‘‘دانش کو ،آگہی کو، نہیں کر سکو گے قید
تابندہ روشنی کو ، نہیں کر سکو گے قید

مٰٹھی میں جگنوؤں کو دباؤ گے کب تلک؟
گٰھنگرٰو میں راگنی ، کو نہیں کر سکو گے قید

کٹ جائیگی چٹان ہر اک ظلم و جبر کی
بہتی ہوئی ندی کو ، نہیں کر سکوگے قید

سونا ہے جن کا کام، اٰنہی کے لیے ہیں جال
بیدار آدمی کو نہیں کر سکوگے قید

کب تک ہماری سوچ پہ پہرے بٹھاؤ گے؟
پھیلے گی، چاندنی کو نہیں کر سکو گے قید

زنجیرِ دشمنی پہ بہت فخر ہے تمہیں
یاروں کی دوستی کو نہیں کر سوگے قید

سارا ہی شہرِ جب ہو سراپا ئے احتجاج
ایسے میں ہر کسی کو نہیں کرسکوگے قید

گزرے ہوئے زمانوں سے زِنداں تو بھر دیے
اکیسویں صدی کو نہیں کر سکوگے قید

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے