جھگڑا وگڑا کچھ نہیں بس خاموشی ہے
اور اس خاموشی کے پس خاموشی ہے
آنکھوں سے زیادہ ہونٹوں سے بات کرو
پیار کھلا اعلان، ہوس خاموشی ہے
جیل سے چھوٹ کے آتے ہیں سب لفظ مرے
سب نظموں کا ایک قفس خاموشی ہے
چیخ ہے تیری آس میں اب تک سوئی ہوئی
جا کر اْس آواز کو ڈس خاموشی ہے
گیارہ سے بارہ تک شور ہے کانوں میں
پھر آنکھوں میں ایک سے دس خاموشی ہے
منہ لٹکا کر کیا ہو گا ہمزاد مرے
رو لے یا پھر زور سے ہنس خاموشی ہے
سن رکھی ہے پتھر کی گویائی بھی
ایسا بھی دیکھا ہے جرس خاموشی ہے
اسود بے معنی ہے عرق مری چپ کا
میر ے سخن کا سارا رس خاموشی ہے