اکتوبر کی ایک صبح جب کرونیکل اوف وونڈ اپ کے خالق جاپانی ادیب ہیروکی مورا کامی کے چاہنے والے بے چینی سے ان کے نوبل انعام پانے کی خبر کا انتظار کر رہے تھے حیران رہ گئے جب یہ انعام ایک برطانوی ادیب کازو ایشی گورو کے حصے میں آگیا . میں نے اس کا نام گوگل سرچ میں ڈال کر کچھ معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کی تو مایوسی نے میرا دامن تھام لیا جہاں فارسی کی بے شمار سائٹس تو اس کے تذکرے سے بھری ہوئی تھیں لیکن اردو میں ذرہ بھر مواد ہاتھ نہ آیا ، اپنی لاعلمی پر کف افسوس ملتے ہوئے بی بی سی اور گارجین کی ادبی سائٹس سے استفادہ کرنے پر اکتفا کیا ۔
کازو ایشی گورو برطانوی ناول نگار ہے جو 1954 کو ناگا ساکی جاپان میں پیدا ہوا لیکن پانچ سال کی عمر میں ہی اس کے والد کو ماہر بحریات کی حیثیت سے برطانیہ میں نوکری مل گئی اور وہ اپنے خاندان سمیت برطانیہ منتقل ہو گیا ۔ برطانیہ کے تعلیمی اداروں سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کازو ایشی گورو نے کینٹ یونیورسٹی سے فلسفہ اور انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی ۔
ماسٹرز میں اس کا میدان تخلیقی تحاریر سے متعلق تھا جس میں پیش کیا جانے والا مقالہ ہی اس کے پہلے قابل ذکر ناول کی بنیاد بن گیا جو کہ دی پیل ویو ا وف ہلز کے نام سے میں شائع ہوا اس ناول کو ونفرڈ میموریل ایوارڈ بھی ملا ۔ یہ ناول برطانیہ میں رہنے والی ایک ایسی جاپانی عورت کے بارے میں ہے جس کی جوان بیٹی دو ملکوں کے بیچ ایک خیالی زندگی گزارنے والے نوجوانوں کی طرح مایوسی سے دوچار ہو کر خود کشی کر لیتی ہے ۔
پھرمیں اس کا دوسرا ناول دی ریمینز اوف دی ڈے شائع ہوا اس ناول پر اسے بکر پرائز سے نوازا گیا اس ناول پر جو فلم بنائی گئی وہ بھی آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئی اس مووی میں سر انتھونی ہاپکنز اور ایما تھامپس نے مرکزی کردار ادا کئے ہیں یہ انیس سو تیس کے زمانے کی کہانی ہے جس کا مرکزی کردار ایک انگریز بٹلر اپنے مالک کے لئے اتنا وفادار ہوتا ہے کہ اپنے والد کے بستر مرگ پر ہونے کی خبر سن کر بھی ان سے ملنے کے بجائے اپنی مالک کی خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا مالک ہٹلر اور نازیوں سے ہمدردی رکھتا ہے بٹلر اپنے مالک کے انتقال کے تیس سال بعد جب ایما تھامپسن یعنی گھریلو خادمہ سے ملتا ہے تو اپنی وفاداری پر پچھتاو ے کا اظہار کرتا ہے ۔
نوبل انعام یافتہ ایشی گورو نے ناولوں کے علاوہ کئی فلموں اور ٹیلی ویژن کے لئے بھی سکرپٹ لکھے ہیں ان سب کی کہانیوں کا مرکزی خیال وقت ، پرانی یادیں اور خود فراموشی کی کیفیت کے گرد گھومتا ہے ۔
نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے سب سے زیادہ اس کے تازہ ترین ناول دی بیریڈ جائنٹ کو سراہا ۔یہ ایشی گورو کا ساتواں ناول ہے جس میں اس نے قصہ گوئی کی وہ تیکنیک استعمال کی ہے جس کے مطابق تھرڈ پرسن نیریٹر کہانی میں موجود تمام کرداروں کے جذبات اور محسوسات سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے اور انہیں اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری اپنے آپ کو اس انجان دنیا کا حصہ سمجھنے لگتا ہے جس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتا ہے ۔
سویڈش اکیڈمی کی مستقل سکریٹری سارا ڈینیز اس کے اسلوب کے بارے میں کہتی ہے ایشی گورو کا انداز تحریر جین آسٹن اور فرانز کافکا کا امتزاج ہے لیکن اس نے لطیف احساسات کی جو دنیا آباد کی ہے وہ اس کی اپنی ایجاد ہے ۔ بی بی سی کا آرٹس ایڈیٹر ول گو مپرٹز کے مطابق کہنے کو تو سب ہی مصنف کہانیاں سناتے ہیں لیکن ایشی گورو کی کہانیاں ان سے ایک قدم آگے ہیں جو حقیقت تو ہوتی ہیں ان کا ماضی حال اور مستقبل بھی ہوتا ہے لیکن یہ قاری کو ایک اور ہی متوازی دنیا کی سیر کراتی ہیں جن کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ کہانی پڑھتے پڑھتے وہ کس جہاں میں چلا گیا ہے ۔
میرے ذاتی خیال میں تو کازو ایشی گورو کا مختلف معاشرتی پس منظر اس کی کہانیوں میں ایک منفرد جہاں قائم کرنے میں مددگار ہے۔ وہ مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے کے باوجوداپنے آس پاس کی دنیا کو جس زاویہ سے دیکھتا ہے وہ کوئی چڑھتے سورج کی زمین سے طلوع ہونے والا تخلیقی ذہن ہی سوچ سکتا ہے اور یہ جاپانی نژاد برطانوی ادب کا نوبل انعام یافتہ تخلیق کار کازو ایشی گورو ہی ہو سکتا ہے جو عالمی ادب کو ایک نئی جہت سے روشناس کرانے میں کامیاب ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے