ڈھاڈر ۔ کاروشن خیال عالم شخص
والد صاحب بیان کرتے تھے کہ ہمارے پاس نایاب قیمتی کتابوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ دوحادثات ایسے ہوئے کہ کتابوں کا بہت بڑا حصہ ضائع ہوگیا۔ میرے والد پی اے آفس سبی میں ریڈر تھے ۔ اُس زمانے میں گرمیوں میں تمام ضلعی دفاتر سبی سے زیارت جاتے تھے۔ ایک سال معمول کے مطابق دفاتر زیارت گئے۔ کتابیں سبی میں تھیں شدید بارشوں کے باعث کچے مکان کی چھت ٹپکی، اور کتابیں دیمک کی خوراک بن گئیں، ددسری مرتبہ ڈھاڈر کے آبائی مکان میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی۔ اور دیگر سامان اجناس کے ساتھ کتابیں بھی جل گئیں۔ والد صاحب ذکر کرتے تھے کہ کچھ کتابیں مجھ سے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ملک صالح محمد لہڑی لے گئے۔ مگر پھر واپس بین کیں۔ ملک صالح محمد لہڑی علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’تاریخ بلوچستان ‘‘لکھی تھی۔
ان بچی کچھی کتابوں میں ایک رجسٹر ملا۔ اس رجسٹر میں ملا عیسیٰ لنگ کی تحریریں ہیں۔ رجسٹرمیں یاداشیں ، رباعیات ، افسانے ، اورادبی تحریریں، پڑھنے سے تعلق رکھتیں ہیں۔رجسٹر کے ہر ورق چمن میں رنگ رنگ کے پھول ، اشجار، تحریرات میں ہر ذائقے کے کھٹے مٹھے رس بھرے الفاظ کے دسترخوان ہیں۔ اب یہ رجسٹر’’ جام درک کتاب جاہ ثقافتی مرکز‘‘ کا قیمتی اثاثہ ہے۔
رجسٹر کے صفحہ نمبر39پر 31مئی 1935 کے زلزلہ کے متعلق لکھتے ہیں
اے فلکِ کج اِدا تجھ سے اُمید وفا ہوسکتی ہے؟۔ ہر گز نہیں۔ تو آئے تو بہار لاکر چمنِ دھر میں سبزگی دکھا کر ایک سیکنڈ کی حسین بہار ہونے پر جھٹ خارِ خزاں سے تاراج عالم کردیتا ہے۔
’’سبحان اللہ تختہ زمین بلوچستان میں کوئٹہ ایک عروسِ دھر شہر جس میں اقسام اقسام کے پھول ہویدا تھے۔ ملک ملک چمن کے پھولوں نے اس جگہ آکر اپنی بہار سجائی تھی۔ اِس کے کوچے اِس کی بازاریں اس رونق کے بس ایک لفظ پر قلم تھام لیتا ہوں۔
’’بابو محلہ کی ایک گلی جس میں کئی قسم کے پھول اپنی ناز انداز سے بہار کا زمزمہ دکھا کر عندلیبان کو ایک نظر نزاکت مفتوں کر لیتے ہیں۔
’’وہ شہر جس کی بربادی پر تمام دنیا نے ماتم کیا۔ واہ سبحان کمالِ قدرت ایک پلک مارنے پر اس رونق افروز شہر کوبرباد کردیا۔ ہزار آہ وفغان ناگاہ گھٹائے کالی غم والم کی پیام ماتم لائی ہے۔
’’شب جمعہ21ربیع الاول 1354سامانِ ماتم لا کر خوشہ چینانِ خرمنِ خوشی کوئٹہ والوں پر موت کی سیاہ چادر ڈال دی۔ ایک ناگہانی زلزلہ آنے پر اس زندہِ شہر کو منہدم کردیا ۔
’’ہر ایک برگِ گلاب چمن کو خواب عدم میں سُلادیا ۔ ویران وبرباد کردیا۔ جس آنکھ کے یہ عالم دیکھا۔ دریائے قطرات گرائے ہوں گے ‘‘۔
صفحہ نمبر49 پرایک مختصر تحریر۔ جو کسی بھی بڑے اردو افسانہ نگار کے افسانے سے کمال تحریر میں کہیں بلند ہے۔
’’ایک نازنین مہہ جبین جس کے رخسارِ حُسن سے پھول چمنسان مرجھا گئے تھے ۔مجھے باغ میں بیٹھے نظر آئی ۔اللہ کی قدر ت کا تماشہ نظر آیا۔
آھستہ جا کر اُوس کے گلِ رُخسار پر بے باکانہ بلبل وار بوسہ لیا‘‘۔
