سفر کا شور تھمے، رک کے اک نظر دیکھوں
میں منظروں میں کبھی دھند اور شجر دیکھوں

خدا کرے کہ مجھے لفظ تیرے مل جائیں
میں ان کو جھیل کے صفحوں پہ درج کر دیکھوں

تمہارے ساتھ کسی اور راستے پہ چلوں
ہوا کے پار کہیں آسماں کا گھر دیکھوں

مجھے پکارے، تْو چیخے، صدائیں دیتا رہے
میں دور ہی سے تیرا خوف اور ڈر دیکھوں

وہ انگلیوں سے ستارے زمیں پہ پینٹ کرے
کنارے بیٹھ کے میں اس کا یہ ہنر دیکھوں

اک ایسی راہ پہ جاؤں جہاں پہ چاروں طرف
کہیں غزل تو کہیں نظم کا نگر دیکھوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے