دھرتی پر جو پھول کھلے ہیں
سب کی اپنی اپنی خوشبو
سب پھولوں کے رنگ جدا ہیں
دھرتی اپنی کوک کی ساری شادابی سے ان پھولوں کو پال رہی ہے
موتیوں جیسی شبنم سے
دھرتی پھولوں کا منہ دھوتی ہے
پھول کھلیں تو
دھرتی کیسے خوش ہوتی ہے
جب بارود کی بو پھیلے تو
پھولوں کے دم گھٹ جاتے ہیں
خون کے چھینٹے پڑ جاء4 یں تو
پھولوں کے اجلے چہرے کملا جاتے ہیں
دھرتی کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں
ہم سے پہلے پھولوں کے جو رکھوالے تھے دکھ سہتے تھے
ظلم کے آگے چپ رہتے تھے
ہم دھرتی ماں کے بچے ہیں
ہم ہیں باغ سجانے والے
دھرتی کی خوشیوں کی خاطر
تارے توڑ کے لانے والے
ہم پھولوں کا
ایسے خون نہ ہونے دیں گے
ماں کو اب نہیں رونے دیں گے
دھرتی تجھ سے عہد ہے اپنا
سب رنگوں کی ہر خوشبو کی سب پھولوں کی بات کریں گے
ظلم بڑا خاموش رہے تم ہم بولیں گے
اب یہ گرہیں ہم کھولیں گے