ملا غیسیٰ لنگ کو گل وبلبل رباعیات اچھی لگتیں تھیں۔ تودوسری طرف عوام کی بے کسی اورتکلیف پر تڑپ اٹھتا تھا۔ 1933میں جب خان احمد یار خان ریاست قلات کے حکمران بنے۔ تو کسی خوبصورت انداز میں عوام کی تکلیف کو بیان کررہے ہیں۔ تحریروں سے معلوم ہوتا تھاکہ ملا عیسیٰ لنگ ایک سیاسی ذہن رکھنے والا شخص تھا۔ ہوسکتا ہے کہیں آس پاس (سبی ، جھل) میں ہونے والی یوسف عزیز مگسی کی سیاسی بیداری نے انہیں متاثر کیاہو۔ رجسٹر کے صفحہ نمبر73پر لکھتے ہیں۔
’’عجب رنگِ دوران دیکھ کرمجھے عبرت کے دریا میں تیرنا پڑا(ملا عیسیٰ لنگ کا یہ ابتدائی فقرہ معنی خیز ہے) اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے بادشاہ عادل والئی قلات دام شوکت کو باجمعیت قائمی تاجدار بلوچستان خانصاحب میرا حمد یار خان سریرارائے قلات کو ہمیشہ کیلئے چون وچمن نو بہار سرسبزشگفتہ رکھے۔
’’اب کی دفعہ رعایا جو پہلے یتیم تھی۔ پبلک تمام کو خوشی کرنا چاہیے اب رعایا یتیم کا وارث آپہنچا ۔ہم سب کو لازم ہے ایسے عادل بادشاہ کے حق میں دعاکریں اور اِس بادشاہ عالی ہمت کو توفیق عدل دے ۔ رعایا غریب کئی مسکین ایسے ہیں ان کی فریاد کی پکار حضور سمع مبارک تک نہیں جاسکتی ۔بہ امر لازمی سرکار عالی کو چاہیے الہ انتظام قائم کرے کہ غریب سے غریب رعایا کی فریاد عالی جناب کے سمع مبارک تک جاسکے‘‘۔ 1355 ھ۔
صفحہ نمبر 80پر محبت کے عنوان سے ملا عیسیٰ لنگ اپنے دوست قربان کو لکھتے ہیں۔
’’مائی ڈیڑ قربان
گلدستہ فراق نوا عندلیب شیدا
ایک مدت سے رخسار گل شاید انوارسے محروم رہ کر آگِ جدائی میں جلتا رہا ہوں۔میرا تو من تخلیق میدان مہجوری کے طے کرنے سے عاجز رہ گیا۔ البتہ شیفتہِ دِل کا عالم بے قرار ہو کر آویز زلفِ عمبرین کو یاد کر کے تڑپا کرتی ہے۔ میری آنکھوں نے جو کہ بہارحسن کا نظارہ دیکھا ۔ دریائے آنسو کے موتی پروتی رہتی ہیں۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ زمانے کا کیا ڈھنگ ہے ۔ اور دنیا کس طرح گزر رہی ہے مجھے کچھ انہیں معلوم لاکن جب فوجِ حسنِ دلربا میرے لشکرِ اعضائے ضعیف پر چڑھ آتی ہے ۔ تو نوک خنجر دہائے تلوار،سنان تیروں سے میرا سینہ نشاں غرباں بن جاتا ہے۔
’’اِے بلبلدِن شیدا۔ اِئے بہار چمن دہر کے پھول چننے والواپنے اپنے چہچہے سے درو دیوارِ باغ کو نواسنج رکھنے والو تم اپنی مراد پر باکام زندگی بسر کررہے ہو۔ لاکن وائے آلم ہزار غم اَرئے میرا چھاتی میرا بدن جب کہ دلربا کے آغوش میں سرسبز تھا۔ اب اُس کی مجبوری کی آگ میں پا بہ خزاں کو عروج حاصل کررہا ہوں۔ میں نہیں جانتا مجھ پر کیا گزر رہی ہے میں مزرعہ خاطر جب باکام جیوں۔ کر حسین یار سے سبزگی حاصل کررہا تھا۔
آج بے دیدار کی وجہ سے شکار خزاں ہورہا ہوں
بہ نالہ بلبلے میکن کہ از گلزار دور افند
قیامت آنزمال باشد کہ یار از یار دور افند
جس دل میں درد نہیں وہ دل نہیں۔ جس د ل میں ’’شیدائی کا عالم نہ ہو۔ ہزار ہا بوجھِ غم عاشق بے چارہ اپنے مونڈھے پر اُوٹھائے پھرتا ہے۔ کوئے محبوباں میں مجنوں مفت بن کر کوہ ناغاؤ کو ٹکتے ٹکتے میدانِ پٹ بنا کر ندی دودھ نکال رہے ہیں ( ناغاؤ ڈھاڈر کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ٹکتے ٹکٹے کا مطلب آہستہ آہستہ کاٹنا۔ عبدالقادر رند)۔
