‘‘۔
دادی نے ایسی باتیں کیں کہ مجھے اس پہ ترس آگیا ۔ میں نے کہا’’ اچھا دادی اب میں روزانہ کے کام کاج سے فارغ ہوتے ہی تمہارے پاس آیا کروں گی اور بیٹھ کر اپنی سلائی کڑھائی کیا کروں گی ‘‘۔
دوسرے دن میں وعدے کے مطابق آکردادی کے قریب بیٹھ گئی ۔ دادی کی بہو ، جانی نے جب مجھے دیکھا تو وہ بھی آگئی اور میرے ساتھ بیٹھ گئی ۔ دادی نے کہا ‘‘آج کیسے راستہ بھول گئی ہو؟‘‘
پھر میری طرف دیکھ کر کہا ’’ تمہیں دیکھ کر آئی ہے ‘‘۔ جانی مسکرائی ۔ کچھ ہی دیر میں ننھی ماہ گل دوڑتی ہوئی آئی اور کہنے لگی ’’اماں !میرے بوٹ کہاں ہیں۔ بھیا مجھے اپنے ساتھ لے کر جارہے ہیں ‘‘۔ ماں نے کہا ’’میز کے نیچے دیکھو‘‘بچی نے جواب دیا ’’میں نے ساری جگہیں چھان ماریں ، نہ تومجھے کالے بوٹ ملے اور نہ ہی سفید ۔ میرے چپل بھی گم ہیں ‘‘۔
ماں نے کہا ’’اچھا ، یوں کرو کہ میری چار پائی کے نیچے ڈبے میں تمہارے نئے بوٹ رکھے ہیں ۔ وہ پہن کر چلی جاؤ ، مگرانہیں خراب نہ کرنا ‘‘۔ بچی واپس مڑی اور بھاگتی ہوئی چلی گئی ۔
دادی نے کہا ’’ ہاں ، ہاں ۔ جاؤ۔ جاکر تلاش کرو۔ تمہاری ماں کے صندوق اور الماریاں بوٹوں اور جرابوں سے بھری پڑی ہیں ۔ سارے غریبوں اور ناداروں نے تمہاری جرابیں اور بوٹ پہن رکھے ہیں ۔ مگرتمہارے اپنے پہننے کے موقع پر یہ گم ہیں۔ تمہارا باپ جب دفتر جاتا اور آتا ہے تو پورے راستے پہ گویا اس پر پانچ پانچ سو اورہزارہزار روپے والے نوٹوں کی بارش ہوتی رہتی ہے اور وہ انہیں چنتا رہتا ہے ۔ پھر تم لوگ بھلا کیوں ان پیسوں سے بوٹ ، جراب ، گاؤن اور فراک خرید کر تقسیم نہ کرو اور نام نہ کماؤ‘‘ ۔
جانی کے چہرے کی رنگت بدل گئی اور اس نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے کہا ’’تو بہ خداتو بہ ۔ طعنہ اور تنقید کے علاوہ کوئی بات نکلتی ہی نہیں ‘‘۔ وہ اٹھ کر چلی گئی ۔
جانی کا باہر نکلنا تھا کہ ابراہیم داخل ہوا ۔ ابراہیم نے ماں کو سلام کیاا ور پوچھا ’’اماں آپ کیسی ہیں ، ٹھیک ہیں ؟‘‘ ۔ ماں نے سلام کا جواب دیا اور کہا ‘‘ ٹھیک ہوں بیٹا ۔ مگر تم آج دفتر نہیں گئے کیا؟‘‘
’’آج کل دودنوں کی چھٹی ہوگئی ہے ، جمعہ اور ہفتہ کی ۔ آج ہم ساتھی شکار پہ جارہے ہیں ‘‘۔ ابراہیم نے جواب دیا ۔
’’اللہ تمہارا حامی وناصر ہو ۔ یہاں تو کوئی بھی مجھے اپنی باتیں نہیں بتاتا ۔ نہ ہی میں نے تمہیں جمعہ اور ہفتہ کے دنوں میں دیکھا ‘‘۔
ابراہیم نے وہیں سے آواز دی: ’’اوجانی !وہ چیزیں میرے شکار والے بیگ میں ڈال دو‘‘۔
جانی نے وہاں سے جواب دیا ’’یہ بیگ توبیکار ہے اس کا توزپ ٹوٹا ہوا ہے ‘‘۔
’’بس چھوڑ دو میں جاکر دوسرا خرید لاؤں گا‘‘۔
دادی سے رہانہ گیا، کہنے لگی:‘‘ بیٹا اسی کو مرمت کر والو۔ کیوں سو پچاس ضائع کر و گے ؟‘‘۔
’’سو پچاس کہاں اماں ۔ تین چار سو روپے ۔ مگر اس کی مرمت میں دو تین گھنٹے لگیں گے اور ادھر سارے ساتھی تیار بیٹھے ہیں‘‘ ۔ ابراہیم نے کہا ۔
’’تو پہلے دیکھا ہوتا ۔ یا تمہاری ’’بی بی ‘‘ جیسی بیوی نے دیکھا ہوتا ۔ میں تو نہیں کہتی کہ پیسے لا کر مجھے دو ، یا جار جٹ اور بنارسی کر کے مجھے پہنا دو ، یا چاول وکباب وسجی کر کے مجھے کھلا دو ۔ تمہارا سایہ سلامت ہو ۔ میں تو ایک روٹی کی مالکن ہو کر رہ گئی ہوں ۔ میں تو بس یہ کہتی ہوں کہ کچھ بچا کر رکھا کر و‘ سختی اور ضرورت کے وقت تمھارے کام آئے گا ۔ ہنستے وقت تو سب ساتھ دیتے ہیں مگر روتے وقت کوئی بھی تمہارے ساتھ نہیں روئے گا ۔ مشکل وقت میں اپنا ہی کام آتا ہے ۔ یہ بیوی تمہیں کسی دن تن کے کپڑوں سے بھی محروم کر دے گی ‘‘۔
’’بیوی کا کیا قصور !۔مگر آپ اسے ضرور بیچ میں لائیں گی ‘‘۔ ابراہیم ناراض ہوکر ماں کے کمرے سے باہر نکل گیا۔
دادی نے میری طرف منہ پھیر کر کہا ’’ دیکھا ! میری اچھی باتیں ان کے لیے گویا گالی ہیں۔ بیوی کا نام لیتے ہی جیسے بلی اس کے کپڑوں میں داخل ہوگئی ہو‘‘۔
میں نے کچھ نہ کہا ۔ اسی دوران حورجان آئی ۔دادی نے اس سے پوچھا: ’’تم نے کھانا کھالیا ؟ اور کس چیز کے ساتھ؟‘‘۔
’’میں نے روٹی نہیں کھائی ۔ چاول قیمہ کھایا‘‘۔
’’مجھے یقین نہیں آتا ۔ ابھی ابھی آئی ہو ۔ اتنی جلدی لباس بھی تبدیل کر لیا اور کھانا بھی کھا لیا ؟۔ تمہارا کھانا نہ ہوا چڑیا کا چگنا ہوا ۔ میں دوسروں کے بچوں کو کھاتے دیکھتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں ۔ اسی لیے تو وہ اتنی جلدی بڑے ہوجاتے ہیں ۔ تم خود کو دیکھو ، اپنے ہم عمروں کے سامنے بہت چھوٹی لگتی ہو۔‘‘
’’بس اماں !تمہاری آنکھیں ہمیشہ دوسروں کے بچوں پر لگی رہتی ہیں۔ جتنا پیٹ میں سما سکے آدمی اتنا ہی کھاتا ہے ۔بلکہ ڈاکٹر تو کہتے ہیں کہ بسیار خوری اچھی نہیں ہوتی ‘‘۔
