نومبر 2017ء

یار ام تم کو قصہ کرتا ئے۔اس واری میں پھر نیا سنگت کا کوئی درَک مرَک نئیں تھا۔ام نے ٹریجڈی میجڈی کا موڈ بنایا ہواتھا۔ ام سوچ لگاتا رہا لگاتا رہا ابھی کیا کرے۔ ام نے بھی خود کو تسلی دیا عابدہ چُرت مت مارو مل جائے گااور پھر بابا کا میمان کا سنگت پر قبضہ کیا۔ ام نے بولا بابا جانے بابا کا میمان جانے۔ اچا والا رنگین سنگت کا دروازہ زور زور سے مارا تو دروازہ کُل گیا۔ اس دپعہ تو دروازے کا پاس کوئی خط مط بھی پڑا تھا ۔ ام نے سوچا کدھری کسی نا کسی کبوتر سے گر گیا ہوئے گا۔ اُٹھا کر جو کولا تو او توامارہ بھائی اسامہ امیر اور جاوید زہیر کا خط تھا۔ اس دونوں کو سنگت بوت اچھا لگتا ہے۔ اوس نے لکھا بھائی ام کوسنگت کاشاعری مائیری بوت اچھا لگتا اے۔ بھائی لوگ ام کو بوت خوشی ہوا تمارا خط کا خدا قسم۔لکھتا رہو۔
کچھ سننے مننے میں آیا اے کہ سنگت کا بیس سال پورا ہو گیا ہے۔وللہ ام بوت خوش اے۔ تم بولو ام کیسا خوش نئیں ہووے آخر امارا سنگت جوان او گیا ہے۔ او بابا کا ہانڈی وال نئیں اے ؟ وحید بھائی ۔۔۔ہاں ہاں وئی وئی ، اس نے ’ سنگت کا سنگتی‘ میں بوت اچھابیس سال کاجھلک دیا ام بھائی لوگوں کو۔
سچا بات ام کو یہ سیاست کا نا سر سمجھ آتاتھا نا پیر ۔ لیکن بابا کا کتابیں متابیں پڑھا اور سنگت کا شونگال۔ شونگال کو تو تم سمجھتا اوئے گا ۔ نئیں سمجھتا ؟ یارا نازوانی نئیں کرو۔ ام نے خود تمارا منہ سے کتنا دپعہ شونگال کا لپَظ سنا ۔ہاں تو ام تم کو بول را تھا کہ بابا نے اس میں بولا کہ برگزیدگی او بادشاہی کسی کا میراث نیءں۔اور یہ بھی بولااو جو بھنگ کا سُوٹے مُوٹے مارتا اے او بھی بولتا اے ام نے روس کو توڑا اے۔لیکن سچا بات اے کہ یہ واقعہ، اس کو توڑنا موڑنا تاریخ کو واللہ کہ جو ختم کرے وے او اسی کا تسلسل اے۔
یارا کوئٹہ کا سردی بوت بڑھ گیا اے ۔سب وختی گھریں بند کر لیتا اے، روڈیں موڈیں خالی ہوتا ہے۔ ام کو پرانا زمانہ کا کوئلہ کا سٹوپ یاد آتا اے۔ جیسا جیسا سردی بڑھتاجاتا اے ام کو قصے کہانیاں پڑھنے کا شوق ہو جاتا اے لیکن اس دپعہ سنگت کا خالی ایک قصہ تھا۔ بابا نے ترجمہ کیا تھا ۔ام کو ایسا مزہ دیا خدا قسم پوچھو مت۔ قصوں کا کمی اسی ایک قصے نے پورا کر دیا۔
امارا بلوچستان کا یہ کھوسہ قبیلہ نئیں ؟ ام اس کا تاریخ کا بارہ میں کچھ نئیں جانتا تھا لیکن خدا خوش رکھے وے امارا بھائی لوگ کیا اچھا نام تھا۔ ہاں یاد آیا نظام الدین اور محمد نوازکھوسہ اس نے ایسا اچھا معلومات دیا۔ اس نے بولا بلوچ کوئی عرب مرب نئیں اے۔اس نے بلوچ کا ٹوٹل شجرہ بتا دیا ۔بولا پاکستان کا سارا بلوچ جلال خان کا اولاد اے۔ ٹِیک اے بھائی ام نے کونسا بولا جو جلال خان کا اولاد نئیں ہویگا۔
او یارا قاری ام بولتا اے کہ یہ یادیں آدمی کو کتنا خراب کرتا اے جب اپنا کوئی پیارا ہو جاوے اور ام سے دور او جا وے تو خدا کاقسم خانہ خراب ہو جاتا اے۔ سنگت میں دو مضمون ایک تو اکبر بارکزئی کا تھا جو اس نے امارا بابا عبداللہ جان کا بارہ میں لکھاتھا اور دوسرا امِ مہر سلطانہ کا تھا جو مامی جمالدینی کا بارہ میں تھا۔ دونوں نے اپنا اپنا یاداشتیں لکھا تھا ۔ام کومزہ تو بوت آیا لیکن سچا بات اے ام کو بوت زور بھی دیا کہ ام اس کا زندگی میں اس سے کیوں نئیں ملا خیر اپنا اپنا قسمت۔ ام پھر بھی خوش اے کہ اس کا قافلے میں تو ام اے ای اے۔کسی نے کیا اچھا بات کیا اے کہ یادیں تو ماضی کا چابی نئیں ہوئے گا بلکہ یہ چابی ہوئے گا مستقبل کا۔
اچھا ایک اور مضمون کا بات ابھی سنو اس کو لکھا تھا امارا نورین بین نے۔ وئی نورین لہڑی جو سمو راج ونڈ تحریک کا صدر بھی اے۔ ایسا مضمون لکھا خدا قسم امارہ مغَز کھول دیا۔ اس نے ’ بچوں کا جنسی تشدد‘ پر لکھا۔ خدا مارے ایسا لوگوں کو جو ایسا کامیں کرتا اے۔ لکھاتھا یہ ضروری نئیں کہ خالی لڑکی کا ساتھ تشدد ہوجاوے آج کل کا زمانہ میں لڑکا کا ساتھ بھی ہوتا اے۔ اور یہ بھی بولا کہ خامخا نا آشنا لوگ نئیں کرتا اے ، یہ شناختہ لوگ ہو جاوے، اپنا رشتہ دار ہو جاوے یا استاد مستاد کوئی بھی یہ کرتا اے۔ پاکستان میں بوت تیزی سے او رہا اے۔ ماں باپ کو اپنا بچہ لوگوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
عابد میر نے اس واری ٹیچر پر مضمون لکھا ۔اس نے بولاماشٹری کرنا،استاد مستاد ہونا ایک بوت بڑا ذمہ داری کا کام اے، ابھی اتنا آسان بھی نئیں اے۔ او بولتا اے بھائی لوگ استاد ہونا کا سیدا سیدا مطلب اے ذمہ دار ہونا۔ اور ذمہ دار ہونا ای تو سچا بات اے انسان ہونے کا نشانی اے۔ کیا اچھا بات کیا اس نے۔او خانہ خراب جو جو ذمہ دار نئیں اے ام اس کو کیسا ٹیچریں مانے۔
اعظم زرکون صیب نے لیبر قانون کے لئے بوت اچھا اچھا تجویزیں دیا ۔ اور بھی بوت باتیں ماتیں تھا لیکن یہ بولا کہ لیبر قانون کو ایک جاکرکے بوت سادہ اور قابلِ عمل بنانا چاہئے۔ ہاں یہ اچھا بات بولا تاکہ اس پر عمل توہو جاوے۔
قاضی دانش صدیقی صیب نے ایک نکور شاعر سے ملوایا ۔ ہاں نیا بولے گا نا کیوں ام تو نئیں جانتا تھا اس کو۔ اس کا نام اے کاشف حسین غائر۔ بس ام کوایک گلا اے کہ اتنا چھوٹا مضمون لکھا تھا او بھی شعر معر بوت ڈال دیا تھا۔ توڑا زیادہ لکھتا امارا بھی سیری او جاتا۔ سچا بات اے شعر اچھا تھا امارا دل کو لگاکیوں جوٹ بولے۔