’’اے درد والو۔ اِے عاشق شیدا کو تسکین والو آج میں کُرہ انگر میں انگاروں پر لوٹ رہا ہوں۔ میرا دلربا کے حسن سے ایک جام لا کر آگِ فراق پر ڈال دو کہ مجھے آرام ہو ۔
میں خاشا ہوتا ثمین ہوا سے اڑ کر کوئے محبوب میں پڑتا۔ وہ مجھ پر لات رکھتا ۔اف ۔اف ، اُف ، اُف وہ سینہ بلور یں ۔ وہ جیبن ماہ آنگین۔ چاہ غب غب میں عاشقوں کی نشینِ دامِ زلفانِ پہچان میں زغہ دِل کا لٹکنا ہے۔ حُسن کے باز ار میں جاں بازاں کی خریدگرم رہتی ہے۔ بہارحسن کے شیدا کیا ہجوم لا کر چمنستانِ محبت میں نوا ء شیدائی سے رنگ رلیاں کہہ رہیں ہیں۔
’’اِے عندلیبان باغستان حُسن دہرِ دوراں اقبال کے پھول چننے والو
’’دلبریان کے جوہر حسن کے جام پینے والو۔ اِے سرو قد محبوبان کے پامال ہونے والو۔ اِے گل فرزاں کی محفل میں سر باز ہونے والو
ذر اتھم تھم کے بازارِ نازنیناں میں چلنا کہ
گوہر حسن میں اثر گرویدہ ہو
شاداب ہیں وہ لوگ جس سے دردِ عشق ہو
بے درد لوگ خوار ذلیل خراب ہیں‘‘
(چاہ غب غب= تھوڑی کے نیچے لٹکا ہوا گوشت جوانسان کی خوبصورتی میں شامل ہے)۔
رجسٹر کے صفحہ نمبر82 پر اپنے ایک دوست ڈاکٹر جوزف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’میں تہہ دل سے جناب کی الطافِ شاہانہ کا مشکور ہوں۔ میری زندگی کا رشتہ حیات جوہرِ آنجناب کے حق میں بہ حواء صداقت بلاتا رہے گا۔ لیکن یہ بھی ایک موقعہ شکریہ کا ہے کہ خطہِ خاکِ بلوچستان میں گونا گوں بلدیات کے لوگ بہ سلسلہ ملازمت آئے ہیں۔ لیکن ہرایک شخص اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہوا چلا گیا۔ اور اپنے کیفر کردار کی ڈبی عملیات نیکی و بدی اکناف بلوچستان میں چھوڑ کر چل بسے۔
راقم نے بھی ہر ایک نووارد ملازم سے طریقہ یگانگت رکھا ہے۔ ہر ایک کی عادت اطوار کا سرمایہ حاصل کرتارہا ۔ لیکن مادرِ گیتی نے بطن سے کم اِس ضم میرے دوست جوزف جیسا لڑکا جنا ہوگا۔ اس کے جو صداقت پیلک کے حق میں مریضان ۔ غریبان کے متعلق سلوکِ شفقت کیا تھا۔ اور ہر دلعزیز ہونے کا طریقہ اختیار کیا۔ زمانہ آخر میں کم ملتاہے۔
’’خداوند کریم گورنمنٹ کو گو شِ شنوائی انصاف عطا کرے کہ ایسے شفیق ہر دلعزیز ڈاکٹر کی عہدہ افزائی کا حکم نافذ کرے ۔ یہ بڑا ریک خاندان جس کی گواہی صداقتِ بلوچستان کی سبزہ زارِ زمین کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے ۔ یہ ایک تحفہ انتخاب ہے۔ جو کہ محفل حریفاں میں بیٹھ کر اپنی تقریر کا داد دیتے ہیں ۔داد کیا ایک گوہر افشانی کا بازار گرم کرتے ہیں‘‘۔
صفحہ نمبر87 پر مدارج زندگی۔ کے عنوان سے مختصر افسانہ تحریر کرتے ہیں۔ یہ تحریر اس رجسٹر میں درج تمام تحریروں کا سرتاج اور ادب کا عطر ہے۔ گاؤں ڈھاڈر بلوچستان میں ایک ملا کے قلم سے لکھا جانے والا یہ مختصر افسانہ اردو ادب کا گلاب ہے۔ یہ افسانہ ملا عیسیٰ لنگ کلواڑؔ نے بعد ازِ نماز مغرب مُصلے پر بیٹھ کر لکھی۔ مصلے پر بیٹھ کر افسانہ لکھنے یا رُباعی لکھنے کا حوالہ ہمیں حافظ، خیام کی تحریروں میں بھی نہیں ملتا۔ یہ ایک نیا اور غیر معمولی انداز ہے کہ ایک ملا مُصلے پر تسبیح گھما کر حرام و حلال کے فتوے جاری کرنے کے بجائے اِحساس زندگی کی دل گُدازیاں بیان کرتا ہے۔ نثر میں شاعری کرتا ہے۔
مُلا عیسیٰ لنگ ایک پاؤں سے لنگڑا تھا۔ وہ چلنے پھرنے کے لیے گدھا استعمال کرتا تھا۔ وہ ایک مفلوک الحال شخص تھا۔ اس نے رجسٹر میں حاکمانِ شہر کے ناروا رویوں کے بارے میں نوٹس لکھے ہیں ۔ پارساؤں کے قیمتی قباؤں کے داغ دکھلائے ہیں۔ ملا عیسیٰ لنگ کی شادی ایک فاثر العقل عورت سے ہوئی تھی ۔ ملا عیسیٰ کو اکثر اِسے سنبھالنے میں تکلیفوں کا سامنا رہتا تھا۔ مُلا عیسیٰ لنگ لا ولد فوت ہوا۔ ملا عیسیٰ کی دیگر تحریریں اور کتابیں گردِ گمنامی میں دفن ہوگئیں۔
کچھ دن قبل میں نے قاضی نور محمد گنجابوی کے خاندان کے ایک فرد سے فون پر بات کی۔ اور ان سے پوچھا قاضی نور محمد گنجابوی کی کوئی کتاب وغیرہ آپ کے پاس محفوظ ہے۔ تو اِن کے پڑپوتے وزیر کلواڑ نے جواب دیا کہ 1972ہم نے دو کمروں میں بھری کتابیں پانی میں بہا دیں۔
یہ وہی قاضی نور محمدگنجابوی ہیں کہ جس نے جنگ نامہ منظوم لکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔مدارج زندگی۔۔۔۔۔۔
(1 )
میں نے اِسے بچپن میں دیکھا۔۔۔۔۔۔ وہ ایک روشن ستارہ تھی اور معصومیت کی ایک زندہ تصویر ۔ ابھی اِس کی صبح زندگی میں شفقِ شباب نمایاں نہیں ہوئی تھی۔ اِس کیلبوں پر تبسم تھا۔ اور تبسم میں مسرت ۔اس کی زندگی کے رفیق پھول تھے۔ اور وہ خود بھی پھولوں کی طرح نازک اندام اور معطر تھی۔ بناوٹ اور تصنع کے نام سے اِس کے کان نا آشنا تھے۔
۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔
پندرہ سال کے بعد میں نے اِسے پھر دیکھا۔ اس وقت اس کی کچھ اور ہی کیفیت تھی۔ وہ ایک پیکر حُسن ایک مجسمہ جاذبیت ایک تصویر رعنائی تھی۔ اِ س کے رخسار چاند کو شرماتے تھے۔ اِس کے لب یا قوت کو ، ہیرا کہلاتے تھے۔ اِ س کے دانتوں کی چمک سے مروارید پانی پانی ہوتا تھا۔ اِس کی آواز رُوح پر ور نغمہ تھی۔ وہ باتیں کرتی تھی تو اِس کے مُنہ سے پُھول جھڑتے تھے۔
وہ دنیا کے لیے رشک اور صرف ایک خوش نصیب کے لیے فخر کا باعث تھی۔
۔۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔۔
وقت پر لگا کر اُڑ گیا ۔۔۔۔۔۔ میں اِس کے قدموں میں کھڑا تھا۔ غنچہ گل ثمر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اِس کی گود میں ایک بچہ تھا ۔ وہ ایک سنجیدہ اور متین ماں بن چکی تھی۔ وہ اِس حالت میں پہلے سے بھی زیادہ دُلربا معلوم ہوتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔4۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ میں نے پھر اِسے دیکھا۔ آہ ۔ یہ وہ دِن تھا۔ جب وہ نمکشِ حیات سے تھک کر ابدی راحت کی نیند سوچکی تھی۔ تفکرات زندگی اسے متوحش نہیں کرسکتے تھے۔
آلام زمانہ کی اب اِسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ آسمانی روشنی اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔
وہ گذشتہ دنوں کی نسبت زیادہ حسین تھی۔
فقیر ملا عیسیٰ لنگ