’’بکواس کرتے ہیں ڈاکٹر ۔ تم لوگوں کے پیٹ تمہاری ماں نے بچپن سے خشک کر دیئے ہیں۔اس نے تم لوگوں کو کچھ نہ دیا ۔ خود ہی اس نے تمہاری آنتیں سُکھادیں ‘‘۔ وہ کچھ دیر چپ رہی ،پھر بولنے لگی ’’تم کتنے دن سے سکول سے آکر یہی لباس پہن رہی ہو ؟۔ تمہاری ماں نے کتنے جوڑے خرید کر سلوائے ہیں ؟۔ مگر تم اس قدر میلی کچیلی ہو‘‘۔
’’تمہارے کپڑے خدانے تمہاری قسمت میں نہیں لکھے ۔ پتہ نہیں کس صندوق یا الماری میں اُس وقت تک پڑے رہیں گے جب تک کہ وہ تم سے چھوٹے نہ پڑ جائیں ۔ تب تمہاری ماں انہیں اپنے عزیزوں رشتہ داروں کے بچوں کو بانٹ دے گی‘‘۔
حور جان نے اپنا سر ہلایا اور پھر سر کھجانے لگی۔
’’تم سکول میں بھی اپنا سر اسی طرح کھجلاتی ہو۔؟ یہاں تو سارا دن تمہارا ہاتھ تمہارے سر میں ہوتا ہے ۔ مجھے تو تم اپنے سر کو چھونے نہیں دیتیں ۔ تمہاری ماں کو گھر گھر گھومنے اور رشتہ داریاں نبھانے سے فرصت نہیں ملتی ۔ صبح ہوتے ہی وہ سارا دن مراثن کی طرح ایک گھر سے نکلتی ہے تو دوسرے میں گھستی ہے ‘‘۔
حور جان !اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک لے گئی۔ مگر دادی نے نہیں دیکھا ۔ دوبارہ دادی نے گھور گھور کر حور جان کو دیکھا اور کہا ’’ اس بد بخت پیسٹ برش نے ہزاروں لوگوں کے دانت چھیل کر کوتاہ کر دیے ہیں ۔ ہمارے پاس پیسٹ اور برش نہ تھے اور ہم گزنامی لکڑی کے کالے کوئلے کو پیس لیتے تھے۔ اس میں نمک ڈال کرڈبوں میں رکھتے اور روزانہ اپنے دانت اس سے صاف کرتے ۔ ہمارے دانت سیپی کی طرح سفید ہوتے تھے ۔ تم کہتی ہو کہ روزانہ دانت صاف کرتی ہو مگر تمہارے دانتوں پرتوزرد تہہ جم گئی ، صاف کیے ہوئے دانت اس طرح ہوتے ہیں ؟‘‘۔
’’نہیں صاف کرتی ، بس ۔ کیا کرو گی میرا ؟ ۔تمہارے پاس بیٹھ کر آدمی بیزار ہوجاتا ہے‘‘۔ حور جان ناراض ہوکر چلی گئی۔
’’نکال پھینک دو، میری طرف سے کبھی نہ صاف کرو ۔ تمہارے اپنے دانت ہیں سڑ جائیں گے ‘‘۔دادی اپنے آپ سے بڑ بڑائی ۔
اس دوران محمد آگیا اور دادی کے گلے لگ گیا۔ ’’میری اچھی اماں !کیا بات ہے ؟ ‘‘
’’بات کیا ہے ۔یہ حوری جو ہے نا، یہ اچھی بات سے پاگل ہوجاتی ہے ‘‘۔
دادی نے محمد کا سر گود میں لیا اور ہاتھ سے اس کی پیشانی پر سے بال دور کرنے لگی۔دادی نے کہا:
’’اپنا چہرہ دیکھو، کتنے دانے ہیں اس پر ۔ یہ سب تمہارے نوچتے رہنے سے نکلتے ہیں ۔ سارا دن تمہارے ہاتھ دانوں پر لگے رہتے ہیں ۔ اپنا خوبصورت چہرہ کھر چتے رہنے سے تم نے اسے چیچک زدہ کر دیا ہے ‘‘ ۔ محمد نے اپنا سردادی کی گود سے اٹھایا اور وہ بالشت پر چڑھ بیٹھا ۔دادی نے اپنے بازو محمد کی گردن کے ساتھ حمائل کر دیئے۔ اس کا ہاتھ اس کی قمیص کے کالر سے لگ گیا۔ کالر کوجب اس نے الٹا دیا تو کہا ’’ہی !تمہار ا کالر کس قدر میلا ہے ۔ لگتا ہے کہ تم کبھی بھی اپنی گردن نہیں دھوتے ‘‘۔
’’میں روزانہ نہاتا ہوں تو گردن کیسے نہیں دھوؤں گا ‘‘۔ محمد نے ہنستے ہوئے کہا ۔ ’’میں نے سر پر تیل لگایا ہے ۔ اور یہ تیل ہے ‘‘۔
دادی نے کالر مزید نیچے کر لیا ’’اڑے ۔ یے ۔۔۔تمہاری خوبصورتی گردن کس قدر کالی پڑ گئی ہے ۔ اگر اسے دھوتے ہو تو اچھی طرح رگڑ تے نہیں ہوگے ۔ تم کیا چیز ہو؟ ‘‘
محمد ناراض ہوگیا اور دیدے پھاڑنے لگا ۔ ’’تو کیا اپنی گردن کی کھال اتاروں ؟۔ میں گندا ہوں ، نہیں خود کو دھوتا ۔ بس !۔کیا کروگی ، جان سے ماردو گی مجھے ؟ ‘‘۔
اس نے دادی کا بازوزورسے اپنی گردن سے الگ کر دیا او ریہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ ’’بیزار کر دیا تم لوگوں نے مجھے‘‘۔
’’ھو ، ھو ، ھو! میں نے تمہارا کیا بگاڑ دیا کہ تم نے میرے بازو اپنی گردن سے دھکیل دیئے ۔ بیٹا ! ابھی میرے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں تو مجھ سے یہ سلوک ہو رہا ہے ۔ مگر میں مفلوج اور اپاہج ہو جاؤں توتم لوگ تو مجھے اسی دن سڑک پر گھسیٹ پھینکو گے ‘‘۔دادی نے فریاد کی ۔ احمد نے اس کی آواز سنی تو دروازہ ذرا کھولا ، جھانکا اور مجھے دیکھ کر ہنس پڑا ۔ آخر وہ اندر داخل ہوا ۔ اس نے پرانے زمانے کی کھلی ڈلی قمیص شلوار پہن رکھی تھی ۔ بلوچی چپل ڈالے ہوئے تھے۔ اس نے کھڑے کھڑے اپنے لباس کی طرف اشارہ کر کے مجھے دیکھا ۔میں نے بھی سرکے اشارے سے کہاکہ بہت اچھے لگتے ہو۔ پھر اس نے دادی سے پوچھا :
’’بی بی کیوں چپ ہو؟‘‘۔
’’کیا کہوں؟‘‘،
’’میرالباس کیسا لگ رہا ہے ؟‘‘۔
’’مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔ تم لوگ جانو تمہارے کام جانیں۔ میں بات کرتی ہوں تو تم لوگ میرا گلا دبانے آتے ہو۔ اب یہ کوئی لباس ہے جو تم نے پہن رکھا ہے ؟ ۔جیسے جمعہ خان کے چرواہے کا لباس ہو ۔ اس سے تو تم پہ ہلکے رنگ والا جوڑا بہت اچھا لگتا ہے ‘‘۔
’’یہ پیشن (فیشن ) ہے پیشن !۔ میرا لباس تو پھر بھی چھوٹا ہے ۔ لوگ تو دس دس میٹر کی شلوار سلوانے لگے ہیں ‘‘۔
’’جو کوئی بھی جھک مارے تو وہ ’’پیشن ‘‘ہوا ۔ گھی بہت ہے گھر ۔۔۔۔ ‘‘۔ اس نے ایک گندی ضرب المثل سنائی ۔
’’اماں بی بی ! کوئی چیز تو بتاؤ جو اچھی ہو؟‘‘۔
’’میں نے تم لوگوں میں کوئی اچھی چیز دیکھی ہی نہیں ۔ اب اس وسیع لباس کی روزانہ کی دھلائی اور استری دیکھو تو تمہاری ماں کی چیخ وپکار اور صلواتیں تو ہوں گی ۔ اِسے کون دھوئے گا اور کون استری کرے گا؟‘‘۔
’’آپ فکر نہ کریں ، اسے مشین دھوئے گی اور استری میں خود کروں گا ، میں خود ‘‘۔ اس نے سینے پر ہاتھ مارا۔
دادی طنز میں ہنسی ۔ ’’ہاں !ہاں تم اور استری ؟۔ کل میں نے غسل خانہ میں پڑا ایک کپڑا دیکھا ۔ جب اٹھا کر دیکھا تو تمہاری بنیان تھی ۔ اس قدر میلی کچیلی کہ کوئی پہچان نہ سکتا تھاکہ یہ بھی کبھی سفید رنگ کی رہی ہوگی۔ تم اپنی بنیان نہیں دھوسکتے ، بات کرتے ہو کپڑے دھونے اور استری کرنے کی‘‘۔
’’بس بس اماں ! تم سے بات کرنا گناہ ہے ‘‘۔
’’مت کرو تم لوگ مجھ سے بات۔ میں سچ بولتی ہوں اور سچ تم لوگوں کو برا لگتا ہے ‘‘۔
احمد کی اماں آئی اور کہنے لگی ’’احمد تمہیں تمہارا بابابلا رہا ہے ‘‘ احمد نے ناراضگی سے اپنا سر جھٹک دیا اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔ احمد کی اماں آکر بیٹھ گئی ۔ کہنے لگی:
’’آج بہت تھک گئی ہوں ۔ جھاڑو دینے میں لگی رہی ہوں ۔ اِس دودنوں والی ہوانے سارا گھر مٹی سے بھر دیا تھا‘‘۔
’’ہمیں غرض نہیں ہے۔ اپنی تھکن مت بتاؤ‘‘۔ دادی نے کہا ۔ ’’میں بات کرتی ہوں تو کہتی ہو کہ تم میرے لیے نوکر نہیں چھوڑتیں ، انہیں بھگادیتی ہو ۔ تمہارے اگر دس نوکر بھی ہوں نا ، تب بھی تمہارا کام تمہارے اپنے سر پہ ہوگا۔ اب تمہارا یہ جو نوکر ہے ناں ، جب جمعرات کی شام ہوتی ہے تو تم اس سے کہتی ہو’’ جاؤ بے چارے ، کل جمعہ ہے تمہیں چھٹی ہے ‘‘ ۔وہ نہیں کہتا کہ مجھے چھٹی دیدو ، تم زبردستی اسے بھیج دیتی ہو ۔ نہ اس کی ماں یہاں ہے ، نہ باپ ، ایک بھائی ہے جو طالب ہے اور مسجد میں پڑا ہے ۔ ہزار جی جان کہتی ہو اُسے ۔ ہ لڑکا کونسا کمال دکھاتا ہے ؟۔میں تمہاری ماں ہوں ۔ مجھ سے ہزار نخروں سے بات کرتی ہو ، مگر نوکروں کے سامنے بچھ جاتی ہو۔آخر ہم بھی اپنے زمانے میں بی بی رہے ہیں ، ہمارے بھی نوکر تھے۔ ہم آنکھ اٹھاتے تو نوکروں کا پیشاب نکل جاتا تھا‘‘۔
احمد کی ماں نے کہا’’ اماں! اب زمانہ ہدل چکا ہے ۔ وہ وقت اور تھا۔ اب تو نوکر آنکھ اٹھائیں تو مالکن کا پیشاب نکل جاتا ہے ‘‘۔