اس واری ’ کتاب پچار‘ میں دو تبصرہ تھا۔ عابدہ کا دوڑ تو بابا تک اوتا اے۔ تو بس سمجھ جاؤ کہ ایک اس نے بابا کا کتاب ،’ مزدک‘ پر تبصرہ تھا او دوسرا تبصرہ اس نے گزرا ہوا مہینہ کا سنگت پر تبصرہ لکھا تھا۔ ام کو نئیں معلوم خانہ آباد تم لوگوں کواچھا لگتا اے نئیں لگتا اے۔
ام نے، او جاوید اختر صاب نے اور عابد میرنے حال احوال بھی کیا۔ تم کیوں ہنسے گا ام سچ بات کر رہا اے۔چار رپوٹیں دیا۔جاوید صاب نے ساتواں سنگت کابینہ الیکشن کا رپورٹ دیا تھا۔ عابد نے ایک سنگت سینٹرل کمیٹی کا میٹنگ کا رپورٹ اور دوسرا اس نے سنگت ایڈوٹوریل بورڈ کا میٹنگ کا رپورٹ دیا تھا۔ عابدہ رحمان نے ایک رپورٹ دیا تھا اپنا سمو راج ونڈ تحریک کا سرکل کا رپورٹ دیا تھا۔
ایک تو بابا ایسا اچھا کامیں کرتا اے۔ او سکتا اے ام کو اچھا لگتا ہو ۔ او یہ کہ بابا امارا پرانا بڑا لوگوں کا او تم لوگوں کا زبان میں ’تحریریں‘ سنگت میں چھاپتا اے۔ اس واری اس نے ام تم کو بتاوے کیا دیا تھا؟۔ تم نے سنا ہوئے گا عبدالصمد خان اچکزئی صاب نے 19 34 میں پشین عدالت میں بیان دیا تھا۔ ام کوپڑھ کر ایسا مزہ دیا ۔ وللہ ام کو تو فیڈل کاسٹرو بھائی کا عدالتی بیان یاد دلادیا۔ کتنا سچا ، نڈر اور وطن سے مخلص لوگ تھاامارا بزرگ۔
ام کو ایسا لگتا اے ام نے بھائی بہن کو بور کر دیا ۔ سچ بتانا تم کو خدا کاقسم اے۔ خیر اے چُرت نئیں مارو ام ابھی شاعری مائری کا بات بھی کرے گا۔ایسا ایسا نامی شاعر اے امارا سنگت کا کیا بولے ۔ ابھی نور محمد شیخ کو لے لیو ، بولتا اے؛
ایک اچھی زندگانی کے سنہرے اصول
ذہن بیدار/دل زندہ/احساس سچا/جذبہ پر خلوص/ضمیر روشن/زندگی متحرک
اڑے واہ کیا بات کر دیا۔
نوشین قمبرانی کا شاعری تو ام کوبوت مزہ دیا اے طبعیت خوش ہو جاتا امارا۔ اس نے اپناشاعری اس وار سلویا پلاتھ کا نذرکیا تھا بوت امارا دل کو لگا۔
قندیل بدر لوگ تو سارا خاندان سنگت پر چھایا ہوا ہے۔ ایسا ایسا شعریں بولتا ہے آدمی کا عقل دنگ رہ جاتا اے۔
اب بلال اسود کا سنوکیا بولتے؟ بولتے
بنجر سینے اندر سرخ محبت بیجو
خشکابے میں سبزے کا پاتال بڑا ہے
ابھی خود بولو اچھا ہے کہ نئیں ۔ابھی کدھری جاو نیءں نا بیٹھو ام تم کو انجیل کا نظم سناتا اے ، انجیل ’ تماش گاہ‘ میں بولتا اے:
کسان کو یہ کب پتہ ہے/کہ مٹی لیپا ہوا چولہا/سانس کی دھونی اور آنسوؤں/کے ایندھن سے جل رہا ہے!
تمثیل حفصہ نے بھی بوت کافر نظم بولا اے۔ لیکن قندیل بدر اس کا برابر کا نظم بولا ’ شام ڈھلنے کو ہے‘۔ امارا دل اس کو پڑھ کر بوت غمگین بھی ہو گیا۔ بوت اچھا تھا۔ ایک ٹکڑا تم پڑھ لیو۔
پربتوں سے پرے
لال گولہ گرا
اک دھماکہ ہوا
سرمئی دھول کا اک بگولا اڑا
چپ کی چادر تنی
کوئی کالک کی بوری فضا میں اچانک الٹ دی گئی
خوف کی ہوک سی
سہمی سہمی سی چڑیا ہمکنے لگی
اپنی ماں کے پروں میں سمٹنے لگی!
ثروت زہرا کا سنو ، وہ بھی ایسا اچھا لکھتا اے کہ پوچھو مت۔ اس کا نظم کا ’ صلیبِ زیاں سے‘ کا آخری حصہ پڑھو ؛
جھوٹ اور خوف کی آنکھ عادی نہیں
کوئی مجرم نہیں، میں فسادی نہیں
تیر و دشنام کا وار چلتا رہے
کیلیں دھنستی رہیں، خون رستا رہے!
ثبینہ رفعت صاحبہ کا نظم پڑھو خدا قسم کوئٹہ کا سردی کا طرح سیدھا دل پر لگتا اے ۔۔۔نہیں لگتا اے؟
سمندروں کی گہرائی /ناپنا نا ممکن ہے/خواہشیں سمندر ہیں/ماں/خواہشوں کو رہنے دے
اور پھر جو اس کا نظم ابھی سنانے والا اے وہ سردی میں مونگ پلی کا مزہ دیتا اے۔ نئیں دیتا اے؟
ہم اس کو تعلق نہ مانیں/جس /تعلق میں/جان نہ نکلے
انعام عزمی اپنا غزل میں قصہ کرتا اے؛
چراغ بن کے سدا اس لئے جلے ہم لوگ
ہماری ضد تھی کہ ہم کو ہوا دکھائی دے
فراز محمود نے کتناسچا بات کیا:
وہ کتنے خوش تھے جو کچھ بھی نہیں جانتے تھے مگر
جو جانتے تھے وہ ہر دم ایک امتحان میں تھے
بلوچی میں بھی کچھ شعر میر تھا۔ ایک تو شوکت توکلی کا ’یا خداوند قدرتانی‘ تھا، جس میں اس نے خدا کا تعریپ ماریف کیا ، اچھا کیا۔ حنیف حسرت اور عبداللہ شوہاز کا ایک ایک غزل تھا۔ (ابی بلوچ دیکو، گزل دیکھو۔۔۔خدا کا قدرت ہے!)۔ شان گل نے بھی پابلو نرودا کا ایک شیئر بلوچی میں ترجمہ کیا، جتنا ام کو سمجھ آیا، اس میں یہ اپنا لینن کا تعریپ کیا تھا۔ ایک نظم ابن انشا کا بھی تھا، جس کو عابد میر اور ریشم بلوچ نے سرائیکی میں ترجمہ کیا تھا۔ ام کو سمجھ تو کیا آیا، بس سنگت میں سرائیکی دیکھ پر اَچالگا۔
ام آخر میں ایک بات کرے گا بھائی لوگ ناراض نئیں ہو جاؤ۔ امارا کچھ سنگت بین بھائی توڑا شارٹ مارٹ اے ماہتاک سنگت سے۔تم لوگ تو بوت اچھا لکھتا اے۔ توڑا ٹیم میم نکالو، لکھو۔ ام کو لکھنا آتا خدا قسم ہو جاوے ام اتنا بوت لکھتا۔ایسا نئیں کرو ام بھی تم سے کچھ سیکھے ویکھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے