اس آزاد ، روشن خیال، دانا انسان نے عقل اور جوش کے ساتھ سندھ دھرتی اور وارثوں کے لیے جیے سندھ کے خالق قومی اور انقلابی شاعر قانون دان ، سیاست دان، جاگیرداری لوٹ ماری کے دشمن ، غلامی سے آزادی کا پیغام دینے والا، انسانیت دوست ، فلاسفر، کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا جنم نیک انسان اللہ داد خان جتوئی گھر واقع گوٹھ بکھو دیر وضلع لاڑکانہ میں 07اکتوبر1901میں ہوا۔ دوسال کا تھا کہ والدہ انتقال کر گئیں۔ والد اور والد کی بہن (پھوپھی ) نے پالا۔
ابتدائی تعلیم اپنے پرانے گاؤں بکھو دیرو گوٹھ پٹھان کے قریب باقرانی میں1911تک حاصل کی۔1918میں سندھی فائنل کا امتحان پورے سندھ میں پہلی پوزیشن سے پاس کیا۔ سندھ سرکار نے اسے سکالر شپ دی ۔ اور وہ مدرستہ الاسلام لاڑکانہ میں داخل ہوا۔ اس نے ایک سال کا کورس چھ ماہ میں مکمل کر کے ڈھائی سال کے عرصے میں پانچ درجے مکمل کیے۔ اس کے بعد گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول میں ہوشیار اور ذہین طالب علم کی حیثیت سے مفت ہاسٹل مفت بورڈنگ ، سکول کی فیس معاف اور بارہ روپے ماہوار سکا لر شپ کی بنیاد پر داخلہ ملا۔1923میں میٹرک پاس کیااور1924میں ڈی جی کالج کراچی میں داخلہ لیا۔ کالج میں بھی اسے30روپے ماہوار سکالرشپ اور مسلمانوں میں پہلا نمبرہونے کی بنیاد پرسکالر شپ 15روپے بھی ملتے رہے ۔ اسی طرح تعلیم کے دوران مختلف قسم کے انعامات ملتے رہے۔
1927میں بی اے فارسی بمبئی یونیورسٹی سے پاس کیا۔1928میں سرکاری ملازمت بہ حیثیت ہیڈمنشی شروع کیا۔ اور تنخواہ تحصیلدار کی لیتا رہا۔ اور ریونیورڈیپارٹمنٹ میں تحصیلدار کی آسامی آنے پر امتحان دیا۔ اور پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ 14سال کی نوکری کرنے اور اپنی جوانی کے عروج میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔اس وقت ان عہدوں پر انگریز ملازم ہوا کرتے تھے ۔ اور سندھی یا مسلمان اعلیٰ عملدار نہیں ہوتے تھے۔ اور سندھ کے آدھے لوگ ملازمتوں کیلئے دھکے کھاتے تھے۔
حیدر بخش جتوئی1945میں سندھ کسان کمیٹی میں شامل ہوا۔ ملازمت چھوڑ کے ان کے سیاست میں آنے کے خاص اسباب تھے:
پہلے تو سندھ میں وڈیروں کے ظالمانہ عمل ان کی مسلسل آسائش اور عیاشیاں قوم دشمن زندگی گزارنا حکمران طبقے کے ظلم اور رشوت خوری کا بازار گرم ہونا ، کسانوں کی مفلسی اور لاوارثی کے علاوہ جنگ لڑنے والے جوانوں پر انگریزی راج کی زبردستی جبر۔ خاص کر کا مریڈ عبدالقادر میوا خان کھوکھر جیسے لیڈروں کی قیادت میں سندھ میں جاگیرداروں کے خلاف سندھ کسان کمیٹی کی شاندار تحریک اور بڑی کسان کانفرنسیں ہیں۔
کالج کے زمانے میں مسلسل اینگر کے مضامین پڑھنا، تھیو سافیکل سوسائٹی کے اچھے اصول تمام انسان بھائی ہیں، سچ سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ جرمن فلاسفر ھیگل کی تھیوری ۔ سٹالن کارل مارکس لینن اور اینگلز کے انقلاب اور طریقہ زندگی، برطانیہ کے مشہور سائنٹسٹ چارلس ڈارون شامل ہیں۔
مسٹر جٹھل رام، جمشید مہتا ، عبدالقادر میوا خان کھوکھر، شیخ عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید کی کوششوں سے1930میں بنی ہوئی سندھ کسان تحریک جو کہ کافی عرصہ سے غیر موثر ہوگئی تھی۔ جو کہ1945میں حیدر بخش جتوئی کی شمولیت سے نئے رنگ وروپ اور جوش جذ بے کیساتھ متحرک ہوگئی ۔ حیدر بخش جتوئی نے اس پلیٹ فارم سے ہفتہ وار اخبار ’’ہاری حقدار‘‘ جاری کیا۔ جس کے ذریعہ کسان انقلاب کے راستے اور منزل کو آسان بنانے اور وڈیروں اور جاگیرداروں کے کسان کے ساتھ نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا شامل تھا۔
اور اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کسانوں نے صدیوں سے سرداروں نوابوں اور جاگیرداروں، وڈیروں کے خلاف اپنے نمائندے الیکشن میں کھڑے کرنا شروع کیے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کے خالص مسلم لیگ کے بعد دوسرے نمبر کسان پارٹی کے حامیوں کو ووٹ ملنے لگے ۔ پہلی دفعہ سندھ کی تاریخ میں وڈیروں نوابوں اور سرداروں کو اپنے آرام دہ بنگلوں سے نکل کر عوام کے دروازوں تک ووٹ مانگنا پڑا۔ اس سے قبل وہ چھوٹے وڈیروں اور سرکاری عملداروں کی بدولت الیکشن جیتتے تھے۔ اس الیکشن میں ہاری (کسان) پارٹی نے شاندار مقابلہ کیا۔ مگر جاگیرداری طبقہ کی مضبوطی، کسان پارٹی کی غربت ،تعلیمی جہالت اور کم شعوری کی وجہ سے کسان پارٹی کا میاب نہ ہوسکی ۔
1950میں ضلع دادو میں پیر الہی بخش کی خالی کی ہوئی سیٹ پر کامریڈ حیدر بخش جتوئی اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمد ایوب کھوڑ وکے سالے کے مقابلے میں الیکشن میں کھڑا ہوا۔ محمد ایوب کھوڑو نے اس کو نا مینیشن فارم بھرنے نہ دیا۔ اور اپنے سیٹ پر سردار سلطان احمد چانڈیہ کے مقابلہ میں فارم بھردیا۔ سلطان احمد خان کے لوگوں نے حیدر بخش جتوئی صاحب پر پتھر برسائے ۔ اور ورک کرنیوالے تمام گاڑیوں کے ٹائر پھاڑ دیے۔ اور انہیں اغوا کرنے ،زخمی کرنے، کے بعد پھینک دیا گیا ۔ اور ان کے ساتھیوں کیساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔
10مارچ 1951کے الیکشن کے خلاف ہاری پارٹی نے اپیل کی اور سلطان احمد چانڈیو کے الیکشن کو غلط قرار دیا گیا۔ کیونکہ سلطان احمد چانڈیو کی عمر الیکشن لڑنے کی نہیں تھی۔ غلط سرٹیفیکٹ دینے والے ہیڈ ماسٹر کو توسزا نہ ہوئی، مگرسندھ کے جاگیرداروں میں بڑا غصہ پیدا ہوا ۔ اور انہوں نے کامریڈ جتوئی کو گرفتار کروا کرجیل بھجوادیا۔
سندھ کسان (ہاری)کانفرنس کسانوں میں اتحاد اور شعور پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔سال1948میں30اور 31مئی کو رتو دیرو میں کسان کانفرنس منعقد ہوئی۔جس میں پہلی دفعہ کامریڈ جتوئی صدر منتخب ہوا جبکہ کامریڈ عبدالواحد لاڑکانے کا ضلعی صدر اور علی محمد عباسی ضلعی نائب صدر ہوا۔ عباسی نے تو کسان تحریک کو منظم کر کے عروج پر پہنچایا ۔ اس کے بغیر کسان تحریک لاڑکانہ میں نا مکمل تھی۔ کیونکہ وہ وڈیرے کا بیٹا تھا ۔ اس نے اپنا روپیہ پیسہ اوطاق اور اپنی صلاحیتیں کسان تحریک پروقف کردیں۔
دسمبر1951میں ر تو دیرو میں کسان کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت عبدالقادر میوا خان کھوکھر نے کی ایک تاریخی کانفرنس 15مارچ 1953کو تجرباغ لاڑکانہ میں ہوئی جس کی صدارت کامریڈحیدر بخش جتوئی نے کی۔ یہ کانفرنس سندھ کی یاد گارہاری کانفرنس تھی۔ جس میں جی ایم سید صاحب میاں افتخاراحمد ، پیرا لاھی بخش ، برکت علی آزاد جمال الدین بخاری ، غلامی محمدلغاری ۔ رسول بخش پلیجو ۔ قادر بخش نظامانی اور دوسروں نے خطاب کیا ۔ اسی طرح اسی باغ میں اپریل 1954کو حیدر بخش جتوئی کی صدارت میں اجلاس ہوا۔
ون یونٹ کے خلاف ہاری کانفرنس مارچ1957میں لالورانک وارھہ تحصیل میں ہوئی جس کی صدارت کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے کی ۔15مئی1957کو کامریڈ علی محمد عباسی کی کوششوں سے گوٹھ ولید تحصیل لاڑکانہ میں ہاری کانفرنس ہوئی جس کی صدارت ذولالفقار علی بھٹو نے کی ۔
کامریڈ حیدر بخش جتوئی ایک آئینی اور قانونی شخصیت کا مالک تھا۔ اس لیے وہ سندھ کے مقدمات اور اپنے کیسز خود لڑتا تھا۔ اس نے ریاستی جبر اور حکومت کے غیر آئینی معاملات کے بابت کافی مقدمے داخل کیے۔ اور عدالت سے آئینی فیصلے حاصل کیئے۔
یہی سب تھا کہ اس وقت کے حکمران وزیراعلیٰ ۔ اعلیٰ عدالتوں میں اس کی طرف سے داخل کی ہوئی دفاع کی خاطر50سے لے کر200صفحات پر مشتمل دلیلوں اور کانٹوں کی طرح چھبتے سچے اورحقیقت پر مشتمل مواد کی وجہ سے بہت پریشان ہوتے تھے۔
جتوئی صاحب نے پاکستان میں بڑے بڑے آئینی بحرانوں پر عدالت سے فیصلے لیے۔ اور اس کی طرف سے دوحصوں میں انگریزی کتابوں نے اس وقت کے حکمرانوں کوہلاکر رکھ دیا۔ سندھ حکومت کے سربراہ خان بہادر محمد ایوب کھوڑو نے اس کو 1954میں گرفتار کیا ،پر اس نے عدالت سے رہائی پائی۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا آئینی بحران پیدا ہوا جس نے ملک میں موجود جمہوری سیاست کو پہلی دفعہ بڑا نقصان پہنچایا ۔ اور جمہوری سیاست کو روک کر آمریت میں مبتلا کردیا ۔ اس طرح پاکستان کی عدالت میں اس نے بڑی قانونی جنگ لڑی اور عدالت نے دوسرے آئین ساز اسمبلی کے لیے الیکشن کرانے کا حکم دیا۔ اور جتوئی صاحب یہ جنگ جیت گیا۔
15اکتوبر1955میں سندھ کے وڈیرے سیاستدانوں نے سندھ کے ساتھ بڑا ظلم کیا۔ انہوں نے مسلمان بھائیوں کے نام پر اپنی سیاسی مایوسی اور ناکامیوں کا بدلہ سندھ دھرتی اور سندھی قوم سے لے کر ون یونٹ قائم کرکے سندھ کے سیاسی اقتصادی آزادی ، ثقافتی اور تہذیبی شناخت ختم کرکے مرکز کے حوالے کیا۔ جس نے پھر سندھ صوبے کو مغربی پاکستان صوبے کا حصہ قرار دے دیا۔نہ صرف اتنا بلکہ صوبائی حکومت کے پاس موجود خزانے میں کروڑوں روپے بھی مرکز کے حوالے کیے ۔ کچھ سیاستدانوں نے شروع میں مخالفت کی بعد میں خاموش ہوگئے۔
کامریڈ حیدر بخش پہلے سندھی سیاستدان تھاجس نے کھلے عام ون یونٹ کی مخالفت کی ۔ اسی سلسلے میں اس نے سندھ کے دورے کئے۔ پر یس کانفرنسیں کیں پمفلٹ جاری کئے۔ خود تقسیم کئے اور ریل اور بسوں میں تقریریں کر کے عام لوگوں میں ون یونٹ کے سبب سندھ کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں آگاہ کیا۔ سندھ میں پہلی دفعہ کسی قومی مقصد کے لیے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا اسی طرح سندھ میں پہلے جتوئی صاحب نے عوامی شعور پیدا کر کے ون یونٹ کے خلاف ماحول پیدا کیا اور انڈر گراؤنڈ ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر کے بھوک ہڑتال کی ۔ سارے سندھ کے شاگردوں شاگرد تنظیموں ، لیڈروں ، قومی ورکروں ادیبوں اور دانشوروں نے اس کی آواز پر ساتھ دیا۔ اس کی طرف سے جاری کئے ہوئے ایک پمفلٹ نے تحریک کو طاقتور بنایا۔ انگریزی زبان میں حقیقتیں جب چھوٹے صوبوں سرحد اور بعد میں بلوچستان کے قائدین خان عبدالولی خان ، نواب اکبر بگٹی سردار عطا ء اللہ مینگل سردار خیر بخش مری اور میر غوث بخش بزنجو جیسے سیاستدانوں کے ٹیبل پر پہنچی تو انہوں نے جتوئی صاحب کی تحریک کی بھرپور حمایت کی ۔ ون یونٹ تحریک میں اسے گرفتار کر کے شاہی قلعہ میں قید رکھا گیا۔ جہاں پر اسے سخت ٹارچر کیا گیا۔ اذیتیں دی گئیں۔پر اس مجاہد نے حوصلہ نہیں ہارا ۔ آخر کار اسے آزاد کیا گیا۔
1957میں جنرل محمد ایوب نے پاکستان میں مارشل لا ء نافذ کیا تو حیدر بخش جتوئی کو گرفتار کر کے دوسال سزا دی۔ جتوئی صاحب نے جنرل محمد ایوب کے غیر آئینی سزا کے خلاف انگریزی میں پمفلٹ نکال کر جدوجہد کی ۔جنرل ایوب نے اس کو دسمبر1957سے اپریل 1958تک قید میں رکھا ۔کیس چلنے کے دوران اس نے عدالت میں اپنے مشہور شعر’’جیے سند ، جیے سند، جام محبت پی اے سند ‘‘ پر اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ یہ خالص بھارتی ہے۔تو جج صاحبان نے کہا کہ جیے سندھ کہنا کوئی گناہ نہیں بلکہ یہ ایک ثقافتی نعرہ ہے۔
سندھ میں کسان ہاری کمیٹی نے حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے بڑی تحریکیں چلائیں۔ اور کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے دور میں سندھ کے وڈیرے اور وزرا کسان ور کر سے ڈرتے تھے۔1948میں اناج کی بٹائی کا آدھا حصے کے لیے تحریک چلائی جس کے لیے اس وقت اناج کی سب سے بڑی منڈی شہدا د کو ٹ ضلع لاڑکانہ کو منتخب کیا گیا۔ اس تحریک میں جتوئی صاحب کے ساتھ مولوی نذیر حسین جتوئی ،مولوی عزیز اللہ جروار، کامریڈ عبدالواحد سومرواور دوسرے شامل تھے۔ دراصل بٹائی میں اگر 5خرار اناج ہوتا تھا تو زمیندار 3خرار اناج خود لے جاتا تھا۔ باقی دو خرار سے اوطاق کا خرچ ، بیچ اور ٹریکٹر کا خرچ اور ادھار وغیرہ نکال کر کسان کو جو بچتا ،دیتے تھے ۔ برابر کی بٹائی تحریک چلنے پر شہدا دکوٹ میں عہدیدار اور ہاری گرفتار ہوئے ۔ تحریک میں آخر ہاری حقداروں کو فتح حاصل ہوا۔ اور زمینداروں نے شکست تسلیم کرتے ہوئے برابری کی بنیاد پر اناج تقسیم کرنا شروع کردیا۔
1929میں دوسری تحریک ہاری ہارپ ایکٹ شروع ہوا جس کے لیے سرکار نے کمیٹی بنائی اور ہرضلعی ہیڈ کوارٹر میں زمینداروں اور کسانوں کے درمیان ملاقاتوں کے لیے اجلاس بلائے گئے۔ 15اپریل 1929میں دربار ہال لاڑکانہ میں اجلاس میران محمد شاہ کی زیر صدارت منعقد کیا گیا۔جس میں کسانوں نے زمینداروں کے بیگار اور اناج ہتھیانے کے مختلف طریقوں کے متعلق بیان دیے۔ جبکہ وڈیروں محمد ایوب کھوڑو ،فقیر محمد انڑ، محمد خان چانڈیو اور نواب غیبی خان چانڈیو کے بیٹے اور دوسروں نے کسانوں کے مخالف دلیل دیے ۔ اس موقع پر ڈامرھاکے گوٹھ کے وڈیرے محمدپناہ جو نیجونے اپنی روشن خیالی اور حق پر ستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس میں کسانوں کے حقوق کے مطالبوں کی حمایت کر کے اجلاس کے شرکاء کو حیرت میں ڈال دیا۔
حیدر بخش جتوئی کی کوششوں سے 1950میں سندھ ٹیننسی ایکٹ پاس ہوا۔ جتوئی نے 3اپریل 1950میں سارے سندھ کے کسانوں کو سندھ اسمبلی کی بلڈنگ کراچی پہنچنے کی اپیل کی۔ ان کے بلانے پر15ہزار کسان کراچی پہنچ گئے اور دھرنا دیا۔ سندھ میں کسان تحریک کے سیاسی قوت ، اہمیت اور اتحاد کی شاندارمثال پیش کی گئی۔ کتنے ہی کسانوں کو گرفتار کر کے بعد میں رہا کیا گیا ۔ پہلے تو حکومت نے کسانوں کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس اور فوج کی بڑی تعداد منگوائی ۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ مسٹر یوسف ہارون نے ملاقات کرنے کے لیے حیدر بخش جتوئی اور قائدین کو اسمبلی میں منگوا کر مذاکرات کیے ۔آخر کار اسمبلی میں 3اپریل 1950میں سندھ ایکٹ بحیثیت قانون پاس ہوا۔ یہ حیدر بخش جتوئی صاحب کی کرشمہ ساز شخصیت اور ولولہ انگیز قیادت کی کامیابی تھی۔
شاعری اور ادب کی خدمت کے جذبے کے تحت استعفیٰ دیا۔ پر انگریز کلیکٹر میک ملن نے حیدر بخش اور اس کے والد کو منگوا کر ہیڈ منشی کے عہدے سے استعفیٰ واپس کروایا ۔ کامریڈ نے شاعری سکول کے زمانے میں امام حسینؓ کی شہادت کے بابت مرثیہ پڑھتے ہوئے شروع کی۔
حیدر بخش جتوئی نے صحافت کی طرف کسان انقلاب کی وجہ سے توجہ دی ۔1945میں ہاری حقدار اخبار جاری کیا ۔ اور 1946میں لاڑکانہ سے ہفتہ وار اخبار کسان نکالا جو کہ سال1950تک جاری رہا ۔اس نے سندھ کا کیس ، قلم ، ادب ، صحافت ، قانون اور عقل کے ذہانت کے ساتھ لڑا۔
حیدر بخش جتوئی سندھ کا بہت بڑا عاشق تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں سندھ کے ساتھ سچا عشق کیا۔ کالج کے زمانے میں حیدر بخش جتوئی کا نام مشہور ہوا ۔ کالج میں1927میں ایک شاگردوں کی تنظیم ’’سرسوتی گروپ ‘‘تھا جو مشاعرے کرواتا تھا۔ 1931میں بطور تحصیلدار بدین ان کی پہلی کتاب تحفہ سندھ شائع ہوئی۔ جس میں شکوہ کا انسانی انداز اپنے مالک کے سامنے پیش کیا ۔ اس کتاب نے اس وقت سندھ میں بڑا مسئلہ پیدا کردیا۔ سندھ میں مذہبی انتہا پسندوں نے ان کی مخالفت شروع کردی۔ اور ایک تحریک ایوانوں میں بیٹھنے والوں نے شروع کی۔ کتنے ہی اجلاس منعقد ہوئے ۔ حیدر بخش جتوئی کو ملازمت سے ہٹانے اور اس کی کتاب کو ضبط کر کے پھانسی کے فتوے شامل تھے۔ اس سلسلے میں حیدر آباد میں ایک بڑا جلسہ ہوا۔ جلسہ میں گادی نشینوں کے علاوہ مخالفت میں سندھ اسمبلی کے سپیکر سید میران محمد شاہ ، خان محمد ایوب کھوڑو ، پیر علی محمد راشدی، نظر محمد پٹھان جیسے سیاستدان اور پیر حسام الدین راشدی جیسے ادیب شامل تھے۔ حیدر آباد کے کمشنر گبسن کے پاس بھی فریادی ہوئے ۔ کمشنر نے حیدر بخش جتوئی کو بلا کر سمجھایا کہ کتاب واپس لے ۔ مگر حیدر بخش جتوئی نے صاف صاف جواب دے دیا ۔ جب فائل بمبئی کے گورنر کے پاس پہنچا تو اس نے فائل چیف ایگزیکٹو ٹو ایڈوائزر ٹو گورنر بمبئی سرشاہنواز خان بھٹو کی طرف بھیجا ۔ جس پر سر شاہنواز خان بھٹو نے نوٹ لکھا کہ سارے سندھ میں حیدر بخش جتوئی واحد قابل ، لائق اور ہوشیار مسلمان آفسرہے قابلیت کے علاوہ ایمانداری اور دیانتدار بھی ہے۔ اس قسم کی کتابیں اس سے قبل بھی شائع ہوئی ہیں ۔ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔اس لیے اس کیس میں بھی کسی خاص قسم کی کاروائی کی ضرورت نہیں۔
شاعری میں خاص طور پر تحفہ سندھ نظم، سندھ پیاری نظم ،حیوان نظم ،اے سندھی وڈیرا کجھ انسان بھی ۔ اے مٹی جیجل سو نھاری سندھ ضبط تحصیل بلوچستان زندہ باد ، ہاری انقلاب اور شرکمدار جاکارنامہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی شاعری میں جوش وجذبہ پیدا کرنے اور غیرت جگانے کے شاھکار شعر شامل ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے اس رہبر کی شائع ہوئی کتابوں کی تعداد 17ہے۔ جن میں سندھ اسمبلی الیکشن پٹیشن ۔ بل ٹو امینڈسندھ ٹیننسی ایکٹ 1950،ڈیموکریسی اینڈ ڈکٹیٹر شپ اِن پاکستان، ڈیموکریسی اینڈ جسٹس آف چیف جسٹس سال 956۔لینڈز ان سندھ، ھوشڈ اون ڈیم۔ شل سندھی لینگوج سٹی ان کراچی آرناٹ ۔ ان جسٹس لینڈ اسسمنٹ ریٹس اور ڈسپوزل آف اویکیو پراپرٹی سال 1957۔ ون یونٹ اینڈ ڈیموکریسی سال 1962۔ان جسٹس ٹو سندھ ۔اور اس کے علاوہ رویو آف قرآن شریف شامل ہیں جو کہ شائع نہ ہوا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں زنجیر پہن کر قوم کو ہتھکڑیوں سے آزاد کرایا۔ جب تک سندھ کی سرزمین پر سندھی قوم کا وجود ہے،بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کا نام سندھ سرزمین کے نامور شخصیات میں گنا جائے گا۔
مجھ نا چیز کو اس عظیم شخصیت کو دیکھنے سننے اور بات کرنے کا زندگی میں ایک بار موقع ملا۔ جب وہ ون یونٹ ٹو ٹنے کے بعد لاڑکانہ آیا تو ریلو سٹیشن پر تمام سیاسی پارٹیوں طلبہ تنظیموں نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ وہ گاڑی میں نہیں بیٹھے اور جلوس کی صورت میں پیدل جلسے میں پہنچے ۔میں نے اس کی تقریر سنی۔ ہم نے استاد عبدالواحد کٹپرکی قیادت میں اس کا استقبال کیا۔
وہ کامریڈ دوست محمد ابڑو وکیل کے ہاں مہمان تھا۔ میں نے گزارش کی کہ کامریڈ جیل کے تجربات کے بارے میں کچھ بتائیں حیدر بخش نے کہا کہ میں نے مختلف مواقع پر جیل میں آرام کے ساتھ سندھی اور ا نگریزی کتاب لکھے۔ تقریباً شاعری جیل میں کی ۔ جیل میں رہتے ہوئے سندھ کا مقدمہ لڑا۔ جیل میں جانے کے بعد دوست و رشتہ دار ملنے نہیں آتے تھے۔ بار بار جیل میں جانے کی وجہ سے میرا بیٹا دادن بھی ملنے نہیں آتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ خود ہی آزاد ہوکے آئے گا۔ میں جیل میں رہتے ہوئے اپنے کیس خود لڑنے لگا ۔ کیونکہ میں سندھ اور سندھیوں کا وکیل ہوں۔
کامریڈ نے اپنے عمل اور کردار سے سندھ دھرتی سے دوستی کا کردار اداکیا۔ اس کے ہاں رتبہ اورحیثیت نہیں بلکہ تحریک اور نظریہ کے ساتھ وفاداری موجود ہے۔ وہ ان تنقید کرنے والے انسانوں میں سے نہ تھا جو صرف سماجی برائیوں پر تنقید کرتے رہیں بلکہ وہ ایک سچے انقلاب لانے والے انسان تھے ۔کیونکہ جب تک سماج کے بنیاد نہ بدلے جائیں تب تک شخصی نیکی کسی کام کی نہیں اس نے مزدور اور کسانوں کی حاکمیت کی جدوجہد میں اپنے آپ کو تکلیفیں دے کر حق کی بات کی۔
کاش آج جدید سہولتوں اور شعوری دور میں کامریڈجتوئی کا نظریہ اور پارٹی کسی کونے سے عملی جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتی۔ کسانوں کے دیئے جلاتی تو جتوئی مرحوم کی زندگی کا خواب پورا ہوتا، ان کی زندگی کے جدوجہد کا مقصد حاصل ہوتا ۔
۔1970سے انقلاب کا یہ باب ختم ہوگیا۔ کاش پھر کوئی حیدر بخش جتوئی پیدا ہو کرہاری حقدار کا نعرہ لگا کر حقداروں کو حقوق دلائے۔