’’میں دوسروں کے نوکر بھی دیکھتی ہوں ۔کسی نے نوکر لاڈ سے نہیں رکھے ہیں اور سرپہ بٹھائے ہوئے نہیں ہیں ۔ اصل میں تمہیں نوکر رکھنا ہی نہیں آتا ‘‘۔
’’میں تو خود شروع سے نوکر رہی ہوں ، میں نوکر رکھنا کیا جانوں ؟‘‘ ۔ احمد کی ماں ناراض ہو گئی ۔
’’واہ! اب یہ ناراض ہونے کی بات ہے جو تم پاگل ہو رہی ہو ؟ ۔میری اچھی باتوں سے تم لوگوں کو اتنی چڑ کیوں ہو جاتی ہے؟‘‘
’’میں یہاں آئی تھی کہ ذرا سادم لے لوں ۔ مگر تم انسان کو آرام سے کہاں چھوڑتی ہو ؟۔ تمہارے منہ میں طعنہ اور چوٹ کے علاوہ کوئی اور اچھی بات ہے ؟ ہر کسی کو خود سے دور کر چکی ہو ، ہر شخص تم سے دور بھاگتاہے ‘‘۔
اس نے اپنے ہاتھ زمین سے ٹیک دیئے ، اف کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔
’’اٹھ چکی ہو؟‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’جاتی ہوں ، ذرا سا ٹانگیں سیدھی کر لوں ، لیٹوں ‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
میں اور دادی اکیلے رہ گئیں۔ میں بھی بیزار ہوگئی ۔ میں نے کہا ’’بی بی !ناراض نہ ہونا ایک بات کروں ؟‘‘۔
’’مجھے پتہ ہے کہ تم بری بات نہیں کروگی ‘‘۔دادی نے کہا۔
میں نے دادی کی منت کی اور کہا’’تمہارے بچے اب خدا کے فضل سے بڑے ہوگئے ہیں۔اب تم ان کے ہر کام میں دخل نہ دو ۔ ان کے لیے دعا کرو کہ خدا انہیں برے کاموں سے دور رکھے ۔ خدا اُن کی مصیبت اور غم تمہیں نہ دکھلائے ۔ جب تک بچہ چھوٹا ہوتا ہے اور ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے ، تووہ بات مانتا ہے ۔ جو کچھ اسے کھلایا جائے ، کھاتا ہے ۔ جو کچھ اُسے پہنا دیا جائے ، پہنتا ہے ۔ مگر جب وہ خودماں باپ بن جاتے ہیں ، تب تمہیں ان کے پیار اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ، اُن کے کام اور خدمت کی محتاجی ہوتی ہے ۔ تم اُن کی رضا سے راضی ہوجاؤ ار اُن پہ بے جا تنقید نہ کیا کرو۔ وہ جب بھی تمہارے پاس آتے ہیں تو تم کہتی ہو’’ یہ چیز خراب ہے ، تم گندے ہو، نہاتے نہیں ‘‘۔ اب وہ تمہاری نصیحت نہیں مانتے ۔ وہ تم سے نیک دعا چاہتے ہیں ۔ میری تمہاری پچاس سال پرانی باتیں وہ اب نہیں مانتے کہ شلوار کو یوں کرو، لباس کو اس طرح پہنو‘‘۔
دادی کو میری باتیں اچھی نہیں لگیں۔ اس نے بالشت کھینچی ، چادر ڈالی اور لیٹ گئی۔ میں نے بھی اپنا سوئی دھاگہ لپیٹا اور باہر نکلی۔
اب میں سمجھی کہ دادی کیوں تنہا ہے !۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے